نیو یارک سے کویت سٹی تک

معیشت کے فیصلہ کن حصول تک اس کی براہِ راست رسائی ہونے کی وجہ سے محنت کش طبقہ اسے روکنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔


Zuber Rehman November 24, 2012
[email protected]

1886 میں شکاگو، امریکا میں4 مئی کو چھ کامریڈوں کو گرفتار کرکے سات ماہ بعد عدالتی فیصلے کے تحت پھانسی دے دی گئی۔

جسے عدالت اور شکاگو کے گورنر نے یہ تسلیم کیا تھا ان کے ساتھ یہ ناانصافی ہوئی تھی۔ آج ساری دنیا ''یومِ مئی'' مناتی ہے۔ اس کے بعد سب سے بڑا واقعہ ''وال اسٹریٹ قبضہ تحریک'' ہے، جو نیو یارک سے شروع ہوا اور پھر 88 ملکوں کے 900 شہروں میں پھیل گیا۔ اس واقعے کو ایک سال گزر گیا۔ اس احتجاج کا جنگل کی آگ کی طرح پھیلنا عوامی شعور کا برملا اظہار تھا۔جب نیویارک پولیس کے احتجاجیوں کا گھیراؤ اور بلند ہونے والے نعروں کی تصاویر ٹی وی چینلز اور فیس بُک پر دکھائی دی تو یوں لگا جیسے تنکے نے اونٹ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہو۔

زیکوٹی پارک پر قبضے نے لاکھوں امریکی شہریوں کو دکھایا کہ وہ ملک میں چلنے والے معاشی، سیاسی نظام اور عمومی سماجی زوال اور ٹھہراؤ کے خلاف اپنے غصے میں تنہا نہیں ہیں۔ مصری انقلاب کے دوران التحریر اسکوائر پر قبضہ ہوا جو دنیا بھر میں ٹی وی چینلز پر براہِ راست دکھایا گیا۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک ایک طریقۂ کار کے طور پر ابتداء میں اسی سے متاثر ہوکر شروع ہوئی تھی۔وبکائن(امریکا) میں بھی لاکھوں لوگوں نے یہی طریقہ کار استعمال کیا، انھوں نے گورنر واکر کے یونین مخالف قوانین کے خلاف ریاستی دارالخلافہ پر قبضہ کرلیا تھا۔

بہرحال مبارک حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے لاکھوں لوگوں کا التحریر اسکوائر میں جمع ہونا ہی کافی نہیں تھا۔ جیسے ہی تحریک کا دم خم ختم ہونے کو آیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے حسنی مبارک شاید جیت جائے گا اور تحریک کو اُلٹ دے گا تو اسی وقت مصری محنت کش طبقہ فیصلہ کن انداز میں تاریخ کے میدان میں دیکھا گیا۔ یہ مصری محنت کشوں کی خاص کر محالہ ٹیکسٹائل ملز اور سوئز کنال کے محنت کشوں کی ہڑتالیں تھیں جوکہ فیصلہ کن وار ثابت ہوئے۔

جن کے باعث مصری فوج کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کرے یا پھر تمام معاملات کا کنٹرول اپنے ہاتھوں سے نکل جانے جیسے حالات کا سامنا کرے۔ وسکانن میں کسی ہڑتال کی کال نہیں دی گئی تھی۔ اسی وجہ سے تحریک کمزور ہوتے ہوئے پسپا ہوتی گئی اور دوبارہ انتخابات کروائے گئے جو حالات کو تبدیل کرنے میں اور واکر کو اقتدار سے نکالنے میں ناکام ہوئے۔ نیویارک اور سیکڑوں دوسرے شہروں میں جہاں جہاں خود رو طور پر یہ تحریک اُبھری اور قبضے کیے گئے وہاں محنت کشوں کی قیادت نے تحریک کو فتح مند کرنے کے لیے کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کیے بلکہ تحریک کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

محنت کش طبقے کے پاس یہ سب کرنے کی منفرد صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ معیشت کے فیصلہ کن حصول تک اس کی براہِ راست رسائی ہونے کی وجہ سے محنت کش طبقہ اسے روکنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔کیونکہ آخر کار چاہے وہ مصر ہو یا امریکا محنت کشوں کی ہڈیوں، ذہنوں، شریانوں اور پٹھوں کی طاقت کے بغیر ایک بھی پہیہ نہیں گھوم سکتا، ایک بھی بلب نہیں جل سکتا، ایک بھی گھنٹی نہیں بج سکتی، ایک بھی گندم کا دانہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ 500 خوش نصیب چیف ایگزیکٹیو افسران اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اراکین محنت کشوں کے بغیر سماج کو چلانے کی ذرا بھی صلاحیت نہیں رکھتے، لیکن محنت کش سماج کو ان کے بغیر اچھی طرح چلا سکتے ہیں۔

یہی ایک فیصد بمقابلہ 99 فیصد کے حقیقی معنی ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ چند خون چوسنے والے سماج کو اپنے مفادات کے گِرد چلا رہے ہیں جب کہ اکثریت کے پاس معاملات کو مختلف طریقے سے چلانے کی صلاحیت موجود ہے۔ محنت کشوں اور آکوپائی تحریک کے مابین اہم تعلق استوار ہوا، خصوصاً نیویارک شہر اور بے ایریا میں منظم محنت کش طبقے نے اپنے دفاتر اورکام کی جگہ دے کر آکوپائی وال اسٹریٹ کے اخبار اور دیگر اشاعتوں کے لیے چندہ دے کر ان کی اہم امداد کی تھی۔ پھر اس سال 21 اکتوبر بروز اتوار کو ایک ایسے ملک میں 1,50,0000 ( ایک لاکھ پچاس ہزار) شہری سڑکوں پر اُمنڈ آئے جہاں نیم بادشاہت ہے، امریکی سامراج کا فوجی اڈہ اور جہاں سے امریکا نے عراق پر حملہ کیا، سعودی عریبیہ اس لیے بھی ہر موقعے پر کویت کی حمایت اور تائید کرتا ہے کہ کویت بھی سعودی عرب کی طرح سامراجی آلۂ کار ہے۔

یہ مظاہرین کویت کی آبادی کا 5 فیصد جب کہ کل کویتی شہریوں کا 15 فیصد بنتا ہے۔ احتجاج کرتے ہوئے دارالحکومت (کویت سٹی) کی سڑکوں پر عوامی سیلاب آگیا۔ کویت کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے مظاہرے حکومت کی جانب سے الیکشن قوانین میں تبدیلی کے خلاف تھے (ہرچند کہ الیکشن کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کرسکتا) جسے حزب اختلاف نے آئین پر حملہ قرار دیا ہے۔ 2006 سے اب تک کویت کا امیر شیخ صباالاحمد الصباح 6 بار کویت کی پارلیمنٹ کو تحلیل کرچکا ہے۔آخری بار اس سال 20 جون کو پارلیمنٹ کو فارغ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال سے عوام کی جانب سے امیر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

ستمبر 2011 میں بھی 50,000 سے زائد افراد کے ایک مظاہرے نے امیر کو وزیر اعظم تبدیل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس وزیر اعظم پر 50 میں سے 16 کویتی ارکان پارلیمنٹ کو رشوت دے کر حکومتی پالیسیوں پر آمادہ کرنے کا الزام تھا۔ اس غیر یقینی صورتحال نے امیر کو 20 جون کو غیراعلانیہ طور پر پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے پر مجبور کیا جس کا باقاعدہ اعلان 7 اکتوبر کو کیا گیا۔ 19 اکتوبر کو امیر نے نیا انتخابی قانون متعارف کروانے کا فیصلہ کیا جوکہ حکومت مخالف عناصر کا پارلیمنٹ میں چناؤ مشکل کردے گا۔21 اکتوبر کے مظاہرے کو ''عظمت کا مارچ'' کہا جارہا ہے، انھیں غیر جمہوری اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے منظم کیا گیا تھا۔

مظاہرین ''ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے'' کے نعرے لگا رہے تھے اور پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ 10 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ کویتی وزارت داخلہ نے دارالحکومت میں مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔کویت کے امیر نے کچھ انتخابی معاملات پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ حزب اختلاف کے گروپوں نے جواب میں ''اگلے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے اور کویت سٹی میں پھر ایک بڑی ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔'' اس ریلی میں کئی کامریڈ گرفتار ہوئے اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔

درحقیقت محنت کشوں کی یکجہتی اور فکری ہم آہنگی ملکی یا علاقائی نہیں ہوتی بلکہ یہ عالمی ہے۔ انقلاب عرب جوکہ تیونس سے شروع ہوا اور بوعزیزی کی خودسوزی نے اسے جنم دیا۔ جواباً عوام سڑکوں پر نکلے تو اسے کچلنے کے لیے فرانس کی حکومت نے بن علی کی حمایت میں اسلحہ روانہ کیا، لیکن پیرس ایئرپورٹ پر مزدوروں کو جب یہ پتہ چلا تو انھوں نے اسلحے کی لوڈنگ ان لوڈنگ کرنے سے انکار کردیا اور یہ اسلحہ تیونس نہیں پہنچ پایا اور تیونس کے انقلاب میں یوں عالمی یکجہتی شامل ہوگئی۔ عالمی سرمایہ داری کے خلاف تیونس سے اٹھنے والی تحریک اسرائیل، افریقہ، امریکا اور اب پھر کویت آن پہنچی ہے۔ یعنی عوام سرحدی بندھنوں کو توڑ رہے ہیں جب کہ ریاست عوام پر مظالم ڈھا رہی ہے لہٰذا اب ریاست کو توڑے بغیر عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔