تندرستی ہزار نعمت ہے
وہ میرا اچھا دوست تھا۔ میرے جذبات اس کے لیے آج بھی وہی ہیں کہ جو پہلے تھے لیکن اب میں اس کے لیے اجنبی ہوں ۔
میں اسے گزشتہ تیس سال سے جانتا ہوں ، جب وہ لاہور میں سول جج تھا اور تبادلہ ہونے پر اس نے ملازمت چھوڑ دی کہ شہر شہر ٹرانسفر سے تو وہ رُل جائے گا، اس میں کاروبار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔
اس نے ڈویلپر بننا پسند کیا اور شہر کی معروف سڑک پر بلند و بالا کمرشل عمارت کی تعمیر شروع کردی۔ اس نے مناسب قیمت پر دکانوں اور دفتروں کی بکنگ شروع کی تو گاہکوں کی قطاریں لگ گئیں۔ تعمیر مکمل ہونے کے چند سال کے اندر پرانے شہر کے کاروباریوں نے اس پلازہ میں الیکٹرانکس کا بزنس شفٹ کرنا شروع کیا پھر کمپیوٹر کی دکانیں آگئیں اور جب مشرف کا دور حکومت آیا تو موبائل فون کا کاروبار کرنے والوں نے اس بزنس سینٹر پر یلغار کردی اور آج صوبہ پنجاب سے ہر موبائل فون کا شوقین اس کی بار بار زیارت کرنا فرض سمجھتا ہے۔
موبائل فون بزنس کی یہ اب بہت بڑی منڈی ہے جس میں صبح دس بجے سے رات دس بجے تک کاروباریوں اور گاہکوں کا ہجوم دیکھا جاسکتا ہے لیکن جس شخص نے یہ منڈی سجائی وہ لاہور میں موجود ہونے کے باوجود اس کے وجود اور شہرت دونوں سے لاعلم اور لاتعلق ہے۔ اس لاعلمی اور لاتعلقی کے پیچھے ایک المیہ کہانی ہے۔
ایک طویل عرصہ تک وہ میرا اچھا دوست تھا۔ میرے جذبات اس کے لیے آج بھی وہی ہیں کہ جو تھے لیکن اب میں اس کے لیے اجنبی ہوں کیونکہ نہ اسے پرانا تعلق یاد ہے نہ ہی میرا نام بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا مکان اس کی رہائش گاہ سے چھ مکان کے فاصلے پر ہے۔ وہ پہلے کی طرح خوش شکل و خوش پوش نظر آئے گا لیکن بیشتر گھر کے اندر جب کہ باہر اپنے کسی نوجوان بیٹے کے ہمراہ اور وہ بھی مختصر وقت کے لیے صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ۔ یہ کوئی کہانی نہیں ایک کامیاب اور دولت مند شخص کا ذکر ہے۔
اس دوست نے ملک گیر شہرت والا بزنس ہائوس بنانے کے بعد متعدد کمرشل عمارتیں تعمیر کیں۔ پھر وہ ملک سے باہر نقل مکانی کرگیا۔ وہ واپس آیا تو ایک روز میں اپنے مکان کی طرف جاتے ہوئے اسے ایک مکان کے دروازے پر کھڑا دیکھ رک گیا کار میں سے اتر کر خوشی سے اس کی طرف دوڑا قریب پہنچا تو اس نے مجھے ایک اجنبی کی طرح دیکھا۔ میں ٹھٹھکا اور ذرا تکلف سے پوچھا شیخ صاحب امریکا سے کب لوٹے ،کیسے ہو بچوں کا کیا حال ہے۔ وہ اسپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اسے زبردستی اپنے گھر لے گیا۔ چائے منگوائی۔ بغیر کوئی بات چیت کے ہم نے چائے ختم کی۔ پھر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر آکر اس نے دائیں بائیں دیکھا اور اپنے مکان کی طرف چل دیا۔ میں ہکا بکا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔
سات سال قبل ہم لوگ ایک دوست کی بیٹی کی شادی میں شامل تھے۔ یہ دوست محترمہ بینظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کو تقریب کے دوران معلوم ہوا کہ اسپتال میں داخل ان کے والد جو یادداشت کھوچکے تھے، نگرانی کے باوجود کمرے سے نکل گئے ہیں اور کئی گھنٹے سے مل نہیں رہے۔ انھوں نے بے حد تگ و دو کی کہ گمشدہ والد کا سراغ ملے لیکن ابھی تک ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اس دوست نے بتایا کہ تلاش میں ناکامی کی وجہ ALZHEIMER'S نامی بیماری بنی جس کے نتیجے میں یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ ہمارے اولذکر دوست بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے ہیں جنھیں اب مجھ سے گہرا تعلق اور باقی تمام کچھ یعنی دوست، رشتہ دار، کاروبار، راستے اور پندرہ بیس سال پرانی ہر بات اور چیز بھول چکی ہے لیکن اپنا بچپن کسی حد تک یاد ہے۔
عام طور پر پچاس سال کی عمر کے بعد بہت سے لوگوں کی یادداشت متاثر ہونے لگتی ہے لیکن ایلزائمر ایک الگ بیماری ہے جس کی وجہ سے یادداشت رفتہ رفتہ کم ہونی شروع ہوتی ہے اور انتہا کو پہنچ کر انسان کو اتنا بے بس کردیتی ہے کہ اس کی سماجی اور پیشہ ورانہ کارکردگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ دماغ کو پیغام رسانی بند ہوجاتی ہے اور دماغ سکڑ کر ہر اہلیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس بیماری پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا، وہ صرف امریکا میں ایلزائمر کے مریضوں کی تعداد چالیس لاکھ اور برطانیہ میں چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یادداشت کھو دینے کی اس بیماری کو کھوجنے کا سہرا جرمن نیورو پتھیالوجسٹ اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلوسیس ایلزائمر کے سر ہے، اس لیے بیماری کو بھی اسی کا نام دے دیا گیا۔ یہ ڈاکٹر ایک 51 سالہ بھلکڑ قسم کی عورت کا معالج تھا جب اسے اس نئی قسم کی بیماری کا علم ہوا۔ وہ پریشان ہوگیا تھا جب اس نے دوران علاج مریضہ کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ ''میں نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے''
میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس مرض کی ابتدا کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ جب آپ بوٹوں کے تسمے باندھنے بھولنے لگیں' قمیض کا بٹن کھلا چھوڑنے لگیں یا پتلون کی زِپ بند کرنا بھولنے لگیں تو سمجھئے ابتدا ہو گئی۔
اس بیماری کا شکار ہونے والے تو ان گنت ہوں گے لیکن معروف لوگوں میں کھلاڑی، فلم ایکٹر، سیاستدان اور اہل دانش بھی شامل ہیں۔ امریک صدر رونالڈ ریگن، برطانوی وزیراعظم ہیرلڈولسن، ناولسٹ ٹیری پریٹ چیٹ، نوبل انعام یافتہ چارلس کے کائو، بن حر فلم کے ہیرو چارلٹن ہسیٹن، اور آغا خاں کی بیگم ریٹا ہیورتھ کا نام اس ظالم بیماری کے حوالے سے لیا جاسکتا ہے لیکن ہم تو مرزا غالب کو بھی یاد رکھیں گے جنہوں نے دماغی اور جسمانی دونوں کی صحت کے بارے میں کہا؎
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اس نے ڈویلپر بننا پسند کیا اور شہر کی معروف سڑک پر بلند و بالا کمرشل عمارت کی تعمیر شروع کردی۔ اس نے مناسب قیمت پر دکانوں اور دفتروں کی بکنگ شروع کی تو گاہکوں کی قطاریں لگ گئیں۔ تعمیر مکمل ہونے کے چند سال کے اندر پرانے شہر کے کاروباریوں نے اس پلازہ میں الیکٹرانکس کا بزنس شفٹ کرنا شروع کیا پھر کمپیوٹر کی دکانیں آگئیں اور جب مشرف کا دور حکومت آیا تو موبائل فون کا کاروبار کرنے والوں نے اس بزنس سینٹر پر یلغار کردی اور آج صوبہ پنجاب سے ہر موبائل فون کا شوقین اس کی بار بار زیارت کرنا فرض سمجھتا ہے۔
موبائل فون بزنس کی یہ اب بہت بڑی منڈی ہے جس میں صبح دس بجے سے رات دس بجے تک کاروباریوں اور گاہکوں کا ہجوم دیکھا جاسکتا ہے لیکن جس شخص نے یہ منڈی سجائی وہ لاہور میں موجود ہونے کے باوجود اس کے وجود اور شہرت دونوں سے لاعلم اور لاتعلق ہے۔ اس لاعلمی اور لاتعلقی کے پیچھے ایک المیہ کہانی ہے۔
ایک طویل عرصہ تک وہ میرا اچھا دوست تھا۔ میرے جذبات اس کے لیے آج بھی وہی ہیں کہ جو تھے لیکن اب میں اس کے لیے اجنبی ہوں کیونکہ نہ اسے پرانا تعلق یاد ہے نہ ہی میرا نام بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا مکان اس کی رہائش گاہ سے چھ مکان کے فاصلے پر ہے۔ وہ پہلے کی طرح خوش شکل و خوش پوش نظر آئے گا لیکن بیشتر گھر کے اندر جب کہ باہر اپنے کسی نوجوان بیٹے کے ہمراہ اور وہ بھی مختصر وقت کے لیے صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ۔ یہ کوئی کہانی نہیں ایک کامیاب اور دولت مند شخص کا ذکر ہے۔
اس دوست نے ملک گیر شہرت والا بزنس ہائوس بنانے کے بعد متعدد کمرشل عمارتیں تعمیر کیں۔ پھر وہ ملک سے باہر نقل مکانی کرگیا۔ وہ واپس آیا تو ایک روز میں اپنے مکان کی طرف جاتے ہوئے اسے ایک مکان کے دروازے پر کھڑا دیکھ رک گیا کار میں سے اتر کر خوشی سے اس کی طرف دوڑا قریب پہنچا تو اس نے مجھے ایک اجنبی کی طرح دیکھا۔ میں ٹھٹھکا اور ذرا تکلف سے پوچھا شیخ صاحب امریکا سے کب لوٹے ،کیسے ہو بچوں کا کیا حال ہے۔ وہ اسپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اسے زبردستی اپنے گھر لے گیا۔ چائے منگوائی۔ بغیر کوئی بات چیت کے ہم نے چائے ختم کی۔ پھر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر آکر اس نے دائیں بائیں دیکھا اور اپنے مکان کی طرف چل دیا۔ میں ہکا بکا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔
سات سال قبل ہم لوگ ایک دوست کی بیٹی کی شادی میں شامل تھے۔ یہ دوست محترمہ بینظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کو تقریب کے دوران معلوم ہوا کہ اسپتال میں داخل ان کے والد جو یادداشت کھوچکے تھے، نگرانی کے باوجود کمرے سے نکل گئے ہیں اور کئی گھنٹے سے مل نہیں رہے۔ انھوں نے بے حد تگ و دو کی کہ گمشدہ والد کا سراغ ملے لیکن ابھی تک ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اس دوست نے بتایا کہ تلاش میں ناکامی کی وجہ ALZHEIMER'S نامی بیماری بنی جس کے نتیجے میں یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ ہمارے اولذکر دوست بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے ہیں جنھیں اب مجھ سے گہرا تعلق اور باقی تمام کچھ یعنی دوست، رشتہ دار، کاروبار، راستے اور پندرہ بیس سال پرانی ہر بات اور چیز بھول چکی ہے لیکن اپنا بچپن کسی حد تک یاد ہے۔
عام طور پر پچاس سال کی عمر کے بعد بہت سے لوگوں کی یادداشت متاثر ہونے لگتی ہے لیکن ایلزائمر ایک الگ بیماری ہے جس کی وجہ سے یادداشت رفتہ رفتہ کم ہونی شروع ہوتی ہے اور انتہا کو پہنچ کر انسان کو اتنا بے بس کردیتی ہے کہ اس کی سماجی اور پیشہ ورانہ کارکردگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ دماغ کو پیغام رسانی بند ہوجاتی ہے اور دماغ سکڑ کر ہر اہلیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس بیماری پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا، وہ صرف امریکا میں ایلزائمر کے مریضوں کی تعداد چالیس لاکھ اور برطانیہ میں چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یادداشت کھو دینے کی اس بیماری کو کھوجنے کا سہرا جرمن نیورو پتھیالوجسٹ اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلوسیس ایلزائمر کے سر ہے، اس لیے بیماری کو بھی اسی کا نام دے دیا گیا۔ یہ ڈاکٹر ایک 51 سالہ بھلکڑ قسم کی عورت کا معالج تھا جب اسے اس نئی قسم کی بیماری کا علم ہوا۔ وہ پریشان ہوگیا تھا جب اس نے دوران علاج مریضہ کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ ''میں نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے''
میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس مرض کی ابتدا کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ جب آپ بوٹوں کے تسمے باندھنے بھولنے لگیں' قمیض کا بٹن کھلا چھوڑنے لگیں یا پتلون کی زِپ بند کرنا بھولنے لگیں تو سمجھئے ابتدا ہو گئی۔
اس بیماری کا شکار ہونے والے تو ان گنت ہوں گے لیکن معروف لوگوں میں کھلاڑی، فلم ایکٹر، سیاستدان اور اہل دانش بھی شامل ہیں۔ امریک صدر رونالڈ ریگن، برطانوی وزیراعظم ہیرلڈولسن، ناولسٹ ٹیری پریٹ چیٹ، نوبل انعام یافتہ چارلس کے کائو، بن حر فلم کے ہیرو چارلٹن ہسیٹن، اور آغا خاں کی بیگم ریٹا ہیورتھ کا نام اس ظالم بیماری کے حوالے سے لیا جاسکتا ہے لیکن ہم تو مرزا غالب کو بھی یاد رکھیں گے جنہوں نے دماغی اور جسمانی دونوں کی صحت کے بارے میں کہا؎
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے