ظل سبحانی یا خادم
جمہوری حکومتوں میں حکام بالا کی حیثیت سلاطین سے زیادہ کیوں ہوتی ہے
جمہوری حکومتوں میں حکام بالا کی حیثیت سلاطین سے زیادہ کیوں ہوتی ہے، جمہوری وزیراعظم و صدر وغیرہ ظل سبحانی کیوں بنے رہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ جمہوری دور میں عوام کی نفسیات، عوام کی حیثیت رعایا جیسی غلامانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جمہوری بادشاہ عوام کی اس نفسیات کو سمجھتے ہیں اور انھیں غلام بنائے رکھنے کے لیے اور زیادہ تام جھام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماضی کے بادشاہی دور میں بادشاہ بھی اس کروفر کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے جتنا آج کے جمہوری دور میں ''اعلیٰ حکام'' کروفر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مغربی ملکوں میں بھی ملک کے سربراہوں کو پروٹوکول دیا جاتا ہے، لیکن یہ پروٹوکول رسمی ہوتا ہے جس کا مقصد عوام کو مرعوب کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس پروٹوکول کا بنیادی مقصد سیکیورٹی کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔
حیدرآباد دکن ایک مسلم ریاست کہلاتی تھی، اس ریاست میں ہندوؤں کی آبادی 58 فیصد تھی اور مسلمان 12 فیصد تھے، لیکن اس ریاست میں صدیوں تک مسلمان سلاطین کی حکومت رہی اور مسلمان سلاطین کے کروفر کا عالم یہ تھا کہ حیدرآباد کے بادشاہ حضور نظام میر عثمان علی خان جب گھر سے نکلتے تو سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں، عوام جہاں ہوتے تھے وہیں رک جاتے تھے اور سڑکوں کے دونوں طرف بادشاہ کی سواری گزرنے تک سر جھکائے کھڑے رہتے تھے۔ یہ اہتمام اس وقت سے شروع ہو جاتا جب بادشاہ حمام میں ہوتے تھے، سارا شہر پولیس کی سیٹیوں سے گونجنے لگتا اور ہر طرف ''باادب، باملاحظہ، ہوشیار'' جیسی صورت حال پیدا ہو جاتی۔ ہم نے 1967ء میں سوات میں بھی ایسے ہی نظارے دیکھے ہیں۔
جب والیٔ سوات کی سواری نکلتی تو سڑک کے دونوں طرف عوام سر جھکائے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس قسم کا کروفر اور ظل سبحانی کلچر عموماً مسلم حکمرانوں کے دور ہی میں دیکھا جاتا رہا۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے جو اکیسویں صدی میں بھی مسلم ملکوں میں موجود ہے۔ عوام کو اس بیماری سے نکالنے کے لیے جمہوری حکمرانوں کی حیثیت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ جمہوری سربراہان مملکت دراصل عوام کے دوہرے ملازم ہوتے ہیں۔ ایک اس طرح کے یہ سارے ظل سبحانی عوام کی کمائی سے تنخواہ لیتے ہیں، اس لیے ان کی حیثیت عوام کے ملازم کی ہوتی ہے، دوسرے انھیں عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں، یوں عوام کے ووٹوں کا محتاج ظل سبحانی نہیں بلکہ عوام کا ملازم ہوتا ہے۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان ظل سبحانیوں کی انتخابی مہم پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جب انتخابی مہم چلتی ہے تو یہ ظل سبحانی گلی گلی، محلہ محلہ عوام کے دروازوں پر پہنچ کر ووٹ کی بھیک ہی نہیں مانگتے بلکہ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر عوام انھیں اپنے ووٹ سے ''نوازیں'' تو وہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے تمام مسئلے حل کر دیں گے۔ اس صورتحال سے اس حقیقت کی ترجمانی ہوتی ہے کہ جمہوری حکومتوں میں عوام غلام نہیں بلکہ آقا ہوتے ہیں۔
غالباً اسی پس منظر میں یہ کہا جاتا ہے کہ ''عوام طاقت کا سرچشمہ'' ہوتے ہیں۔روایتی طور پر بلاشبہ جمہوری معاشروں میں عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں، لیکن عملاً ان کی حیثیت غلاموں سے بدتر ہوتی ہے، جس کا اندازہ ان حقیقتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی عام کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ سیکیورٹی کو نظرانداز کر کے اپنی کسی عرضداشت کے لیے کسی جمہوری ظل سبحانی کی سرکار میں باریاب ہونے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی عوامی اس شاہانہ کلچر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی ظل سبحانی تک پہنچ جاتا ہے تو نہ صرف اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے بلکہ اس کی ایسی دھنائی کی جاتی ہے کہ بے چارہ ہفتوں اپنا جسم سہلاتا رہ جاتا ہے۔ ہمارے یہ محترمین الیکشن سے پہلے تو مسکین بنے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جاتے ہیں، عوامی بستیوں سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور عوام ہی نہیں سیاسی کارکنوں کی نظروں سے بھی اوجھل ہو جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوری حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ یہ تصور بڑا دلفریب ہوتا ہے اور اس ''کہاوت'' کو جمہوریت کی جان سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ کہاوت جمہوری حکمرانوں کی آن بان کے سامنے صرف ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے جمہوری حکمران موقع بے موقع اپنے حق حکمرانی کو پکا کرنے کے لیے یہ فرماتے رہتے ہیں کہ انھیں حکومت کرنے کا حق یا مینڈیٹ عوام نے دیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو حکمرانوں کو ظل سبحانی بننے کے بجائے عوام کا خادم بن کر رہنا چاہیے۔ عوام کو دھوکا دینے اور بے وقوف بنانے کے لیے ہمارے حکمران زبانی کلامی طور پر اپنے آپ کو عوام کا خادم کہتے یا کہلواتے ہیں لیکن عملاً ان کی حیثیت بادشاہوں جیسی ہوتی ہے۔
جمہوری حکومتوں میں اس شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو پروٹوکول کا نام دیا جاتا ہے۔ پروٹوکول پولیس کی پیٹیوں اور مسلح گارڈز کے حصار میں قید نہیں رہتا، اصل پروٹوکول عوام کے دلوں میں ہوتا ہے اور اسے جمہوری حکمرانوں کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ عوام کے دل پروٹوکول کے بجائے غصے اور حقارت سے بھرے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے تراشی ہوئی یہ مورتیاں خدا یا بھگوان بن جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منتخب حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ اور عوام کا خادم کس طرح بنایا جائے؟ اس حوالے سے پارلیمنٹ کے ادارے کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے، کیونکہ پارلیمنٹ عوام کا منتخب ادارہ اور حکمرانوں کا احتساب کرنے والا ادارہ کہلاتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اس سوال کا جواب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ حکمرانوں کا دوسرا جوابدہ فورم اپوزیشن ہوتی ہے، لیکن ہماری جمہوریت میں اپوزیشن کے فورم کو مویشی منڈی کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو عوام کس کے ہاتھوں پر جمہوریت کا خون تلاش کریں کہ سب نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔