اے جذبہ دل گر میں چاہوں
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور بمبئی کی فلم انڈسٹری کو برصغیر میں بڑی شہرت حاصل تھی۔
لاہور:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور بمبئی کی فلم انڈسٹری کو برصغیر میں بڑی شہرت حاصل تھی۔ اسی دور میں فلمی دنیا کے مرکز بمبئی میں ایک آل انڈیا مشاعرے کا بہت بڑے پیمانے پر انعقاد کیا گیا تھا، جس میں بڑے بڑے جید اور مشہور شعرا کو مدعو کیا گیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب مشاعروں میں ہوٹنگ کو بھی بڑا رواج حاصل تھا، جس شاعر کا کلام بے اثر ہوتا اسے خوب ہوٹ کیا جاتا تھا اور جن کے کلام میں جان ہوتی تھی اسے سراہا جاتا تھا اور ہر طرف سے مکرر مکرر کی آوازیں لگنے لگتی تھیں۔ مذکورہ مشاعرے میں ایک وقت ایسا آیا کہ جس شاعر کو بلایا گیا وہ ہوٹ ہوتا چلا گیا اور کچھ دیر تک کوئی شاعر اپنا رنگ نہ جما سکا۔ شاعروں پر مسلسل ہوٹنگ کی وجہ سے مشاعرے کے منتظمین بھی بڑے پریشان سے ہوگئے تھے۔ اس صورتحال کو قابو کرنے کے لیے کسی انتظامی شخص کی نظر ایک شاعر پر پڑی، اس نے بڑے اعتماد سے اس شاعر کو اسٹیج پر بلایا اور وہ شاعر منہ میں پان کی گلوری لیے لہراتے ہوئے اسٹیج پر آیا اور اس نے خوبصورت ترنم کے ساتھ اپنی غزل کا مطلع پیش کیا۔
بس اس کا مطلع سنانا تھا کہ سارا مجمع ایک دم اس طرح ساکت ہوگیا جیسے کسی جھیل میں کئی پتھر گرنے کے بعد جھیل کا پانی تھم جاتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر تھا:
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اور اس شاعر کا نام تھا بہزاد لکھنوی۔ اس کی غزل کے پہلے شعر میں ہی ساری محفل پر ایک وجد سا طاری ہوگیا تھا۔ مکرر مکرر کے شور کے ساتھ وہ شعر کئی بار سنا گیا، پھر غزل کے باقی اشعار بھی خوب سراہے گئے ۔ چند قارئین کی نذر ہیں۔
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آجائے
اور بہزاد لکھنوی نے صحیح معنوں میں وہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ پھر اس مشاعرے کے بعد بہزاد لکھنوی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بمبئی کی نامور اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی جو شعر و شاعری کی بڑی دلدادہ تھیں جب انھیں بمبئی کے اس مشاعرے کا پتا چلا اور بہزاد لکھنوی کی دھوم سنی تو جدن بائی نے اپنی رہائش گاہ پر شاعری کی ایک خصوصی نشست رکھی اور چند مقامی شعرا کے علاوہ بہزاد لکھنوی کو بطور خاص دعوت دی۔ بہزاد لکھنوی نے اس شعری نشست میں بھی اپنی شاعری سے ساری محفل پر ایک سحر طاری کردیا تھا۔
اب میں آتا ہوں بہزاد لکھنوی کی ایک اور شہرہ آفاق غزل کی طرف جو اس دور کی نامور غزل کی گائیکہ اختری بائی فیض آبادی نے گائی اور پھر اس غزل کی پسندیدگی نے سارے ہندوستان میں بہزاد لکھنوی کی شہرت کے ڈنکے بجائے تھے۔ بہزاد لکھنوی کی اس غزل نے جہاں ان کی دھوم مچائی وہاں اختری بائی فیض آبادی جو بعد میں بیگم اختر کے نام سے بھی مشہور ہوئیں ان کو بھی شہرت دوام بخشی اور وہ غزل بھی کیا غزل تھی، ایک ایک شعر دل میں اتر جاتا تھا۔ اس غزل کے بھی چند اشعار حاضر ہیں:
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنادے
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانہ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے
بہزاد ہر ایک گام پہ اک سجدہ مستی
ہر ذرے کو سنگ در جاناں نہ بنا دے
اور اس دور میں اس غزل کے ریکارڈ کی فروخت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں اس ریکارڈ کی فروخت ہوئی تھی۔ اب بمبئی کی فلم انڈسٹری بھلا بہزاد لکھنوی سے کس طرح بے تعلق رہ سکتی تھی۔ فلم اسٹوڈیو میں بہزاد لکھنوی کو بڑے ادب اور احترام سے بلایا گیا۔ اسی دور میں مشہور فلمساز و ہدایت کار راج کپور نے اپنا نیا نیا فلمساز ادارہ بنایا تھا اور اپنی فلم ''آگ'' کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے لیے بحیثیت نغمہ نگار بہزاد لکھنوی کو منتخب کیا گیا اور پھر بہزاد لکھنوی نے فلم ''آگ'' کے لیے جتنے بھی گیت لکھے وہ تمام سپرہٹ ہوئے جن میں سے ان دو گیتوں کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
زندہ ہوں اس طرح سے غم زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں مگر روشنی نہیں
اس گیت کے موسیقار رام گنگولی تھے اور اسے نئے گلوکار مکیش نے گایا تھا۔ اس گیت کے بعد مکیش پر بھی شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے تھے۔ دوسرا گیت شمشاد بیگم کی آواز میں تھا جس کے بول تھے:
کاہے کوئل شور مچائے رے
موہے اپنا کوئی یاد آئے رے
اور فلم ''آگ'' کا ایک اور گیت جو ہٹ ہوا وہ محمد رفیع اور شمشاد بیگم کی آوازوں میں تھا، جس کے بول تھے:
سولہ برس کی بھئی عمریا
گورے گورے پاؤں میں جھانجن
چال کرے بدنام
سب کی لاگی تجھ پہ نجریا
کون نہ لے دل تھام، چال کرے بدنام
پھر تو بہزاد لکھنوی کئی فلمسازوں کے چہیتے شاعروں میں شمار ہونے لگے تھے۔ بہزاد لکھنوی زیادہ عرصہ فلمی دنیا سے وابستہ نہ رہے، لیکن اچھی خاصی فلموں کے لیے گیت لکھے تھے۔ جو چند مشہور فلمیں ان کے نام ہیں، ان میں انوکھا پیار، خاندان، زمیندار، گجرے اور لاڈلی وغیرہ ہیں۔ اب میں آتا ہوں بہزاد لکھنوی کی شخصیت اور ادبی شاعری کی طرف۔ بہزاد لکھنوی کا گھریلو نام سردار حسن خان تھا۔ ان کے والد سجاد حسین خان اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے، جو راز رامپوری تخلص کرتے تھے اور بہزاد لکھنوی کے دادا غلام حسین خان کا تو جید شاعروں میں شمار ہوتا تھا، وہ حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے اور عاشق رامپوری کے نام سے وہ بھی اپنے دور کے نامی گرامی شاعر تھے۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد بہزاد لکھنوی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی اور ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہوگئے۔
پھر ان کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب آیا۔ عشق مجازی سے ہٹ کر عشق حقیقی ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھر گیا۔ غزلیں کہنی بالکل چھوڑ دیں، صرف نعتیہ شاعری کرنے لگے اور رفتہ رفتہ عشق رسولؐؐ میں ڈوبتے چلے گئے۔ اکثر نعتوں کی محفلوں میں نعتیں پڑھتے ہوئے اپنا گریباں چاک کرلیا کرتے تھے اور ان پر جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ آہستہ آہستہ زندگی کے تمام جھمیلوں اور رونقوں سے منہ موڑتے چلے گئے ۔ روضہ رسولؐؐ پر حاضری دینے کے بعد تو ان کی کیفیت ہی بالکل جدا ہوگئی تھی۔
تصوف کے پیکر میں ڈھلتے چلے گئے تھے۔ میں نے پہلی بار انھیں ریڈیو پاکستان کراچی کے احاطے میں دیکھا تھا اور بس دیکھتا رہ گیا تھا۔ سرخ و سپید نورانی چہرہ اور سفید ریش کے ساتھ فرشتہ نما انسان نظر آتے تھے۔ پان کی پیک ان کی قمیص پر ہر وقت بکھری رہتی تھی۔ بہزاد لکھنوی کی غزلوں کے کئی مجموعے شایع ہوئے، جن میں چراغ طور، موج طور، کیف و سرور اور نقش بہزاد کو بڑی شہرت ملی اور غزلوں سے زیادہ ان کی نعتوں کے مجموعوں کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
خاص طور پر ثنائے حبیب، فیضان حرم، قربان مدینہ، اور درمان غم سرکار دو عالمؐ کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ بہزاد لکھنوی نے اپنی قبر کے لیے زمین اپنی زندگی ہی میں خرید لی تھی۔ یہ تپ دق کے مہلک مرض میں طویل عرصے تک مبتلا رہنے کے بعد 10 اکتوبر 1974 کو اس دار فانی سے کوچ کرکے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ یہ سخی حسن کراچی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا سا مزار کا احاطہ بھی بنا ہوا ہے، جہاں اکثر و بیشتر قوالیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مزار سے متصل سڑک کو بہزاد لکھنوی روڈ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بہزاد لکھنوی کے درجات بلند کرے، آمین۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور بمبئی کی فلم انڈسٹری کو برصغیر میں بڑی شہرت حاصل تھی۔ اسی دور میں فلمی دنیا کے مرکز بمبئی میں ایک آل انڈیا مشاعرے کا بہت بڑے پیمانے پر انعقاد کیا گیا تھا، جس میں بڑے بڑے جید اور مشہور شعرا کو مدعو کیا گیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب مشاعروں میں ہوٹنگ کو بھی بڑا رواج حاصل تھا، جس شاعر کا کلام بے اثر ہوتا اسے خوب ہوٹ کیا جاتا تھا اور جن کے کلام میں جان ہوتی تھی اسے سراہا جاتا تھا اور ہر طرف سے مکرر مکرر کی آوازیں لگنے لگتی تھیں۔ مذکورہ مشاعرے میں ایک وقت ایسا آیا کہ جس شاعر کو بلایا گیا وہ ہوٹ ہوتا چلا گیا اور کچھ دیر تک کوئی شاعر اپنا رنگ نہ جما سکا۔ شاعروں پر مسلسل ہوٹنگ کی وجہ سے مشاعرے کے منتظمین بھی بڑے پریشان سے ہوگئے تھے۔ اس صورتحال کو قابو کرنے کے لیے کسی انتظامی شخص کی نظر ایک شاعر پر پڑی، اس نے بڑے اعتماد سے اس شاعر کو اسٹیج پر بلایا اور وہ شاعر منہ میں پان کی گلوری لیے لہراتے ہوئے اسٹیج پر آیا اور اس نے خوبصورت ترنم کے ساتھ اپنی غزل کا مطلع پیش کیا۔
بس اس کا مطلع سنانا تھا کہ سارا مجمع ایک دم اس طرح ساکت ہوگیا جیسے کسی جھیل میں کئی پتھر گرنے کے بعد جھیل کا پانی تھم جاتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر تھا:
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اور اس شاعر کا نام تھا بہزاد لکھنوی۔ اس کی غزل کے پہلے شعر میں ہی ساری محفل پر ایک وجد سا طاری ہوگیا تھا۔ مکرر مکرر کے شور کے ساتھ وہ شعر کئی بار سنا گیا، پھر غزل کے باقی اشعار بھی خوب سراہے گئے ۔ چند قارئین کی نذر ہیں۔
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آجائے
اور بہزاد لکھنوی نے صحیح معنوں میں وہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ پھر اس مشاعرے کے بعد بہزاد لکھنوی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بمبئی کی نامور اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی جو شعر و شاعری کی بڑی دلدادہ تھیں جب انھیں بمبئی کے اس مشاعرے کا پتا چلا اور بہزاد لکھنوی کی دھوم سنی تو جدن بائی نے اپنی رہائش گاہ پر شاعری کی ایک خصوصی نشست رکھی اور چند مقامی شعرا کے علاوہ بہزاد لکھنوی کو بطور خاص دعوت دی۔ بہزاد لکھنوی نے اس شعری نشست میں بھی اپنی شاعری سے ساری محفل پر ایک سحر طاری کردیا تھا۔
اب میں آتا ہوں بہزاد لکھنوی کی ایک اور شہرہ آفاق غزل کی طرف جو اس دور کی نامور غزل کی گائیکہ اختری بائی فیض آبادی نے گائی اور پھر اس غزل کی پسندیدگی نے سارے ہندوستان میں بہزاد لکھنوی کی شہرت کے ڈنکے بجائے تھے۔ بہزاد لکھنوی کی اس غزل نے جہاں ان کی دھوم مچائی وہاں اختری بائی فیض آبادی جو بعد میں بیگم اختر کے نام سے بھی مشہور ہوئیں ان کو بھی شہرت دوام بخشی اور وہ غزل بھی کیا غزل تھی، ایک ایک شعر دل میں اتر جاتا تھا۔ اس غزل کے بھی چند اشعار حاضر ہیں:
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنادے
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانہ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے
بہزاد ہر ایک گام پہ اک سجدہ مستی
ہر ذرے کو سنگ در جاناں نہ بنا دے
اور اس دور میں اس غزل کے ریکارڈ کی فروخت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں اس ریکارڈ کی فروخت ہوئی تھی۔ اب بمبئی کی فلم انڈسٹری بھلا بہزاد لکھنوی سے کس طرح بے تعلق رہ سکتی تھی۔ فلم اسٹوڈیو میں بہزاد لکھنوی کو بڑے ادب اور احترام سے بلایا گیا۔ اسی دور میں مشہور فلمساز و ہدایت کار راج کپور نے اپنا نیا نیا فلمساز ادارہ بنایا تھا اور اپنی فلم ''آگ'' کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے لیے بحیثیت نغمہ نگار بہزاد لکھنوی کو منتخب کیا گیا اور پھر بہزاد لکھنوی نے فلم ''آگ'' کے لیے جتنے بھی گیت لکھے وہ تمام سپرہٹ ہوئے جن میں سے ان دو گیتوں کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
زندہ ہوں اس طرح سے غم زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں مگر روشنی نہیں
اس گیت کے موسیقار رام گنگولی تھے اور اسے نئے گلوکار مکیش نے گایا تھا۔ اس گیت کے بعد مکیش پر بھی شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے تھے۔ دوسرا گیت شمشاد بیگم کی آواز میں تھا جس کے بول تھے:
کاہے کوئل شور مچائے رے
موہے اپنا کوئی یاد آئے رے
اور فلم ''آگ'' کا ایک اور گیت جو ہٹ ہوا وہ محمد رفیع اور شمشاد بیگم کی آوازوں میں تھا، جس کے بول تھے:
سولہ برس کی بھئی عمریا
گورے گورے پاؤں میں جھانجن
چال کرے بدنام
سب کی لاگی تجھ پہ نجریا
کون نہ لے دل تھام، چال کرے بدنام
پھر تو بہزاد لکھنوی کئی فلمسازوں کے چہیتے شاعروں میں شمار ہونے لگے تھے۔ بہزاد لکھنوی زیادہ عرصہ فلمی دنیا سے وابستہ نہ رہے، لیکن اچھی خاصی فلموں کے لیے گیت لکھے تھے۔ جو چند مشہور فلمیں ان کے نام ہیں، ان میں انوکھا پیار، خاندان، زمیندار، گجرے اور لاڈلی وغیرہ ہیں۔ اب میں آتا ہوں بہزاد لکھنوی کی شخصیت اور ادبی شاعری کی طرف۔ بہزاد لکھنوی کا گھریلو نام سردار حسن خان تھا۔ ان کے والد سجاد حسین خان اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے، جو راز رامپوری تخلص کرتے تھے اور بہزاد لکھنوی کے دادا غلام حسین خان کا تو جید شاعروں میں شمار ہوتا تھا، وہ حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے اور عاشق رامپوری کے نام سے وہ بھی اپنے دور کے نامی گرامی شاعر تھے۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد بہزاد لکھنوی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی اور ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہوگئے۔
پھر ان کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب آیا۔ عشق مجازی سے ہٹ کر عشق حقیقی ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھر گیا۔ غزلیں کہنی بالکل چھوڑ دیں، صرف نعتیہ شاعری کرنے لگے اور رفتہ رفتہ عشق رسولؐؐ میں ڈوبتے چلے گئے۔ اکثر نعتوں کی محفلوں میں نعتیں پڑھتے ہوئے اپنا گریباں چاک کرلیا کرتے تھے اور ان پر جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ آہستہ آہستہ زندگی کے تمام جھمیلوں اور رونقوں سے منہ موڑتے چلے گئے ۔ روضہ رسولؐؐ پر حاضری دینے کے بعد تو ان کی کیفیت ہی بالکل جدا ہوگئی تھی۔
تصوف کے پیکر میں ڈھلتے چلے گئے تھے۔ میں نے پہلی بار انھیں ریڈیو پاکستان کراچی کے احاطے میں دیکھا تھا اور بس دیکھتا رہ گیا تھا۔ سرخ و سپید نورانی چہرہ اور سفید ریش کے ساتھ فرشتہ نما انسان نظر آتے تھے۔ پان کی پیک ان کی قمیص پر ہر وقت بکھری رہتی تھی۔ بہزاد لکھنوی کی غزلوں کے کئی مجموعے شایع ہوئے، جن میں چراغ طور، موج طور، کیف و سرور اور نقش بہزاد کو بڑی شہرت ملی اور غزلوں سے زیادہ ان کی نعتوں کے مجموعوں کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
خاص طور پر ثنائے حبیب، فیضان حرم، قربان مدینہ، اور درمان غم سرکار دو عالمؐ کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ بہزاد لکھنوی نے اپنی قبر کے لیے زمین اپنی زندگی ہی میں خرید لی تھی۔ یہ تپ دق کے مہلک مرض میں طویل عرصے تک مبتلا رہنے کے بعد 10 اکتوبر 1974 کو اس دار فانی سے کوچ کرکے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ یہ سخی حسن کراچی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا سا مزار کا احاطہ بھی بنا ہوا ہے، جہاں اکثر و بیشتر قوالیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مزار سے متصل سڑک کو بہزاد لکھنوی روڈ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بہزاد لکھنوی کے درجات بلند کرے، آمین۔