مسجد وزیر خان
فنِ تعمیر کا یہ نادر نمونہ لاہور کی عظمت رفتہ کا نشان ہے
LONDON:
لاہور شہر کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم نشانی ''مسجد وزیرخان'' کے نام سے زمانے بھر میں معروف ہے۔ اس عظیم الشان مسجد اور تعمیر کے نادر نمونے کے بانی کا نام حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان ہے۔ حکیم صاحب ایک انتہائی عالم فاضل اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ انہیں فن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور فلسفہ پر بھی گہری نظر تھی۔ فن طب ہی کے باعث ان کی رسائی مغل دربار تک ہوئی اور عہد شاہ جہانی میں دیوان، بیوتات اور نواب وزیر خان جیسے القابات حاصل کئے۔ شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔
حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان کی وجہ سے زمانے بھر میں تو معروف ہوئی ہی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام، مسجد نواب وزیر خان خودر اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ملا محمد صالح کمبوہ نے ''عمل صالح'' میں جب عہد شاہ جہانی کے معروف حکماء اور جراحوں کے بارے میں تحریر کیا تو انہوںنے حکیم علیم الدین کا تذکرہ (ص 569 ) پر یوں کیا ہے۔
حکیم علیم الدین مخاطب بہ وزیر خان:
وطن پنجاب ہے، حکیم داؤدی سے فن طب پڑھ کر تھوڑے ہی عرصہ میں معالجات کے تمام صیغوں پر حاوی ہو گیا۔ ایسا ماہر و حاذق کہ ہر مرض کی صحیح تشخیص کر کے معرکہ آرا علاج کرتا، مدتوں تک شاہ جہان اور شاہزادوں کا معالج رہا اور اس فن کی بدولت حضرت کا محرم خاص ٹھہرا۔ دیوان بیوتات' خانسامانی اور دیوانی (وزات مال) کی خدمتوں پر سرفراز رہا' شاہ جہان نے تخت پر جلوس فرمایا تو پانچ ہزاری و سوار کا منصب دے کر پنجاب کا صوبے دار مقرر کیا۔
نواب وزیر خان جب مغل سرکار کے قریبی روابط میں آئے تو مالی حالات بہتر ہونے لگے اور شاہ جہان چونکہ خود تعمیرات کا شوقین تھا اس لئے حکیم صاحب کا رجحان بھی تعمیرات کی جانب گیا اور کئی اعلیٰ ترین عمارات تعمیر کروائیں۔ ان ہی میں سے مسجد وزیر خان بھی ہے۔ نواب وزیر خان نے اس مسجد کی بنیاد 1066ھ بمطابق 1634ء میں رکھی۔ اس مسجد کی عمارت کی تفصیل سے قبل ا یک نگاہ اس احاطے کی تاریخ پر جہاں یہ مسجد تعمیر ہوئی۔ مغل عہد سے قبل لودھی عہد میں یہ مسجد کی جائے تعمیر ''حملہ رڑہ'' کے نام سے معروف تھی۔
اس محلے میں ایک قدیمی مزار حضرت میراں بادشاہ سید اسحاق گاؤزانی ؒ کا موجود تھا۔ یہ مزار ایک اونچے ٹیلے پر تھا۔ لودھی عہد کے ایک امیر نادر خان نے اس محلے میں اپنی حویلی تعمیر کی تو یہ مزار بھی وسیع حویلی کے احاطے میں آ گیا۔ نادر خان نے بعد احترام و تقدیس اس مزار مبارک کے گرد ایک حجرہ تعمیر کر دیا۔ وہ حویلی عہد شاہ جہانی تک نادر خان کے ورثاء کے پاس رہی۔ جب نواب وزیر خان نے مسجد کے احاطے کا تعین کروایا تو وہ حویلی اور اس کے اردگرد کے کئی مکانات بھی اس کے احاطے میں آ گئے۔
مسجد کی تعمیر کے باعث حویلی اور دیگر مکانات کو منہدم کر دیا گیا اور مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن مزار مبارک کو مقدس مانتے ہوئے قبر مبارک کو ایک تہہ خانے میں اور مسجد کے فرش پر ایک دوسرا خوبصورت تعویز تعمیر کروایا گیا۔ یہ تعویذ اور مزار مبارک آج کے روز تک قائم و دائم ہیں۔عہد ہمایوں سے مغل سلطنت کے زوال تک ہندوستان کے دربار میں ایرانی اثر و رسوخ تمام شعبہ جات زندگی میں بتدریج بڑھتا رہا۔ ایرانی مورخ عہد جہانگیری اور عہد شاہ جہانی میں اپنی معراج پر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں مروجہ کاشی کاری، کاشی کاری، چینی کاری اور پچی کاری کا کام ہندوستان کے قدیم فن تعمیر سے ملا تو رنگوں اور خوشبووں کا ایک لازوال گلدستہ بن گیا۔ کاشی کاری کے کام کے متعلق ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر ۔ (ص۔550) پر اس طرح ہے۔
''محققین کی رائے ہے کہ اس فن کی ابتداء چین میں ہوئی وہاں سے یہ ایران ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا۔ لفظ کاشی شہر کاشان سے نسبت رکھتا ہے جو فارس کا ایک مشہور شہر ہے۔ وہاں یہ ہنر زمانۂ وسطی میں زوروں پر تھا۔ اس فن کا ریگر شاہ جہان کے عہد میں ہندوستان لائے گئے۔''
مسجد کے اعلیٰ طرز تعمیر، خطاطی و نقاشی کے بے مثال نمونوں کے باعث رائے بہادر کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص17-1) پر درج ذیل الفاظ رقم کئے ہیں۔
''یہ وہ عالی شان، لاثانی عمارت لاہور کی قدیم عمارات میں سے ہے جن کی شہر ولایتوں میں ہے اور فی الحقیقت ایسی خشتی' کانسی کار عمدہ عمارت جگہ کم دیکھی جائے گی بلکہ اس مسجد کو لاہور کا فخر و اقتداء کہا جائے تو بجا ہے۔ اس مسجد میں ہر ایک کام نہایت خوش اسلوبی سے بنا ہے۔ عمارت ایسی مضبوط ، پختہ، چوندکار ، مستحکم بنی ہے کہ باوجود گزرے عرصہ دو سو اکیاون سال اب تک اس کی عمارت کو کچھ نقص نہیں پہنچا۔ بعد سلطنت چغتائی، سکھی عہد میں کبھی کوئی توجہ اس کی مرمت کی طرف نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی تو اس قدر کہ نور ایمان والے نے اس کے چاروں میناروں کے اوپر کے برجوں کے د و دو در بند کرا دیئے تھے اور دو در کھلے رکھے تھے۔ اس خیال سے کہ درمیانی ستون نازک ہیں۔ مبادا کسی بھونچال کے صدمے سے گر جائے مگر اس مستحکم عمارت کو مرمت کی ضرورت نہ ہوئی۔''
مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب تحقیقات چشتی (ص744) پر مسجد کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔
''واضح ہو کہ لاہور کے بارہ دروازوں میں سے ایک دروازہ شرق رویہ بنام دہلی دروازہ مشہور ہے۔ اس کے اندر آتے ہی تمام عمارات دورستہ مبینہ نواب وزیر خان مرحوم متعلقہ مسجد ہذا کے ہیں۔ اندر متصل دروازہ بطرف جنوب ایک سرائے پختہ مع حمام عالیشان جس کا اب سرکار نے سیکریگر گنج نام مقرر فرمایا ہے۔ شرق رویہ زیر مسجد وزیر خان کا چوک ایک بازار پر فضا ہے۔ مشرق رویہ اس کے ایک درکلاں محرابی جس کے شمال و جنوب کی طرف پیچھے تین تین دکانیں اوپر شہ نشین مقام نشت گاہ ریختہ کار سفید۔''
مسجد کی تعمیر میں ہوئی خطاطی اور اس میں نصب و کندہ کتبے آج بھی تقریباً چار سو برس گزرے روز اول کی مانند روشن و عیاں ہیں۔ ان کتبوں کی ترتیب و تحریر کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور۔(ص۔173) پر اس طرح رقم کی ہے۔
''اگرچہ اب صد ہا سال گزر جانے کے سبب سے نقش وحروف بہت جگہ سے گر گئے ہیں مگر جس قدر باقی ہیں، نہایت روشن ہیں، باہر کے شرقی دروازہ کلاں مسجد پر بھی سر تا پا کانسی کا کام ہے اور کتبے بہت ہیں سب سے اوپر طولانی کتبہ ہے جس میں ''افضل الذکر'' بہ خط فارسی جلی لکھا ہے۔
دوسرے کتبے میں یہ عبارت لکھی ہے۔
''در عہد بوالمنظر صاحب قرآن ثانی شاہ جہاں بادشاہ غازی اتمام یافت''
تیسرے کتبے میں لکھا ہے۔
''بانی بیت اللہ ثآنی فدوی با اخلاص مرید خاص الخاص' قدیم الخدمت وزیر خان''
چوتھے کتبے میں یہ شعر لکھا ہے۔
سال تاریخ بنائے مسجد عالی مقام
از خرد جستم بگفتا مسجد گاہ اہل فضل
اس مادہ تاریخ سے 1066ہجری حاصل ہوتے ہیں۔
پانچویں کتبے میں یہ تحریر ہے۔
تاریخ ایں بنائے چو پر سیدم از خرد
گفتابگو کہ بانی مسجد وزیر خاں
اس مادے سے 1066ء ہجری بہ صاحب ابجد برآمد ہوتے ہیں۔
یہ مسجد اپنے فن تعمیر میں کاشی اور کانسی کاری کے بے مثال کام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ ایران میں کاشی کے کام میں عموماً نیلا رنگ پردھان رہتا ہے۔ لیکن مسجد وزیر خان میں دیگر رنگ بھی اعلیٰ ترین امتزاج کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ مسجد کے اس اعلیٰ ترین کام کی گواہی انگریز عہد میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اسی تناظر میں ایک تحریر مسٹر جے ایل اکیبلنگ سابق پرنسپل (میو سکول آف آرٹس) کی نقوش لاہور نمبر( ص551) پر اس طرح ملتی ہے۔
''یہ خوبصورت عمارت کیا ہے؟ فن نقاشی کا بہترین سکول ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ اس کی صحیح نگہداشت نہیں کرتے۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کا رجحان اس کی غور و پرداخت کی طرف بہت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نقش و نگار آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کے بے اعتنائی کا یہی عالم رہا تو اندیشہ ہے کہ یہ عدیم المثال نمونے آسیب روز گار اور امتداد زمانہ کے ہاتھوں بالکل تباہ ہو جائیں گے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے صحیح صحیح چربے اتار کر لاہور کے عجائب گھر اور اسکول میں محفوظ کر دیئے جائیں۔کیونکہ ہمارے نوجوان مصوروں کے لئے اس سے بہتر کوئی تسلیم نہیں ہو سکتی۔''
درج بالا رقم کی گئی تحریر ترجمہ کی شکل میں ہے جبکہ اصل تحریر انگریزی زبان میں سید لطیف کی تاریخ لاہور جو کہ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی اس میں موجود ہے۔مسجد کے نایاب کام کی وجہ سے ہمیں سجاد کوثر (سابق پرنسپل، این سی اے) کی ایک تحریر ڈاکٹر مبارک کے زیر ادارت چھپنے والے سہ ماہی تاریخ ''لاہور نمبر'' شمارہ نمبر (12) (ص۔34) پر یوں ملتی ہے۔
''مغل بادشاہ شاہ جہان کا دور (1658ء۔ 1628ء) کے عرصے پر محیط ہے۔ اس دور میں خصوصاً پنجاب میں کاشی کا کام بطور بیرونی تزئین و آرائش بہت مقبول ہوا۔ ایران کا شہر کا شان ہمیشہ سے کاشی کے کام کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اس تزئین و آرائش کو کاشی کا نام کہا جاتا ہے حالانکہ اس مغل عہد میں ایرانیوں کا اثر برصغیر میں بہت گہرا تھا۔ مگر جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دو تہذیبوں کے ملاپ سے نئی سمتیں، نئی جہتیں، نئے رنگ تخلیق پاتے ہیں۔ اس دور میں بھی یہی کچھ ہوا۔ برصغیر کی کاشی نے ایک نیا رنگ، نئی خوشبو اختیار کی۔ اس کی علیحدہ پہچان بنی۔ 1634ء وزیر خان مسجد شاہ جہان کے عہد میں تعمیر کی گئی۔ مقامی کاشی کے حوالے سے ایک نادر نمونہ تھا۔ سترہویں صدی میں جو عمارتیں اصفہان میں تعمیر کی گئیں یہ ان سے مختلف ہے اور جداگانہ حیثیت رکھتی ہے حالانکہ کبھی کبھی ایک نظر میں یہ ایرانی کاشی سے ملتی جلتی لگتی ہے۔ جیسا کہ کمانوں کے ڈیزائن اسی طرح دیواروں کی گہرائی میں بنے ڈیزائن، کمانوں کے اوپر بنے نقش و نگار جنہیں انگریزی میں Spawbreds کہتے ہیں۔''
درج بالا تمام حوالہ جات کو رقم کرنے کا مقصد محض یہ امر تھا کہ اس مسجد کی عظمت کو بیان کیا جا سکے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں بادشاہی مسجد تعمیر ہونے کے باوجود بھی شہر لاہور کی مرکزی مسجد صدیوں تک مسجد وزیر خان ہی رہی۔
عصر حاضر میں جب دہلی دروازہ سے داخل ہو کر کشمیری بازار کی جانب بڑھا جائے تو دروازے کی عمارت کے ساتھ ہی ملحقہ شاہی حمام کی عمارت ہے جو کہ نواب وزیر خان ہی کا تعمیر کردہ تھا۔ ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی مدد سے شاہی حمام کی عمارت کو نئے سرے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ شاہی حمام کے نیچے موجود پرانی دکانوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے شاہی حمام کے ساتھ جاتی ہوئی سڑک کو بھی نئے سرے سے پرانے طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس راستے کو اب شاہی گزر گاہ کا نام دیا گیا ہے اور یہ راستہ سنہری مسجد تک جاتا ہے۔
درمیانی راستے میں پرانے مکانات کو بھی ایک بار پرانے طرز کے ساتھ سنبھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھتے ہوئے مغل عہد کا تعمیر کردہ دہلی دروازہ ''چٹا دروازہ '' کے نام سے ملتا ہے۔ اس سے آگے بائیں جانب حضرت سید سخی صوفؒ کا مزار مبارک ہے اس مزار کے شمال کی سیدھ میں خلیفہ نان شاپ کے ساتھ اندر جاتی گلی میں حضرت سید سر بلند ؒ کا مزار مبارک ہے۔ سید صوفؒ کے مزار کے جنوب مغربی سیدھ میں مسجد وزیر خان کا مشرقی دروازہ ہے۔ یہ تمام جگہ آج کل نئے سرے سے تعمیرات کے سلسلے میں ہے۔ مسجد وزیر خان کے جنوب سیدھ میں فارسی زبان کے ایک عظیم مفکر، شاعر اور مسجد وزیر خان کے امام ''امام گاموں'' کا مزار ہے۔ مسجد کی شمال سیدھ کا داخلی دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ایک طویل عرصہ سے دروازے کے ساتھ دکانوں کا ہونا تھا وہ دکانیں اب ختم کر دی گئیں ہیں اور ان کی کھدائیاں کر کے مسجد کے نچلے حصے کی محرابوں کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دکانوں کے سامنے شمال سیدھ میں دیوان دینا ناتھ کا کنواں آج بھی موجود ہے۔
یہ کنواں 1970ء کی دہائی تک پانی کی ترسیل کے لئے استعما ل ہوتا رہا اس کے بعد یہ برسہا برس چوکیدار کی رہائش گاہ بنا رہا۔ اس کو بھی اب خالی کروا کر پرانے طرز پر مرمتیں لگا کر سنبھالا جا رہا ہے۔ مسجد کے جنوب سیدھ محلہ خرادیاں کے آغاز ہی میں دیوان دینا ناتھ کی حویلی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مسجد کی مشرق سیدھ میں دیوان دینا ناتھ کے کنوئیں کے سامنے پیپلزپارٹی کے مشہور رہنما جہانگیر بدر کی خاندانی نان پکوڑوں اور مچھلی کی دکان آج بھی روز اول کی مانند کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ مسجد کی مشرق سیدھ ہی میں داخلی دروازے کے ساتھ پرانے کمرے مختلف دفاتر کے زیر استعمال ہیں۔ شمالی سیدھ میں ختم کی گئی دکانوں میں آخری وقت تک کپڑے بیچنے کا کام ہوتا تھا۔ ان تاریخی دکانوں میں تقسیم کے وقت تک نقش نگاری، مصوری، جلد سازی اور خطاطی کے فنون کی دکانیں تھیں۔ اس بازار کے رنگ محل کہلانے میں ایک سبب ان ثقافتی دکانوں کا بھی تھا۔1947ء کے فسادات کے دوران جب ان دکانوں کو آگ لگائی گئی تو کئی روز تک آگ جلتی رہی اور نادر و نایاب نمونہ جات خاکستر ہو گئے۔
اس کے بعد رنگ محل سے کشمیری بازار پبلشرز اور دیگر کتب فروش کی دکانیں ختم ہوگئیں اور کپڑے کی د کانیں بنتی گئیں۔ مسجد کے داخلی دروازے پر ایک معلوماتی تختی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نصب کی گئی ہے۔ اس سے آگے مسجد کا وسیع اور کھلا صحن ہے اور صحن کے آغاز میں کبوتروں کی ایک بہت بڑی تعداددیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے آگے تین محرابی دروازے، قدیمی دیواریں قرآنی آیات اور کاشی کے انمول کام سے مزیں ہیں جس میں بائیں جانب کے آخر میں 1022ھ اور تعمیر کرنے والے کا نام واضح پڑھا جا سکتا ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں امام صاحب کی جگہ محراب، دیواریں تمام قدیمی کام سے مزین ہیں اور کچھ جگہوں پرنئے دور کا مرمتی کام بھی نظر آتا ہے جو کہ انتہائی ہلکے معیار کا ہے اور مسجد کے قدیم کام سے کوئی میل نہیں کھاتا۔
شہر لاہور کے دیگر تاریخی مقامات کی نسبت یہ مسجد بہت محفوظ ہے کیونکہ اس کو تاریخی ورثہ قرار دینے کے بعد اس کی حفاظت دیگر مقامات کی نسبت زیادہ بہتر رہی ہے۔ اندرون لاہور آج بھی اگر کوئی سیاح آ جائے تو وہ اس مسجد کو دیکھے بنا نہیں جاتا۔ ان ایام میں ورلڈ بینک کے زیر انتظام مرمتوں اور بحالی کا کام جاری ہے لیکن جب تک عوام اور سرکار دونوں میں ثقافتی اور تاریخی ورثہ کی اہمیت کو اجاگر نہ کیا گیا تو یہ تمام اقدامات وقتی ثابت ہوں گے۔ اب دعا یہی ہے کہ رب تعالیٰ سرکاروں میں موجود لوگوں کو ان عظیم ثقافتی ورثوں کی اہمیت کا شعور عطا فرمائے۔
لاہور شہر کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم نشانی ''مسجد وزیرخان'' کے نام سے زمانے بھر میں معروف ہے۔ اس عظیم الشان مسجد اور تعمیر کے نادر نمونے کے بانی کا نام حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان ہے۔ حکیم صاحب ایک انتہائی عالم فاضل اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ انہیں فن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور فلسفہ پر بھی گہری نظر تھی۔ فن طب ہی کے باعث ان کی رسائی مغل دربار تک ہوئی اور عہد شاہ جہانی میں دیوان، بیوتات اور نواب وزیر خان جیسے القابات حاصل کئے۔ شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔
حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان کی وجہ سے زمانے بھر میں تو معروف ہوئی ہی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام، مسجد نواب وزیر خان خودر اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ملا محمد صالح کمبوہ نے ''عمل صالح'' میں جب عہد شاہ جہانی کے معروف حکماء اور جراحوں کے بارے میں تحریر کیا تو انہوںنے حکیم علیم الدین کا تذکرہ (ص 569 ) پر یوں کیا ہے۔
حکیم علیم الدین مخاطب بہ وزیر خان:
وطن پنجاب ہے، حکیم داؤدی سے فن طب پڑھ کر تھوڑے ہی عرصہ میں معالجات کے تمام صیغوں پر حاوی ہو گیا۔ ایسا ماہر و حاذق کہ ہر مرض کی صحیح تشخیص کر کے معرکہ آرا علاج کرتا، مدتوں تک شاہ جہان اور شاہزادوں کا معالج رہا اور اس فن کی بدولت حضرت کا محرم خاص ٹھہرا۔ دیوان بیوتات' خانسامانی اور دیوانی (وزات مال) کی خدمتوں پر سرفراز رہا' شاہ جہان نے تخت پر جلوس فرمایا تو پانچ ہزاری و سوار کا منصب دے کر پنجاب کا صوبے دار مقرر کیا۔
نواب وزیر خان جب مغل سرکار کے قریبی روابط میں آئے تو مالی حالات بہتر ہونے لگے اور شاہ جہان چونکہ خود تعمیرات کا شوقین تھا اس لئے حکیم صاحب کا رجحان بھی تعمیرات کی جانب گیا اور کئی اعلیٰ ترین عمارات تعمیر کروائیں۔ ان ہی میں سے مسجد وزیر خان بھی ہے۔ نواب وزیر خان نے اس مسجد کی بنیاد 1066ھ بمطابق 1634ء میں رکھی۔ اس مسجد کی عمارت کی تفصیل سے قبل ا یک نگاہ اس احاطے کی تاریخ پر جہاں یہ مسجد تعمیر ہوئی۔ مغل عہد سے قبل لودھی عہد میں یہ مسجد کی جائے تعمیر ''حملہ رڑہ'' کے نام سے معروف تھی۔
اس محلے میں ایک قدیمی مزار حضرت میراں بادشاہ سید اسحاق گاؤزانی ؒ کا موجود تھا۔ یہ مزار ایک اونچے ٹیلے پر تھا۔ لودھی عہد کے ایک امیر نادر خان نے اس محلے میں اپنی حویلی تعمیر کی تو یہ مزار بھی وسیع حویلی کے احاطے میں آ گیا۔ نادر خان نے بعد احترام و تقدیس اس مزار مبارک کے گرد ایک حجرہ تعمیر کر دیا۔ وہ حویلی عہد شاہ جہانی تک نادر خان کے ورثاء کے پاس رہی۔ جب نواب وزیر خان نے مسجد کے احاطے کا تعین کروایا تو وہ حویلی اور اس کے اردگرد کے کئی مکانات بھی اس کے احاطے میں آ گئے۔
مسجد کی تعمیر کے باعث حویلی اور دیگر مکانات کو منہدم کر دیا گیا اور مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن مزار مبارک کو مقدس مانتے ہوئے قبر مبارک کو ایک تہہ خانے میں اور مسجد کے فرش پر ایک دوسرا خوبصورت تعویز تعمیر کروایا گیا۔ یہ تعویذ اور مزار مبارک آج کے روز تک قائم و دائم ہیں۔عہد ہمایوں سے مغل سلطنت کے زوال تک ہندوستان کے دربار میں ایرانی اثر و رسوخ تمام شعبہ جات زندگی میں بتدریج بڑھتا رہا۔ ایرانی مورخ عہد جہانگیری اور عہد شاہ جہانی میں اپنی معراج پر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں مروجہ کاشی کاری، کاشی کاری، چینی کاری اور پچی کاری کا کام ہندوستان کے قدیم فن تعمیر سے ملا تو رنگوں اور خوشبووں کا ایک لازوال گلدستہ بن گیا۔ کاشی کاری کے کام کے متعلق ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر ۔ (ص۔550) پر اس طرح ہے۔
''محققین کی رائے ہے کہ اس فن کی ابتداء چین میں ہوئی وہاں سے یہ ایران ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا۔ لفظ کاشی شہر کاشان سے نسبت رکھتا ہے جو فارس کا ایک مشہور شہر ہے۔ وہاں یہ ہنر زمانۂ وسطی میں زوروں پر تھا۔ اس فن کا ریگر شاہ جہان کے عہد میں ہندوستان لائے گئے۔''
مسجد کے اعلیٰ طرز تعمیر، خطاطی و نقاشی کے بے مثال نمونوں کے باعث رائے بہادر کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص17-1) پر درج ذیل الفاظ رقم کئے ہیں۔
''یہ وہ عالی شان، لاثانی عمارت لاہور کی قدیم عمارات میں سے ہے جن کی شہر ولایتوں میں ہے اور فی الحقیقت ایسی خشتی' کانسی کار عمدہ عمارت جگہ کم دیکھی جائے گی بلکہ اس مسجد کو لاہور کا فخر و اقتداء کہا جائے تو بجا ہے۔ اس مسجد میں ہر ایک کام نہایت خوش اسلوبی سے بنا ہے۔ عمارت ایسی مضبوط ، پختہ، چوندکار ، مستحکم بنی ہے کہ باوجود گزرے عرصہ دو سو اکیاون سال اب تک اس کی عمارت کو کچھ نقص نہیں پہنچا۔ بعد سلطنت چغتائی، سکھی عہد میں کبھی کوئی توجہ اس کی مرمت کی طرف نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی تو اس قدر کہ نور ایمان والے نے اس کے چاروں میناروں کے اوپر کے برجوں کے د و دو در بند کرا دیئے تھے اور دو در کھلے رکھے تھے۔ اس خیال سے کہ درمیانی ستون نازک ہیں۔ مبادا کسی بھونچال کے صدمے سے گر جائے مگر اس مستحکم عمارت کو مرمت کی ضرورت نہ ہوئی۔''
مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب تحقیقات چشتی (ص744) پر مسجد کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔
''واضح ہو کہ لاہور کے بارہ دروازوں میں سے ایک دروازہ شرق رویہ بنام دہلی دروازہ مشہور ہے۔ اس کے اندر آتے ہی تمام عمارات دورستہ مبینہ نواب وزیر خان مرحوم متعلقہ مسجد ہذا کے ہیں۔ اندر متصل دروازہ بطرف جنوب ایک سرائے پختہ مع حمام عالیشان جس کا اب سرکار نے سیکریگر گنج نام مقرر فرمایا ہے۔ شرق رویہ زیر مسجد وزیر خان کا چوک ایک بازار پر فضا ہے۔ مشرق رویہ اس کے ایک درکلاں محرابی جس کے شمال و جنوب کی طرف پیچھے تین تین دکانیں اوپر شہ نشین مقام نشت گاہ ریختہ کار سفید۔''
مسجد کی تعمیر میں ہوئی خطاطی اور اس میں نصب و کندہ کتبے آج بھی تقریباً چار سو برس گزرے روز اول کی مانند روشن و عیاں ہیں۔ ان کتبوں کی ترتیب و تحریر کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور۔(ص۔173) پر اس طرح رقم کی ہے۔
''اگرچہ اب صد ہا سال گزر جانے کے سبب سے نقش وحروف بہت جگہ سے گر گئے ہیں مگر جس قدر باقی ہیں، نہایت روشن ہیں، باہر کے شرقی دروازہ کلاں مسجد پر بھی سر تا پا کانسی کا کام ہے اور کتبے بہت ہیں سب سے اوپر طولانی کتبہ ہے جس میں ''افضل الذکر'' بہ خط فارسی جلی لکھا ہے۔
دوسرے کتبے میں یہ عبارت لکھی ہے۔
''در عہد بوالمنظر صاحب قرآن ثانی شاہ جہاں بادشاہ غازی اتمام یافت''
تیسرے کتبے میں لکھا ہے۔
''بانی بیت اللہ ثآنی فدوی با اخلاص مرید خاص الخاص' قدیم الخدمت وزیر خان''
چوتھے کتبے میں یہ شعر لکھا ہے۔
سال تاریخ بنائے مسجد عالی مقام
از خرد جستم بگفتا مسجد گاہ اہل فضل
اس مادہ تاریخ سے 1066ہجری حاصل ہوتے ہیں۔
پانچویں کتبے میں یہ تحریر ہے۔
تاریخ ایں بنائے چو پر سیدم از خرد
گفتابگو کہ بانی مسجد وزیر خاں
اس مادے سے 1066ء ہجری بہ صاحب ابجد برآمد ہوتے ہیں۔
یہ مسجد اپنے فن تعمیر میں کاشی اور کانسی کاری کے بے مثال کام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ ایران میں کاشی کے کام میں عموماً نیلا رنگ پردھان رہتا ہے۔ لیکن مسجد وزیر خان میں دیگر رنگ بھی اعلیٰ ترین امتزاج کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ مسجد کے اس اعلیٰ ترین کام کی گواہی انگریز عہد میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اسی تناظر میں ایک تحریر مسٹر جے ایل اکیبلنگ سابق پرنسپل (میو سکول آف آرٹس) کی نقوش لاہور نمبر( ص551) پر اس طرح ملتی ہے۔
''یہ خوبصورت عمارت کیا ہے؟ فن نقاشی کا بہترین سکول ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ اس کی صحیح نگہداشت نہیں کرتے۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کا رجحان اس کی غور و پرداخت کی طرف بہت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نقش و نگار آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کے بے اعتنائی کا یہی عالم رہا تو اندیشہ ہے کہ یہ عدیم المثال نمونے آسیب روز گار اور امتداد زمانہ کے ہاتھوں بالکل تباہ ہو جائیں گے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے صحیح صحیح چربے اتار کر لاہور کے عجائب گھر اور اسکول میں محفوظ کر دیئے جائیں۔کیونکہ ہمارے نوجوان مصوروں کے لئے اس سے بہتر کوئی تسلیم نہیں ہو سکتی۔''
درج بالا رقم کی گئی تحریر ترجمہ کی شکل میں ہے جبکہ اصل تحریر انگریزی زبان میں سید لطیف کی تاریخ لاہور جو کہ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی اس میں موجود ہے۔مسجد کے نایاب کام کی وجہ سے ہمیں سجاد کوثر (سابق پرنسپل، این سی اے) کی ایک تحریر ڈاکٹر مبارک کے زیر ادارت چھپنے والے سہ ماہی تاریخ ''لاہور نمبر'' شمارہ نمبر (12) (ص۔34) پر یوں ملتی ہے۔
''مغل بادشاہ شاہ جہان کا دور (1658ء۔ 1628ء) کے عرصے پر محیط ہے۔ اس دور میں خصوصاً پنجاب میں کاشی کا کام بطور بیرونی تزئین و آرائش بہت مقبول ہوا۔ ایران کا شہر کا شان ہمیشہ سے کاشی کے کام کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اس تزئین و آرائش کو کاشی کا نام کہا جاتا ہے حالانکہ اس مغل عہد میں ایرانیوں کا اثر برصغیر میں بہت گہرا تھا۔ مگر جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دو تہذیبوں کے ملاپ سے نئی سمتیں، نئی جہتیں، نئے رنگ تخلیق پاتے ہیں۔ اس دور میں بھی یہی کچھ ہوا۔ برصغیر کی کاشی نے ایک نیا رنگ، نئی خوشبو اختیار کی۔ اس کی علیحدہ پہچان بنی۔ 1634ء وزیر خان مسجد شاہ جہان کے عہد میں تعمیر کی گئی۔ مقامی کاشی کے حوالے سے ایک نادر نمونہ تھا۔ سترہویں صدی میں جو عمارتیں اصفہان میں تعمیر کی گئیں یہ ان سے مختلف ہے اور جداگانہ حیثیت رکھتی ہے حالانکہ کبھی کبھی ایک نظر میں یہ ایرانی کاشی سے ملتی جلتی لگتی ہے۔ جیسا کہ کمانوں کے ڈیزائن اسی طرح دیواروں کی گہرائی میں بنے ڈیزائن، کمانوں کے اوپر بنے نقش و نگار جنہیں انگریزی میں Spawbreds کہتے ہیں۔''
درج بالا تمام حوالہ جات کو رقم کرنے کا مقصد محض یہ امر تھا کہ اس مسجد کی عظمت کو بیان کیا جا سکے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں بادشاہی مسجد تعمیر ہونے کے باوجود بھی شہر لاہور کی مرکزی مسجد صدیوں تک مسجد وزیر خان ہی رہی۔
عصر حاضر میں جب دہلی دروازہ سے داخل ہو کر کشمیری بازار کی جانب بڑھا جائے تو دروازے کی عمارت کے ساتھ ہی ملحقہ شاہی حمام کی عمارت ہے جو کہ نواب وزیر خان ہی کا تعمیر کردہ تھا۔ ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی مدد سے شاہی حمام کی عمارت کو نئے سرے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ شاہی حمام کے نیچے موجود پرانی دکانوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے شاہی حمام کے ساتھ جاتی ہوئی سڑک کو بھی نئے سرے سے پرانے طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس راستے کو اب شاہی گزر گاہ کا نام دیا گیا ہے اور یہ راستہ سنہری مسجد تک جاتا ہے۔
درمیانی راستے میں پرانے مکانات کو بھی ایک بار پرانے طرز کے ساتھ سنبھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھتے ہوئے مغل عہد کا تعمیر کردہ دہلی دروازہ ''چٹا دروازہ '' کے نام سے ملتا ہے۔ اس سے آگے بائیں جانب حضرت سید سخی صوفؒ کا مزار مبارک ہے اس مزار کے شمال کی سیدھ میں خلیفہ نان شاپ کے ساتھ اندر جاتی گلی میں حضرت سید سر بلند ؒ کا مزار مبارک ہے۔ سید صوفؒ کے مزار کے جنوب مغربی سیدھ میں مسجد وزیر خان کا مشرقی دروازہ ہے۔ یہ تمام جگہ آج کل نئے سرے سے تعمیرات کے سلسلے میں ہے۔ مسجد وزیر خان کے جنوب سیدھ میں فارسی زبان کے ایک عظیم مفکر، شاعر اور مسجد وزیر خان کے امام ''امام گاموں'' کا مزار ہے۔ مسجد کی شمال سیدھ کا داخلی دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ایک طویل عرصہ سے دروازے کے ساتھ دکانوں کا ہونا تھا وہ دکانیں اب ختم کر دی گئیں ہیں اور ان کی کھدائیاں کر کے مسجد کے نچلے حصے کی محرابوں کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دکانوں کے سامنے شمال سیدھ میں دیوان دینا ناتھ کا کنواں آج بھی موجود ہے۔
یہ کنواں 1970ء کی دہائی تک پانی کی ترسیل کے لئے استعما ل ہوتا رہا اس کے بعد یہ برسہا برس چوکیدار کی رہائش گاہ بنا رہا۔ اس کو بھی اب خالی کروا کر پرانے طرز پر مرمتیں لگا کر سنبھالا جا رہا ہے۔ مسجد کے جنوب سیدھ محلہ خرادیاں کے آغاز ہی میں دیوان دینا ناتھ کی حویلی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مسجد کی مشرق سیدھ میں دیوان دینا ناتھ کے کنوئیں کے سامنے پیپلزپارٹی کے مشہور رہنما جہانگیر بدر کی خاندانی نان پکوڑوں اور مچھلی کی دکان آج بھی روز اول کی مانند کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ مسجد کی مشرق سیدھ ہی میں داخلی دروازے کے ساتھ پرانے کمرے مختلف دفاتر کے زیر استعمال ہیں۔ شمالی سیدھ میں ختم کی گئی دکانوں میں آخری وقت تک کپڑے بیچنے کا کام ہوتا تھا۔ ان تاریخی دکانوں میں تقسیم کے وقت تک نقش نگاری، مصوری، جلد سازی اور خطاطی کے فنون کی دکانیں تھیں۔ اس بازار کے رنگ محل کہلانے میں ایک سبب ان ثقافتی دکانوں کا بھی تھا۔1947ء کے فسادات کے دوران جب ان دکانوں کو آگ لگائی گئی تو کئی روز تک آگ جلتی رہی اور نادر و نایاب نمونہ جات خاکستر ہو گئے۔
اس کے بعد رنگ محل سے کشمیری بازار پبلشرز اور دیگر کتب فروش کی دکانیں ختم ہوگئیں اور کپڑے کی د کانیں بنتی گئیں۔ مسجد کے داخلی دروازے پر ایک معلوماتی تختی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نصب کی گئی ہے۔ اس سے آگے مسجد کا وسیع اور کھلا صحن ہے اور صحن کے آغاز میں کبوتروں کی ایک بہت بڑی تعداددیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے آگے تین محرابی دروازے، قدیمی دیواریں قرآنی آیات اور کاشی کے انمول کام سے مزیں ہیں جس میں بائیں جانب کے آخر میں 1022ھ اور تعمیر کرنے والے کا نام واضح پڑھا جا سکتا ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں امام صاحب کی جگہ محراب، دیواریں تمام قدیمی کام سے مزین ہیں اور کچھ جگہوں پرنئے دور کا مرمتی کام بھی نظر آتا ہے جو کہ انتہائی ہلکے معیار کا ہے اور مسجد کے قدیم کام سے کوئی میل نہیں کھاتا۔
شہر لاہور کے دیگر تاریخی مقامات کی نسبت یہ مسجد بہت محفوظ ہے کیونکہ اس کو تاریخی ورثہ قرار دینے کے بعد اس کی حفاظت دیگر مقامات کی نسبت زیادہ بہتر رہی ہے۔ اندرون لاہور آج بھی اگر کوئی سیاح آ جائے تو وہ اس مسجد کو دیکھے بنا نہیں جاتا۔ ان ایام میں ورلڈ بینک کے زیر انتظام مرمتوں اور بحالی کا کام جاری ہے لیکن جب تک عوام اور سرکار دونوں میں ثقافتی اور تاریخی ورثہ کی اہمیت کو اجاگر نہ کیا گیا تو یہ تمام اقدامات وقتی ثابت ہوں گے۔ اب دعا یہی ہے کہ رب تعالیٰ سرکاروں میں موجود لوگوں کو ان عظیم ثقافتی ورثوں کی اہمیت کا شعور عطا فرمائے۔