اک چراغ تھا جو گل ہوا…
ہر طرح کے سرد گرم موسم میں وہ اسکول سے سیدھے ہمارے گھر آتے اور ہمیں اضافی کلاسز دینے کے بعد وہ اپنے گھر جاتے۔
چائے کا کپ ہاتھ میں تھا اور فون میز پر، اس پر ''میسج'' جگمگایا تو اسکرین پر ذوالفقار کا نام نظر آیا، فوراً فون اٹھایا... ''سر امانت کا انتقال ہو گیا ہے...'' حلق میں ایک گولہ سا بنا اور آنکھوں تک پہنچ گیا۔
میں نے چائے کا کپ میز پر رکھ کر ''انا للہ و انا الیہ رجعون'' پڑھ کر اپنا دھیان اس فائل میں بٹانے کی کوشش کی جو کہ ایک اہم فائل تھی اور اسی وقت مجھے اس کا مطالعہ کر کے اپنی رائے بھی دینا تھی، مگر ارتکاز جانے کہاں کھو گیا تھا، دھیان کی تسبیح دانہ دانہ ہو کر بکھر گئی تھی۔ آہ سر امانت... ایک انسان نہیں... ایک ادارہ، ایک استاد نہیں... ایک عہد تھے۔ ان کا جانا نصف صدی پر محیط ایک عہد کا خاتمہ ہے اور ایک انسان کی کمی اس جہاں کو پیش ہو گی جو اپنی نوعیت کا واحد انسان میں نے اور بہتوں نے اپنی زندگیوں میں دیکھا ہو گا۔
گجرات کے نواح میں ''بوڑا'' اور ''پیارا'' نام کے دو گاؤں ہیں جو ایک دوسرے میں اس طرح ضم ہیں کہ انھیں ہر کوئی ''بوڑا پیارا'' کے نام سے جانتا ہے۔ امانت صاحب کا تعلق ''بوڑا'' سے تھا، زمیندار اسکول گجرات میں معلمی کے فرائض سر انجام دئیے مگر دراصل ان کے لیے دنیا کا ہر گوشہ تعلیمی ادارہ تھا، جہاں بیٹھتے تھے وہی جگہ درس گاہ بن جاتی تھی۔ میانہ قامت، اکہرا جسم، چہرے پر سجتی داڑھی اور نرم مگر اٹل لہجے میں بات کرنیوالے استاد، جن کے نرم لہجے کے باوصف ان کا رعب شاگردوں پر بلا کا تھا۔ شاگرد ان کا نہیں بلکہ وہ طالب علموں کا پیچھا کرتے تھے، جو شاگرد ذرا ڈھیلا نظر آتا اس کا اس دم تک پیچھا نہ چھوڑتے تھے جب تک اسے باقی ہم جماعتوں کے برابر نہ پہنچا لیتے تھے۔
بھائی جب زمیندار اسکول میں پڑھتے تھے تو ان کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے، امانت صاحب ہمارے گھر تک پہنچ گئے، آتے تو وہ ذوالفقار کی ٹیوشن کے لیے تھے مگر جانے کیسے ہم سب بہن بھائی ان کے شاگرد بن گئے۔ اس ٹیوشن کی وہ کوئی فیس نہ لیتے تھے، ہر طرح کے سرد گرم موسم میں وہ اسکول سے سیدھے ہمارے گھر آتے اور ہمیں اضافی کلاسز دینے کے بعد وہ اپنے گھر جاتے۔ ذوالفقار سے ان کی محبت اس کا باعث تھی، وہ کہتے تھے مجھے اپنے سب ذہین شاگردوں سے محبت ہے اور انھیں بام عروج پر دیکھنے کے لیے وہ اپنا آرام تک تج دیتے تھے۔ ان کے منع کرنے کے باوجود ان کے لیے سردیوں میں چائے اور گرمیوں میں شربت بنتا تھا اور دھرا ٹھنڈا یا گرم ہو جاتا تھا مگر وہ اسے چھوتے تک نہ تھے کہ اسے ان کی محنت کا عوضانہ نہ سمجھ لیا جائے۔
وہ ایک ایسا چراغ تھے جن کے ذریعے علم کی لو جانے کہاں کہاں تک پھیلی اور اس میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اگر ان کی تعلیمی قابلیت کا پوچھا جائے تو وہ ایم اے اسلامیات اور ایم ایڈ تھے مگر ان کے پائے کا انگریزی اور حساب کا استاد زمیندار اسکول کی تاریخ میں کوئی نہ ہوا ہو گا۔ ان کی اپنی پیاس ہی ایسی تھی کہ وہ ہر کسی کو سیراب کر کے تسکین محسوس کرتے تھے۔ کون سا استاد ایسا ہے جو شاگردوں کے گھروں پر جا جا کر انھیں بلا معاوضہ ٹیوشن دیتا ہے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ انھیں کامیابی ملے اور ان کا نام بلند ہو... دنیا بھر میں ان کے شاگرد جا بجا پھیلے ہوئے اپنے اپنے میدانوں میں جھنڈے گاڑ رہے ہیں مگر امانت صاحب کا نام کہاں اور کون لیتا ہے؟
لگ بھگ پچاس برس تک علم کی لو پھیلانے والے، تا دم مرگ استاد کے درجے پر فائز رہنے والے... کچھ عرصہ قبل گردوںکے مرض میں مبتلا ہوئے اور ان کا ایک گردہ بالکل ناکارہ ہو چکا تھا مگر ان کی استعداد نہ تھی کہ اپنا علاج کرواتے اس لیے اپنی صحت کا معاملہ انھوں نے کلی طور پر اپنے رب کے سپرد کر دیا تھا۔
ان کے شاگردوں میں سے ہزاروں کے حساب سے اس وقت ڈاکٹر ہوں گے مگر اپنی عزت نفس کے رکھوالے نے کبھی کسی کو ایک پائی کے لیے بھی رعایت کا نہ کہا ہو گا، اسی لیے وہ علاج نہ کروا سکے اور اللہ کی طرف سے مقررہ وقت پر انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔جس چھوٹے سے گھر میں انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز کیا ہو گا، وہ گھر عمر بھر ویسا ہی رہا ہو گا، کچھ کوشش انھوں نے کی ہو گی کہ وہ گھر رہنے کے قابل رہے۔
اس کے علاوہ دنیاوی اعتبار سے اس گھر میں زیبائش و آسائش تو درکنار... کوئی غیر ضروری چیز بھی نہ تھی۔ کسی کے قلب میں محبت کا کتنا وسیع دریا ہو سکتا ہے... اس کا اندازہ اب ہوتا ہے، اپنے ایک ایک شاگرد کو وہ نام اور اس کی شکل سے پہچان لیتے تھے اور کسی حد تک یہ بھی کہ اس کی کیا کمزوریاں تھیں اور کس مضمون میں انھیں اس پر خاص توجہ دینا پڑتی تھی۔
خود بھی وہ یقینا عام سرکاری اسکول سے پڑھے ہوں گے جو کہ اس وقت ان کے گاؤں میں ہو گا مگر اس شخص نے دنیا کو ایک درس گاہ سمجھا اور اپنے تجربات سے ہی اتنا کچھ سیکھا کہ آج کے دور میں اس طرح کی طلب کا ہی فقدان ہے۔ نہ صرف انھیں حساب اور انگریزی پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ نہ پڑھنے کے باوجود ایک بہترین نفسیات دان تھے... شاگردوں کو اس وقت ''یار'' کہہ کر مخاطب کرتے تھے جب انھیں غصہ آتا تھا، اور ان کے اس لفظ کے تمام معانی و مطالب شاگردوں پر عیاں ہو جاتے۔ ان کے ماتھے پر بل تک نظر نہ آتا تھا جب وہ کوڑھ مغزوں پر سر کھپا رہے ہوتے تھے۔
انھوں نے کبھی کسی کے لیے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ان کا بھی پیچھا نہ چھوڑتے تھے جو ان سے اپنا پیچھا چھڑوانا چاہتے تھے۔ کسی کمزور طالب علم کو ان سے بعد از اسکول پڑھنے میں دلچسپی ہو نہ ہو... انھیں اس سے کیا غرض، چراغ کا کام تو لو دینا ہے... ہر شے کو لو دیتا ہے، بادل کا کام برسنا ہے، ہر جگہ برستا ہے اور اللہ کی رحمت سب تک پہنچاتا ہے۔
جانے اپنی سرکاری ملازمت کی تنخواہ سے ان کے گھر کا چولہا کیسے جلتا ہو گا؟ جانے انھوں نے کس طرح اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے تین بیٹوں کو پڑھایا ہو گا اور وہ بھی پڑھ لکھ کر عام نوجوانوں کی طرح حصول ملازمت کے لیے جابجا بھٹکے ہی ہوں گے، امانت صاحب سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے یا اپنے بچوں کے ذاتی فائدے کے لیے کسی کا احسان اٹھائیں ممکن ہی نہ تھا، اسی پر شاید چراغ تلے اندھیرا کی مثال صادق آتی ہے کہ جس نے علم کی شمع سے محبت کی، اس لو کو دنیا بھر تک پھیلایا، جہاں تک اس کی دنیا کی وسعت تھی، اس کا اپنا گھر اس لو کی کسی بھی قسم کی فیضیابی سے محروم رہا... وہ کوئی سرکاری افسر تھے نہ کوئی سیاسی شخصیت جو حکومتی مراعات کے دروازے ان پر وا ہوتے!!!
کسی کے آگے سر جھکانے کے قائل تھے نہ ہاتھ پھیلانے کے، ان کی اپنی انا تھی اور اپنا انداز جو انھیں ہر کسی سے ممتاز کرتا تھا... بلکہ اب بھی کرتا ہے۔ چشم فلک اس طرح کے انسان ہر روز نہیں دیکھتی اور دھرتی ماں اس طرح کے لعل ہر روز نہیں پیدا کرتی۔ وہ پیدائشی استاد تھے... ان کا ہر ہر انداز قابل تقلید تھا، ان کی سادگی، درویشانہ طبیعت، سادہ لباس، بے خوفی، اپنے پیشے سے وابستگی اور دیانتداری، بچوں سے ان کا لگاؤ، فرض شناسی، منکسر المزاجی اور قناعت اس درجے کی تھی کہ کسی اور میں ان سب اوصاف کا یکجا ہونا ممکن نہیں۔
دنیاوی اعتبار سے سر امانت نے کوئی ظاہری ترقی نہیں کی، مگر دنیا بھرمیں بکھرے ہوئے ان کے شاگرد ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے بیٹوں کو تو یہی محسوس ہوتا ہو گا کہ ان کے باپ نے ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، مگر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے جلائے ہوئے چراغ، ان سے فیض یاب ہونیوالے دنیا بھر میں اس لو کو کسی نہ کسی صورت پھیلا رہے ہیں اور آج صرف وہ نہیں... امانت صاحب کے سارے شاگرد ان کی شفقت سے محروم... خود کو یتیم محسوس کر رہے ہیں!!!! اللہ تبارک تعالی انھیں بہترین درجات عطا کرے، آمین!!!