مارک ٹیلی نے دیکھا ہم نے نہیں دیکھا
ہر وہ ملک جہاں دوسرے علاقوں یا ملکوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے،وہ اسلحے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
یہ کوئی نئی خبرتو نہیں کہ کراچی اورکوئٹہ، پشاوراور پنڈی لہو لہان ہیں۔قتل ہونے والوں کی،بوری بند لاشوں اور بارودی دھماکوں میں پارہ پارہ ہوجانے والوں کا ذکر بھی پرانی بات ہوچکا ۔
یہ بات کہ کراچی سے ایک ٹرک پکڑا گیا،جس میں بارود بھرا ہوا تھا یا یہ کہ پشاور اورکوئٹہ، اسلام آباد اوراوکاڑہ سے ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ ہاتھ لگی ہے حیران کردینے والی بات نہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب ہتھیاروں کو کراچی یا سارے ملک سے برآمد کرنے کی مخالفت ہوتی ہے۔کوئی کہتا ہے پہلے اسلحہ بنانے والے کارخانے سیل کرو اور کسی کی فرمائش ہوتی ہے کہ کراچی سے پہلے کسی اور شہر کی تلاشی لی جائے۔ کسی کا یہ ''دانشورانہ بیان'' سامنے آتا ہے کہ کراچی سے ناجائز اسلحہ برآمد کیا گیا تو 6 مہینے میں پھر آجائے گا۔ یہ بیانات دینے والے، یہ باتیں کرنے والے خوش رہیں لیکن کراچی یا پاکستان کاعام شہری جو ہر لحظہ خوف میں مبتلا ہے، وہ ان بیانات کو سن کر کیسے مطمئن ہوسکتا ہے۔
ناجائز ہتھیاروں کی جب بات ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ ٹینک، توپیں اور بمبار طیارے زیر بحث نہیں آتے۔ یہ چھوٹے ہتھیارہیں جنہوں نے ہمارے ہزاروں لوگ نگل لیے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے آسرا ہوگئے اور لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ خوف اور بے یقینی کے آسیب میں گرفتار ہوگئے۔ وہ خود سے زیادہ اپنے پیاروں کی سلامتی کے لیے ہر لحظہ دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن جانتے ہیں کہ ان کی دعائیں بلٹ پروف گاڑیاں نہیں جن پر دہشت گردوں کی چلائی ہوئی گولیاں اثر نہ کریں۔
ہر وہ ملک جو کسی نہ کسی سطح پر نسلی یا علاقائی تنائو کا شکار ہے یا جہاں دوسرے علاقوں یا ملکوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور وہ لوگ اسلحے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ وہاں صوبائی اور وفاقی حکومتیں صرف مہلک چھوٹے اسلحے کی غیرقانونی خرید وفروخت کو ہی سختی سے کچلنا نہیں چاہتیں بلکہ وہ غیر مہلک چھوٹے ہتھیاروں کے بھی خلاف ہیں۔ چند دنوں پہلے ماسکو میں ہونے والی ایک شادی کے شرکاء جو داغستان سے تعلق رکھتے تھے ، انھوں نے شادی کے جلوس میں اپنی روایات کے مطابق جی کھول کر ہوائی فائرنگ کی، نتیجے میں دولہا اور اس کے پندرہ جوان اور فیشن ایبل ساتھی گرفتار ہوئے۔
اس واقعے نے روسی حکومت کو پریشان کردیا۔ صدر اور وزیر اعظم دونوں نے اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دیا۔ ماسکو میں ہی ایک نوجوان خاتون پر اس لیے مقدمہ چل رہا ہے کہ رات گئے سفر کرتے ہوئے اس نے نشے میں دھت چند نوجوانوں پر اپنی پستول سے ربر کی گولیاں داغیں جن میں ایک گولی نوجوان کے پھیپھڑے میں گھس گئی اور اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ روسی پولیس کا کہنا ہے کہ ربر کی گولیاں اگر کسی کو شدید زخمی کردیں تو یہ بات قانون کے خلاف ہے۔ ان دنوں وہاں غیر مہلک چھوٹے ہتھیاروں کی قانونی خریدوفروخت پر سخت گرفت کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک طرف روس جیسی وسیع اور پولیس کا سخت گیرنظام رکھنے والی مملکت ہے جوغیر مہلک چھوٹے ہتھیاروں کے بارے میں اس قدر حساس ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ جس کے ہزارہا لوگ مہلک ہتھیاروں سے ہلاک کردیے گئے اور جس پر دہشت گرد قبضہ رکھنے کے عزائم رکھتے ہیں، لیکن ناجائز اسلحے کے خلاف کسی کارروائی کے بارے میں سب ہی نیم دلی کا شکار ہیں۔
اس وقت مجھے اٹھارہ برس پہلے چھپنے والا ایک مضمون یاد آرہا ہے جو بی بی سی کے ایک اہم نمایندے مارک ٹیلی نے لکھا تھا اور جس کا عنوان ہی''چھوٹے ہتھیار '' تھا۔ یہ ایک طویل تحقیقاتی اور نہایت معلومات افزا مضمون ہے۔ اس میں جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں وہ آج یقیناً بہت پرانے ہوچکے ہیں لیکن اس کی خوفناکی آج بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔مارک ٹیلی نے اپنے اس طویل مضمون میں پاکستان، ہندوستان، افغانستان اور سری لنکا کے بارے میں بہت سی تفصیلات بیان کی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سری لنکا دنیا کی بدترین خانہ جنگی کا شکار تھا اور تامل لڑکوں کی دہشت گردی کی دھاک دوردور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائو سے مغرب کو کسی قسم کی دلچسپی کیوں نہیں ہے اس نے لکھا کہ
''جنوبی ایشیا کے بہت سے لوگ اس عدم دلچسپی کو اس امر کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ مغرب کو بڑے بڑے مسائل پر صرف اُسی وقت تشویش محسوس ہوتی ہے جب یاتو اسے خود نقصان پہنچ رہا ہو یا وہ تیسری دنیا پر کسی معاملے میں فوقیت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ میں خود سے بھی یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کے بارے میں اس قدر تشویش ہے اور چھوٹے ہتھیاروںکے پھیلائو کی کوئی خاص پروا نہیں۔
میرے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو سے خود ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے جب کہ چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائی ہوئی تباہی یورپ کے سرحدی علاقوں اور ترقی پذیر ملکوں خصوصاً افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ملکوں تک محدود رہتی ہے۔ بلاشبہ ہم انگریزوں کو شمالی آئرلینڈ میں چھوٹے ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کی سخت فکر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے 77 ہلاکت خیز تنازعات میں سے 65 تنازعات ترقی پذیر ملکوں میں پیش آرہے ہیں۔ جنگ کے ان حالیہ میدانوں میں سپاہیوں اور شہریوں کو ہلاک اور زخمی کرنے والے ہتھیار ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ غیر ایٹمی چھوٹے ہتھیار ہیں۔
اگر ہم انگریزوں کو اپنے ہم وطنوں کے اسی طرح کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا، جیسے کشمیر، سری لنکا، صومالیہ، کمبوڈیا اور تیسری دنیا کے متعدد دوسرے ملکوں کے باشندے ہلاک ہورہے ہیں تو کیا تب بھی ہم چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائو کے سلسلے میں اتنے ہی بے پروا اور بے عمل رہتے؟کیا تب بھی ہم جنوبی ایشیا میں مسائل پیدا کرنے والی امریکی پالیسیوں کی اسی شدومد سے حمایت کرتے ؟وہ ایک پاکستانی جریدے کا حوالہ دیتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے۔ ''کراچی ایک ایسے چھوٹے قبائلی علاقوں میں تقسیم ہوچکا ہے جن پر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے ٹوٹے ہوئے دہشت گرد ٹولوں کا راج ہے اور ان کے باہمی رقابتیں بے حد پیچیدہ ہوچکی ہیں اور حکام کے بس میں صرف اتنا رہ گیا ہے کہ شہر بھر میں گھوم پھر کر لاشیں جمع کرلیا کریں۔''
چھوٹے ہتھیاروں کے مہیب پھیلائو کو وہ امریکا کی افغان مجاہدین کو غیر ذمے دارانہ طور پر اسلحہ سپلائی سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ اس نے ڈاکٹر کرس اسمتھ کا حوالہ دیا ہے کہ 1987 میں امریکا کی طرف سے مجاہدین کو دیے جانے والے یہ مہلک ہتھیار 65 ہزار ٹن سالانہ تک جا پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ یہ اب سے 25 برس پرانے اعدادوشمار ہیں۔ وہ یہ کہتا ہے کہ '' اگرچہ ہندوستان یا پاکستان کی ریاستوں کے ٹوٹنے کاکوئی فوری خطرہ نہیں، تاہم چھوٹے ہتھیاروں کے پیداکیے ہوئے خطرے آخر کار ایسے کسی سانحے کا سبب یقیناً بن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہی خطرہ ہے کہ اس قدر آسانی سے دستیاب ہتھیار دور دور تک پھیل جائیں گے۔ پاکستان میں تو یہ ہتھیار کراچی اور صوبہ سندھ سے باہر پھیل چکے ہیں۔ اب پاکستانی صوبہ پنجاب میں شیعوں اور سنیوں کی عبادت گاہوں پر مسلح حملے ہونے لگے ہیں۔
پچھلے سال صوبے سرحد کے مالاکنڈ نامی علاقے میں ایک مذہبی لیڈر مولانا صوفی محمد نے بیشتر سرکاری عمارتوں اور ایک ائیرپورٹ پر قبضہ کرلیا تھا اور دو ججوں اور ایک سرکاری اہلکار کو یرغمال بنالیا تھا۔ پاکستان میں بی بی سی کے رپورٹر ظفر عباس نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا کہ'' بغاوت کی خبرپھیل جانے پرسیکڑوں افراد پہاڑوں پر سے اترنے لگے جن میں سے اکثر نے کالی پگڑیاں باندھ رکھی تھیں اور پستول اور کاربائن سے لے کر کلاشنکوف (AK-47) رائفلوں تک ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔'' نیم فوجی دستوں کی کئی ہزار کی نفر ی کو علاقے کاکنٹرول واپس لینے میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگا،اور اس پر بھی انھیں مولانا کا مطالبہ ماننا پڑا کہ علاقے میں پاکستانی قانون کی جگہ اسلامی یا شرعی قانون نافذ کیاجائے۔
مارک کا یہ مضمون چشم کشا ہے۔ اس میں وہ یورپ اور امریکا کی حکومتوں، مغرب میں اسلحہ تیار کرنے والے کارخانوں اور تمام متعلقہ افراد پر شدید نکتہ چینی کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ذمے دار افراد اور اداروں نے اٹھارہ برس پرانے اس تحقیقاتی مضمون تک شاید نہیں پڑھا اور اگر پڑھا تو ایک ایسے 'گورے' کی بکواس سمجھی جو یہ کہتا ہے کہ میں بہ یک وقت انگلستان اورہندوستان کا شہری ہوں۔ اس کی بات پرکان دھرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ وہ یقیناً پاکستان کے بارے میں متعصبانہ اور غلط رائے رکھتا ہوگا۔دہشت گردوں اور مسلح گروہوں سے نمٹنے کی پالیسیاں بنانے والے ہمارے ذمے داران نے کاش اس مضمون کو پڑھا ہوتا، اس پر توجہ دی ہوتی تو شاید آج ہمارے ہزارہا نوجوان زندہ ہوتے۔ ان کی مائیں زندہ درگور نہ ہوئی ہوتیں۔ ان کے باپ ، بھائی اور دوست گریہ نہ کرتے اور حکومت دہشت گردوں کے خوف سے پورے ملک کو بند کرنے پر مجبور نہ ہوتی۔
یہ بات کہ کراچی سے ایک ٹرک پکڑا گیا،جس میں بارود بھرا ہوا تھا یا یہ کہ پشاور اورکوئٹہ، اسلام آباد اوراوکاڑہ سے ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ ہاتھ لگی ہے حیران کردینے والی بات نہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب ہتھیاروں کو کراچی یا سارے ملک سے برآمد کرنے کی مخالفت ہوتی ہے۔کوئی کہتا ہے پہلے اسلحہ بنانے والے کارخانے سیل کرو اور کسی کی فرمائش ہوتی ہے کہ کراچی سے پہلے کسی اور شہر کی تلاشی لی جائے۔ کسی کا یہ ''دانشورانہ بیان'' سامنے آتا ہے کہ کراچی سے ناجائز اسلحہ برآمد کیا گیا تو 6 مہینے میں پھر آجائے گا۔ یہ بیانات دینے والے، یہ باتیں کرنے والے خوش رہیں لیکن کراچی یا پاکستان کاعام شہری جو ہر لحظہ خوف میں مبتلا ہے، وہ ان بیانات کو سن کر کیسے مطمئن ہوسکتا ہے۔
ناجائز ہتھیاروں کی جب بات ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ ٹینک، توپیں اور بمبار طیارے زیر بحث نہیں آتے۔ یہ چھوٹے ہتھیارہیں جنہوں نے ہمارے ہزاروں لوگ نگل لیے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے آسرا ہوگئے اور لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ خوف اور بے یقینی کے آسیب میں گرفتار ہوگئے۔ وہ خود سے زیادہ اپنے پیاروں کی سلامتی کے لیے ہر لحظہ دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن جانتے ہیں کہ ان کی دعائیں بلٹ پروف گاڑیاں نہیں جن پر دہشت گردوں کی چلائی ہوئی گولیاں اثر نہ کریں۔
ہر وہ ملک جو کسی نہ کسی سطح پر نسلی یا علاقائی تنائو کا شکار ہے یا جہاں دوسرے علاقوں یا ملکوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور وہ لوگ اسلحے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ وہاں صوبائی اور وفاقی حکومتیں صرف مہلک چھوٹے اسلحے کی غیرقانونی خرید وفروخت کو ہی سختی سے کچلنا نہیں چاہتیں بلکہ وہ غیر مہلک چھوٹے ہتھیاروں کے بھی خلاف ہیں۔ چند دنوں پہلے ماسکو میں ہونے والی ایک شادی کے شرکاء جو داغستان سے تعلق رکھتے تھے ، انھوں نے شادی کے جلوس میں اپنی روایات کے مطابق جی کھول کر ہوائی فائرنگ کی، نتیجے میں دولہا اور اس کے پندرہ جوان اور فیشن ایبل ساتھی گرفتار ہوئے۔
اس واقعے نے روسی حکومت کو پریشان کردیا۔ صدر اور وزیر اعظم دونوں نے اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دیا۔ ماسکو میں ہی ایک نوجوان خاتون پر اس لیے مقدمہ چل رہا ہے کہ رات گئے سفر کرتے ہوئے اس نے نشے میں دھت چند نوجوانوں پر اپنی پستول سے ربر کی گولیاں داغیں جن میں ایک گولی نوجوان کے پھیپھڑے میں گھس گئی اور اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ روسی پولیس کا کہنا ہے کہ ربر کی گولیاں اگر کسی کو شدید زخمی کردیں تو یہ بات قانون کے خلاف ہے۔ ان دنوں وہاں غیر مہلک چھوٹے ہتھیاروں کی قانونی خریدوفروخت پر سخت گرفت کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک طرف روس جیسی وسیع اور پولیس کا سخت گیرنظام رکھنے والی مملکت ہے جوغیر مہلک چھوٹے ہتھیاروں کے بارے میں اس قدر حساس ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ جس کے ہزارہا لوگ مہلک ہتھیاروں سے ہلاک کردیے گئے اور جس پر دہشت گرد قبضہ رکھنے کے عزائم رکھتے ہیں، لیکن ناجائز اسلحے کے خلاف کسی کارروائی کے بارے میں سب ہی نیم دلی کا شکار ہیں۔
اس وقت مجھے اٹھارہ برس پہلے چھپنے والا ایک مضمون یاد آرہا ہے جو بی بی سی کے ایک اہم نمایندے مارک ٹیلی نے لکھا تھا اور جس کا عنوان ہی''چھوٹے ہتھیار '' تھا۔ یہ ایک طویل تحقیقاتی اور نہایت معلومات افزا مضمون ہے۔ اس میں جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں وہ آج یقیناً بہت پرانے ہوچکے ہیں لیکن اس کی خوفناکی آج بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔مارک ٹیلی نے اپنے اس طویل مضمون میں پاکستان، ہندوستان، افغانستان اور سری لنکا کے بارے میں بہت سی تفصیلات بیان کی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سری لنکا دنیا کی بدترین خانہ جنگی کا شکار تھا اور تامل لڑکوں کی دہشت گردی کی دھاک دوردور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائو سے مغرب کو کسی قسم کی دلچسپی کیوں نہیں ہے اس نے لکھا کہ
''جنوبی ایشیا کے بہت سے لوگ اس عدم دلچسپی کو اس امر کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ مغرب کو بڑے بڑے مسائل پر صرف اُسی وقت تشویش محسوس ہوتی ہے جب یاتو اسے خود نقصان پہنچ رہا ہو یا وہ تیسری دنیا پر کسی معاملے میں فوقیت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ میں خود سے بھی یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کے بارے میں اس قدر تشویش ہے اور چھوٹے ہتھیاروںکے پھیلائو کی کوئی خاص پروا نہیں۔
میرے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو سے خود ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے جب کہ چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائی ہوئی تباہی یورپ کے سرحدی علاقوں اور ترقی پذیر ملکوں خصوصاً افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ملکوں تک محدود رہتی ہے۔ بلاشبہ ہم انگریزوں کو شمالی آئرلینڈ میں چھوٹے ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کی سخت فکر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے 77 ہلاکت خیز تنازعات میں سے 65 تنازعات ترقی پذیر ملکوں میں پیش آرہے ہیں۔ جنگ کے ان حالیہ میدانوں میں سپاہیوں اور شہریوں کو ہلاک اور زخمی کرنے والے ہتھیار ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ غیر ایٹمی چھوٹے ہتھیار ہیں۔
اگر ہم انگریزوں کو اپنے ہم وطنوں کے اسی طرح کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا، جیسے کشمیر، سری لنکا، صومالیہ، کمبوڈیا اور تیسری دنیا کے متعدد دوسرے ملکوں کے باشندے ہلاک ہورہے ہیں تو کیا تب بھی ہم چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائو کے سلسلے میں اتنے ہی بے پروا اور بے عمل رہتے؟کیا تب بھی ہم جنوبی ایشیا میں مسائل پیدا کرنے والی امریکی پالیسیوں کی اسی شدومد سے حمایت کرتے ؟وہ ایک پاکستانی جریدے کا حوالہ دیتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے۔ ''کراچی ایک ایسے چھوٹے قبائلی علاقوں میں تقسیم ہوچکا ہے جن پر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے ٹوٹے ہوئے دہشت گرد ٹولوں کا راج ہے اور ان کے باہمی رقابتیں بے حد پیچیدہ ہوچکی ہیں اور حکام کے بس میں صرف اتنا رہ گیا ہے کہ شہر بھر میں گھوم پھر کر لاشیں جمع کرلیا کریں۔''
چھوٹے ہتھیاروں کے مہیب پھیلائو کو وہ امریکا کی افغان مجاہدین کو غیر ذمے دارانہ طور پر اسلحہ سپلائی سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ اس نے ڈاکٹر کرس اسمتھ کا حوالہ دیا ہے کہ 1987 میں امریکا کی طرف سے مجاہدین کو دیے جانے والے یہ مہلک ہتھیار 65 ہزار ٹن سالانہ تک جا پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ یہ اب سے 25 برس پرانے اعدادوشمار ہیں۔ وہ یہ کہتا ہے کہ '' اگرچہ ہندوستان یا پاکستان کی ریاستوں کے ٹوٹنے کاکوئی فوری خطرہ نہیں، تاہم چھوٹے ہتھیاروں کے پیداکیے ہوئے خطرے آخر کار ایسے کسی سانحے کا سبب یقیناً بن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہی خطرہ ہے کہ اس قدر آسانی سے دستیاب ہتھیار دور دور تک پھیل جائیں گے۔ پاکستان میں تو یہ ہتھیار کراچی اور صوبہ سندھ سے باہر پھیل چکے ہیں۔ اب پاکستانی صوبہ پنجاب میں شیعوں اور سنیوں کی عبادت گاہوں پر مسلح حملے ہونے لگے ہیں۔
پچھلے سال صوبے سرحد کے مالاکنڈ نامی علاقے میں ایک مذہبی لیڈر مولانا صوفی محمد نے بیشتر سرکاری عمارتوں اور ایک ائیرپورٹ پر قبضہ کرلیا تھا اور دو ججوں اور ایک سرکاری اہلکار کو یرغمال بنالیا تھا۔ پاکستان میں بی بی سی کے رپورٹر ظفر عباس نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا کہ'' بغاوت کی خبرپھیل جانے پرسیکڑوں افراد پہاڑوں پر سے اترنے لگے جن میں سے اکثر نے کالی پگڑیاں باندھ رکھی تھیں اور پستول اور کاربائن سے لے کر کلاشنکوف (AK-47) رائفلوں تک ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔'' نیم فوجی دستوں کی کئی ہزار کی نفر ی کو علاقے کاکنٹرول واپس لینے میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگا،اور اس پر بھی انھیں مولانا کا مطالبہ ماننا پڑا کہ علاقے میں پاکستانی قانون کی جگہ اسلامی یا شرعی قانون نافذ کیاجائے۔
مارک کا یہ مضمون چشم کشا ہے۔ اس میں وہ یورپ اور امریکا کی حکومتوں، مغرب میں اسلحہ تیار کرنے والے کارخانوں اور تمام متعلقہ افراد پر شدید نکتہ چینی کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ذمے دار افراد اور اداروں نے اٹھارہ برس پرانے اس تحقیقاتی مضمون تک شاید نہیں پڑھا اور اگر پڑھا تو ایک ایسے 'گورے' کی بکواس سمجھی جو یہ کہتا ہے کہ میں بہ یک وقت انگلستان اورہندوستان کا شہری ہوں۔ اس کی بات پرکان دھرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ وہ یقیناً پاکستان کے بارے میں متعصبانہ اور غلط رائے رکھتا ہوگا۔دہشت گردوں اور مسلح گروہوں سے نمٹنے کی پالیسیاں بنانے والے ہمارے ذمے داران نے کاش اس مضمون کو پڑھا ہوتا، اس پر توجہ دی ہوتی تو شاید آج ہمارے ہزارہا نوجوان زندہ ہوتے۔ ان کی مائیں زندہ درگور نہ ہوئی ہوتیں۔ ان کے باپ ، بھائی اور دوست گریہ نہ کرتے اور حکومت دہشت گردوں کے خوف سے پورے ملک کو بند کرنے پر مجبور نہ ہوتی۔