آبِ زر سے لکھے جانے والے اقوال
فقیر کےسامنے صدقہ بھی عاجزی سے پیش کیا کرو، کیونکہ خوش دلی سے صدقہ دینا اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور قبولیت کی نشانی ہے۔
ظہورِ اسلام سے پہلے عرب کی حالت ایسی تھی کہ دنیا کی ہر بُرائی ان کے لیے پسندیدہ تھی اور وہ اس پر نادم بھی نہ تھے۔
اس صورتحال کو حالیؔ نے اپنی مسدّس میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے جوکہ انھوں نے سرسید احمد خان کے کہنے پر لکھی تھی۔ اس کا اصل نام تھا ''مسدّسِ مدوجزر اسلام'' اس مسدّس میں حالیؔ نے حضورؐ کی بعثت سے پہلے اور بعد کے زمانے کو بڑی خوبصورتی سے نظم کیا ہے۔ عہد رسالت مآب کے بعد چاروں خلفائے راشدین کا دور بھی عہدِ زریں کہلاتا ہے، چاروں خلفاء نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے صرف اور صرف بنی نوع انسان کی خدمت کو اپنا شعار بنایا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احکامِ خداوندی، تعلیماتِ نبویؐ اور خلفائے راشدین کی زندگیوں کو ہم نے بھلادیا۔ ذرا غور کیجیے تو ایسا نہیں لگتا کہ ہم پھر دورِ جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ آج کون سی بُرائی ہے جو ہماری قوم میں نہیں ہے، موازنہ کر لیجیے قبل از اسلام کے اور آج کے زمانے کا۔کیا یہی وہ اسلام ہے جس کے ماننے والوں کے لیے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(۱) ''شرک کے بعد بدترین گناہ خلقِ خدا کو ایذا پہنچانا ہے اور ایمان کے بعد افضل ترین نیکی خلق کو آرام دینا ہے۔''
ذرا غور کیجیے توآج ہر وہ کام مذہب کے نام پر کیا جارہا ہے جس سے خلقِ خدا کو تکلیف پہنچتی ہے۔ لاؤڈ اسپیکرز اورمائیکروفون کا آزادانہ استعمال، خلقِ خدا کو نہ دن کو چین نہ رات کو آرام۔
(۲)۔ ''حقِ ہمسائیگی کا درجہ چالیس گھروں تک ہے، یعنی چاروں طرف چالیس چالیس گھر۔'' آج کا منظر نامہ بتاتا ہے کہ چالیس گھر تو سوچنا بھی محال ہے، بالکل سامنے والا اور دائیں بائیں کے پڑوسی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتا۔ شور مچانا، اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھروں کے آگے پھینکنا، بچوں کا کرکٹ کھیلنا، گھروں کے شیشے توڑنا اور احتجاج کرنے پر یا منع کرنے پر جھگڑا فساد کرنا معمول کی بات ہے۔
(۳) ''پڑوسی کو ستانے والا دوزخی ہے، خواہ تمام رات عبادت کرے اور تمام دن روزہ رکھے۔''
(۴) جو کام سب سے زیادہ مغفرت کا سبب بنے گا، وہ خندہ پیشانی، کشادہ روی اور شیریں بیانی ہے۔''
(۵)۔ اونچی آواز سے تکبیر نہ پڑھو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر حاضر شخص کو نہیں پکار رہے بلکہ تم اس کو پکار رہے ہو جو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور ہر وقت تمہارے ساتھ رہتا ہے۔''
(۶)۔ ''لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور اسے ظلم سے باز نہ رکھ سکیں تو جلد ہی خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔''
کیا ہم میں سے زیادہ تر نے ظالم، جابر،کینہ پرور اور متعصب حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاکر ان کو تحفظ دے کر قہرِ خداوندی کو دعوت نہیں دی؟
خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، فرماتے ہیں:
(۱)۔ فقیر کے سامنے صدقہ بھی عاجزی سے پیش کیا کرو، کیونکہ خوش دلی سے صدقہ دینا اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور قبولیت کی نشانی ہے۔
(۲)۔ زبان کو شکوہ سے روکو، خوشی کی زندگی عطا ہوگی، شکایت نہ کرو، قناعت کرو۔
(۳)۔ خلقتِ خدا کی تکلیف دور کرکے خود تکلیف اُٹھا لینا ہی حقیقی سخاوت ہے۔
(۴)۔ علم پیغمبروں کی میراث ہے اور مال کفّار کی، جیسے فرعون، نمرود، قارون وغیرہ۔
(۵)۔ وہ علماء حق تعالیٰ کے دشمن ہیں جو امراء کے پاس جاتے ہیں اور وہ امراء حق تعالیٰ کے دوست ہیں جو علماء کے پاس جاتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ خلیفۂ دوم فرماتے ہیں:
(۱)۔ کسی کے خلق پر اعتماد نہ کر، جب تک اسے غصے میں نہ دیکھ لے (کیونکہ اصل انسان غصے ہی کی حالت میں بے نقاب ہوتا ہے۔)
(۲)۔ کسی کی دین داری پر اعتماد نہ کرو، تاوقتیکہ اسے طمع کی حالت میں نہ دیکھ لو۔
(۳)۔ جو عیب سے واقف کرے وہ دوست ہے اور جو منہ پر تعریف کرے گویا ذبح کرنا ہے (کاش! فاروقِ اعظمؓ کا یہ قول ہمارے حکمرانوں کو بھی یاد آجائے۔)
(۴)ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے۔
(۵) خودرائی خواہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہو، پھر بھی مشورے کی محتاج ہے، لہٰذا حکومت بھی مشورہ اور استصواب کے بغیر جائز نہیں۔
خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کے ارشادات یہ ہیں:
(۱)۔ بعض اوقات جرم معاف کرنا مجرم کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔
(۲)۔ تواضع کی کثرت نفاق کی نشانی اور عداوت کا پیش خیمہ ہے۔
(۳)۔لوگوں کو جس طرح چاہے آزما کر دیکھ لو، سانپ بچھوؤں سے کم نہ پاؤگے۔
(۴)۔دوسروں کا بوجھ اُٹھانا عابدوں کی عزت کا تتمہ ہے۔
(۵)۔زبان کی لغزش پاؤں کی لغزش سے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
(۶)۔امراء کی تعریف سے بچ کر ظالم کی تعریف سے غضب الٰہی نازل ہوتا ہے۔
(۷)۔لوگ تمہارے عیبوں کے جاسوس ہیں۔
(۸)۔ گناہ کسی نہ کسی صورت دل کو بے قرار رکھتا ہے۔
(۹)۔ تلوار کا زخم جسم پر ہوتا ہے اور بُری گفتار کا روح پر۔
(۰۱)۔ جب زبان اصلاح پذیر ہوجائے تو قلب بھی صالح ہوجاتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے اقوال:
(۱)۔ خندہ روی سے پیش آنا سب سے بڑی نیکی ہے۔
(۲)۔ عادت پر غالب آنا کمال فضیلت ہے۔
(۳)۔ گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹا دیتا ہے اور نیکیوں پر مغرور ہونا ان کو برباد کردیتا ہے۔
(۴)۔علماء اس لیے غریب و بیکس ہیں کہ جاہل لوگ زیادہ ہیں جو ان کی قدر نہیں کرتے۔
(۵)۔ جب تک کوئی بات تیرے منہ میں بند ہے، تب تک تُو اس کا مالک ہے، جب زبان سے نکل چکے تو وہ تیری مالک ہوچکی (یعنی زمانے میں پھیل گئی۔)
(۶)۔ اگر تُو کسی پر احسان کر تو اس کو مخفی رکھ اور جب کوئی تیرے ساتھ احسان کرے تو اس کو لوگوں پر ظاہر کر۔
(۷)۔ کہاوتیں اور مثالیں عقل مندوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے بیان کی جاتی ہیں، نادانوں کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
خلفائے راشدین کے علاوہ بھی بڑے بڑے مفکروں اور دانشوروں نے سب سے زیادہ اسی بات پر زور دیا ہے کہ انسان خوش خلقی سے پیش آئے، بلاوجہ طیش میں نہ آئے، کسی کو اپنی زبان اور رویے سے تکلیف نہ پہنچائے، حضورؐ نے تو یہ تک فرمایا ہے کہ:
''میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں''۔
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر ہے:
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے جو ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
اسی طرح کسی اور نے کہا:
زبان شیریں' ملک گیری
زبان ٹیڑھی ملک بانکا
لیکن آج ہم جس صورتحال سے گزر رہے ہیں اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ ہے کہ انسان، انسان کو کھا رہا ہے، کسی میں قوتِ برداشت نہیں رہی ہے، ذرا ذرا سی بات پر لوگ چراغ پا ہوکر اپنا اور دوسروں کا بلڈ پریشر بڑھا لیتے ہیں۔ بچوں کو کرکٹ کھیلنے سے منع کیجیے کہ گھروں کے شیشے نہ ٹوٹیں تو ان کے والدین لڑنے مرنے پر آمادہ، نوجوانوں کو کسی غلط بات پر ٹوکیے تو جو جواب وہ دیتے ہیں اس میں ان کا پورا خاندانی پس منظر جھلکتا ہے کہ دولت تہذیب و اخلاق نہیں لاتی، خاندانی نجابت ایک الگ چیز ہے جس میں بڑوں کا احترام اور اُستاد کی عزت کرنا لازمی ہوتا ہے۔ پڑوسی کا حق رشتے داروں سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ سب روایتیں جو ہماری میراث تھیں رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں۔ پِزا اور برگر کلچر صرف دولت کے بل بوتے پر پروان چڑھتا ہے اور ایسے کلچر کا کوئی سماجی اور خاندانی پس منظر نہیں ہوتا، دو نمبر کا پیسہ رعونت اور بدتمیزی بھی ساتھ لاتا ہے۔
اس صورتحال کو حالیؔ نے اپنی مسدّس میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے جوکہ انھوں نے سرسید احمد خان کے کہنے پر لکھی تھی۔ اس کا اصل نام تھا ''مسدّسِ مدوجزر اسلام'' اس مسدّس میں حالیؔ نے حضورؐ کی بعثت سے پہلے اور بعد کے زمانے کو بڑی خوبصورتی سے نظم کیا ہے۔ عہد رسالت مآب کے بعد چاروں خلفائے راشدین کا دور بھی عہدِ زریں کہلاتا ہے، چاروں خلفاء نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے صرف اور صرف بنی نوع انسان کی خدمت کو اپنا شعار بنایا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احکامِ خداوندی، تعلیماتِ نبویؐ اور خلفائے راشدین کی زندگیوں کو ہم نے بھلادیا۔ ذرا غور کیجیے تو ایسا نہیں لگتا کہ ہم پھر دورِ جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ آج کون سی بُرائی ہے جو ہماری قوم میں نہیں ہے، موازنہ کر لیجیے قبل از اسلام کے اور آج کے زمانے کا۔کیا یہی وہ اسلام ہے جس کے ماننے والوں کے لیے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(۱) ''شرک کے بعد بدترین گناہ خلقِ خدا کو ایذا پہنچانا ہے اور ایمان کے بعد افضل ترین نیکی خلق کو آرام دینا ہے۔''
ذرا غور کیجیے توآج ہر وہ کام مذہب کے نام پر کیا جارہا ہے جس سے خلقِ خدا کو تکلیف پہنچتی ہے۔ لاؤڈ اسپیکرز اورمائیکروفون کا آزادانہ استعمال، خلقِ خدا کو نہ دن کو چین نہ رات کو آرام۔
(۲)۔ ''حقِ ہمسائیگی کا درجہ چالیس گھروں تک ہے، یعنی چاروں طرف چالیس چالیس گھر۔'' آج کا منظر نامہ بتاتا ہے کہ چالیس گھر تو سوچنا بھی محال ہے، بالکل سامنے والا اور دائیں بائیں کے پڑوسی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتا۔ شور مچانا، اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھروں کے آگے پھینکنا، بچوں کا کرکٹ کھیلنا، گھروں کے شیشے توڑنا اور احتجاج کرنے پر یا منع کرنے پر جھگڑا فساد کرنا معمول کی بات ہے۔
(۳) ''پڑوسی کو ستانے والا دوزخی ہے، خواہ تمام رات عبادت کرے اور تمام دن روزہ رکھے۔''
(۴) جو کام سب سے زیادہ مغفرت کا سبب بنے گا، وہ خندہ پیشانی، کشادہ روی اور شیریں بیانی ہے۔''
(۵)۔ اونچی آواز سے تکبیر نہ پڑھو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر حاضر شخص کو نہیں پکار رہے بلکہ تم اس کو پکار رہے ہو جو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور ہر وقت تمہارے ساتھ رہتا ہے۔''
(۶)۔ ''لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور اسے ظلم سے باز نہ رکھ سکیں تو جلد ہی خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔''
کیا ہم میں سے زیادہ تر نے ظالم، جابر،کینہ پرور اور متعصب حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاکر ان کو تحفظ دے کر قہرِ خداوندی کو دعوت نہیں دی؟
خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، فرماتے ہیں:
(۱)۔ فقیر کے سامنے صدقہ بھی عاجزی سے پیش کیا کرو، کیونکہ خوش دلی سے صدقہ دینا اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور قبولیت کی نشانی ہے۔
(۲)۔ زبان کو شکوہ سے روکو، خوشی کی زندگی عطا ہوگی، شکایت نہ کرو، قناعت کرو۔
(۳)۔ خلقتِ خدا کی تکلیف دور کرکے خود تکلیف اُٹھا لینا ہی حقیقی سخاوت ہے۔
(۴)۔ علم پیغمبروں کی میراث ہے اور مال کفّار کی، جیسے فرعون، نمرود، قارون وغیرہ۔
(۵)۔ وہ علماء حق تعالیٰ کے دشمن ہیں جو امراء کے پاس جاتے ہیں اور وہ امراء حق تعالیٰ کے دوست ہیں جو علماء کے پاس جاتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ خلیفۂ دوم فرماتے ہیں:
(۱)۔ کسی کے خلق پر اعتماد نہ کر، جب تک اسے غصے میں نہ دیکھ لے (کیونکہ اصل انسان غصے ہی کی حالت میں بے نقاب ہوتا ہے۔)
(۲)۔ کسی کی دین داری پر اعتماد نہ کرو، تاوقتیکہ اسے طمع کی حالت میں نہ دیکھ لو۔
(۳)۔ جو عیب سے واقف کرے وہ دوست ہے اور جو منہ پر تعریف کرے گویا ذبح کرنا ہے (کاش! فاروقِ اعظمؓ کا یہ قول ہمارے حکمرانوں کو بھی یاد آجائے۔)
(۴)ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے۔
(۵) خودرائی خواہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہو، پھر بھی مشورے کی محتاج ہے، لہٰذا حکومت بھی مشورہ اور استصواب کے بغیر جائز نہیں۔
خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کے ارشادات یہ ہیں:
(۱)۔ بعض اوقات جرم معاف کرنا مجرم کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔
(۲)۔ تواضع کی کثرت نفاق کی نشانی اور عداوت کا پیش خیمہ ہے۔
(۳)۔لوگوں کو جس طرح چاہے آزما کر دیکھ لو، سانپ بچھوؤں سے کم نہ پاؤگے۔
(۴)۔دوسروں کا بوجھ اُٹھانا عابدوں کی عزت کا تتمہ ہے۔
(۵)۔زبان کی لغزش پاؤں کی لغزش سے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
(۶)۔امراء کی تعریف سے بچ کر ظالم کی تعریف سے غضب الٰہی نازل ہوتا ہے۔
(۷)۔لوگ تمہارے عیبوں کے جاسوس ہیں۔
(۸)۔ گناہ کسی نہ کسی صورت دل کو بے قرار رکھتا ہے۔
(۹)۔ تلوار کا زخم جسم پر ہوتا ہے اور بُری گفتار کا روح پر۔
(۰۱)۔ جب زبان اصلاح پذیر ہوجائے تو قلب بھی صالح ہوجاتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے اقوال:
(۱)۔ خندہ روی سے پیش آنا سب سے بڑی نیکی ہے۔
(۲)۔ عادت پر غالب آنا کمال فضیلت ہے۔
(۳)۔ گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹا دیتا ہے اور نیکیوں پر مغرور ہونا ان کو برباد کردیتا ہے۔
(۴)۔علماء اس لیے غریب و بیکس ہیں کہ جاہل لوگ زیادہ ہیں جو ان کی قدر نہیں کرتے۔
(۵)۔ جب تک کوئی بات تیرے منہ میں بند ہے، تب تک تُو اس کا مالک ہے، جب زبان سے نکل چکے تو وہ تیری مالک ہوچکی (یعنی زمانے میں پھیل گئی۔)
(۶)۔ اگر تُو کسی پر احسان کر تو اس کو مخفی رکھ اور جب کوئی تیرے ساتھ احسان کرے تو اس کو لوگوں پر ظاہر کر۔
(۷)۔ کہاوتیں اور مثالیں عقل مندوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے بیان کی جاتی ہیں، نادانوں کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
خلفائے راشدین کے علاوہ بھی بڑے بڑے مفکروں اور دانشوروں نے سب سے زیادہ اسی بات پر زور دیا ہے کہ انسان خوش خلقی سے پیش آئے، بلاوجہ طیش میں نہ آئے، کسی کو اپنی زبان اور رویے سے تکلیف نہ پہنچائے، حضورؐ نے تو یہ تک فرمایا ہے کہ:
''میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں''۔
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر ہے:
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے جو ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
اسی طرح کسی اور نے کہا:
زبان شیریں' ملک گیری
زبان ٹیڑھی ملک بانکا
لیکن آج ہم جس صورتحال سے گزر رہے ہیں اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ ہے کہ انسان، انسان کو کھا رہا ہے، کسی میں قوتِ برداشت نہیں رہی ہے، ذرا ذرا سی بات پر لوگ چراغ پا ہوکر اپنا اور دوسروں کا بلڈ پریشر بڑھا لیتے ہیں۔ بچوں کو کرکٹ کھیلنے سے منع کیجیے کہ گھروں کے شیشے نہ ٹوٹیں تو ان کے والدین لڑنے مرنے پر آمادہ، نوجوانوں کو کسی غلط بات پر ٹوکیے تو جو جواب وہ دیتے ہیں اس میں ان کا پورا خاندانی پس منظر جھلکتا ہے کہ دولت تہذیب و اخلاق نہیں لاتی، خاندانی نجابت ایک الگ چیز ہے جس میں بڑوں کا احترام اور اُستاد کی عزت کرنا لازمی ہوتا ہے۔ پڑوسی کا حق رشتے داروں سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ سب روایتیں جو ہماری میراث تھیں رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں۔ پِزا اور برگر کلچر صرف دولت کے بل بوتے پر پروان چڑھتا ہے اور ایسے کلچر کا کوئی سماجی اور خاندانی پس منظر نہیں ہوتا، دو نمبر کا پیسہ رعونت اور بدتمیزی بھی ساتھ لاتا ہے۔