صریح جھوٹ اور دکھوں کی طولانی داستان

احسان جعفری کے ہاتھ میں اپنے دفاع کے لیے جو پستول تھی اس کا الزام بھی الٹا اس پرلگا دیا کہ اس نے پہلے ہجوم پرفائرنگ کی


اکرام سہگل June 25, 2016

FAISALABAD: 2002ء کے گجرات میں ہونے والے فسادات میں 1000 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا جب کہ 100,000 سے زائد بے گھر ہو گئے، ہندو بلوائیوں نے کانگریس کے ایم ایل اے احسان جعفری کے گھر پر حملہ کر کے ان 70 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا جو وہاں پناہ لینے کے لیے جمع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ہجوم نے جعفری کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے آگ لگا دی۔

اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے پولیس کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ کوئی مداخلت نہ کرے۔ احسان جعفری کے ہاتھ میں اپنے دفاع کے لیے جو پستول تھی اس کا الزام بھی الٹا اس پر لگا دیا کہ اس نے پہلے ہجوم پر فائرنگ کی۔ اس گھناؤنے واقعے کی بازگشت دنیا بھر میں سنی گئی جس کے نتیجے میں مودی کو امریکا کا ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ تاہم ملک کا وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے واشنگٹن کا سرکاری دورہ کیا اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں بلند بانگ دعوے کیے کہ بھارت میں آئین کے اصولوں کے مطابق نہ صرف مذہبی بلکہ اظہار رائے کی بھی مکمل آزادی ہے جب کہ تمام شہریوں کو مساویانہ حقوق میسر ہیں۔

اس موقع پر انھوں نے یہ بھی بتایا کہ گجرات کے فسادات کے جرم میں بھارتی عدالت نے 30 افراد کو سزائیں سنائیں جن میں سے 11 کو قتل کے الزام میں عمر قید دی گئی۔بھارت کا یہ دعویٰ کہ بھارت کے 1.25 ارب شہریوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے اور وہاں پر مکمل مساوات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے محل نظر ہے حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہندو مذہب کے اندر بھی انتہا درجے کی عدم مساوات موجود ہے جس میں نچلے طبقے کو اچھوت گردانا جاتا ہے یعنی وہ اونچی ذات والوں کو چھو بھی نہیں سکتے۔ جہاں تک مسلمانوں' دلتوں' کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم و تشدد کا تعلق ہے تو اس میں 2014ء میں مودی حکومت آنے کے بعد کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ستمبر 2015ء میں ایک 50 سالہ مسلمان شخص کو ہندوؤں کے ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ اس کے بارے میں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ اس کی فیملی نے بیف کھایا ہے حالانکہ اس کے گھر کی تلاشی لینے پر فریج سے بیف کے بجائے مٹن برآمد ہوا۔ مودی اس واقعے کے بعد دو ہفتوں تک بالکل خاموش رہے تاہم بعدازاں اسے ''بدقسمتی'' قرار دیدیا۔

25 سے زیادہ ادیبوں اور فنکاروں نے بھارت میں عدم برداشت کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے سرکاری اعزازات حکومت کو واپس کر دیے لیکن ان قوم پرست ہندو تنظیموں کے اس عمل کو بھی بی جے پی حکومت نے نظرانداز کر دیا اور ہندو انتہا پسندوں کو عام جرائم سے مبرا قرار دیدیا۔ 2006ء میں ہونے والے مالیگاؤں کے دھماکوں کے مقدمہ میں خاتون پبلک پراسیکیوٹر روہینی سالیان نے بتایا کہ 2015ء میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے اسے ہدایت کی تھی کہ ملزموں کے خلاف نرم رویہ اختیار کیا جائے جو کہ زیادہ تر ہندوتوا کے انتہا پسند تھے۔

مودی کی بی جے پی حکومت پر ہندوتوا کے انتہا پسندوں کو تحفظ دینے کا الزام بالکل درست ہے جنھوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے دہشتگردی کی مہم شروع کر رکھی ہے اس مہم کا نام ''گھر واپسی'' رکھا گیا ہے۔ واشنگٹن میں مودی نے تقریر کرتے ہوئے گاندھی جی کی عدم تشدد کی تحریک کا حوالہ بھی دیا جو سراسر منافقت پر مبنی تھا کیونکہ خود مودی کا تعلق اس دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس سے تھا جس کے رکن نتھو رام گوڈسے نے 1948ء میں گاندھی جی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا کیونکہ انھوں نے تقسیم کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں کی طرفداری کی تھی۔انسداد دہشت گردی کے مرکز (این ڈی یو) کے سربراہ ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ حالیہ دور میں اسلامی عسکریت پسندی کو دنیا میں بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جب کہ دوسرے اقسام کی انتہا پسندی کو تقریباً نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس میں ہندوؤں کی انتہا پسندی اور دہشتگردی بھی شامل ہے۔

آر ایس ایس کے تعلیمی ادارے بھارت میں طالبان کے مدرسوں سے کہیں زیادہ خطرناک دہشت گردی کے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں جن کے اراکین کی تعداد 50 سے 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔مودی نے امریکا میں اپنی تقریر میں دہشتگردی کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس عفریت کی پرورش خود ان کے پڑوس میں ہو رہی ہے۔

یہ پاکستان پر الزام تھا حالانکہ پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگردی میں بھارت کی سرکاری ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں۔ مودی نے امریکا کے ساتھ سیکیورٹی تعاون طلب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کے مدد کرنیوالے ملکوں کو عالمی تنہائی کا نشانہ بنا دینا چاہیے لیکن مودی نے اپنی بحریہ کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کا ذکر نہیں کیا جو کہ پچھلے دنوں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا اور جس نے اعتراف کیا کہ اسے بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی وارداتوں کو ہوا دینے کے لیے بھجوایا تھا۔

پاکستان کو امریکا کی طرف سے ملنے والے چند ایف 16 طیاروں کو روکے جانے پر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ پاکستان کے احتساب کے لیے پہلا اقدام ہے حالانکہ پاکستان دہشتگردوں کے خلاف جو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے اس کے لیے ایف 16 طیارے درکار ہیں۔ بھارتی اخبارات اور ٹی وی اسٹیشنوں نے مودی کی امریکا میں پذیرائی کی خبریں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیں تاہم انھوں نے پوری کہانی نہیں سنائی۔

بہت سے امریکی قانون سازوں نے مودی سے مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن مودی نے پلہ نہیں پکڑایا۔ امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے اہم رکن سینیٹر بین کارڈن نے اخبار ''دی ہل'' میں آرٹیکل لکھا ہے جس میں بھارت کی عشروں پر محیط شدید غربت کا ذکر کیا گیا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی بعض کمیٹیوں نے اس دباؤ کا ذکر بھی کیا جو بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر روا رکھا جا رہا ہے۔ کارڈن نے اپنے آرٹیکل میں مودی پر زور دیا کہ وہ ان خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جو ان کے نظام حکومت میں پائی جاتی ہیں۔

مودی کی طرف سے امریکا پر زور دیا گیا کہ وہ چین کو اس کی حدود میں رکھنے کے لیے بھارت کی مدد کرے لیکن امریکا کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آخر بھارت کا رویہ اس کے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ اسقدر جارحانہ کیوں ہے؟ ان پڑوسیوں میں بنگلہ دیش' نیپال' بھوٹان' مالدیپ اور سری لنکا شامل ہیں اور آخر بھارت نے کشمیری مسلمانوں کو کچلنے کے لیے وہاں اتنی بڑی تعداد میں فوج کیوں متعین کر رکھی ہے؟ اور بھارت کی کئی ریاستوں میں ''ماؤ نواز'' عسکریت پسندوں کی بغاوت کیوں جاری ہے؟

یہ درست ہے کہ امریکا میں مودی کا اچھا استقبال ہوا ہے لیکن اگر ہم اس استقبال کا مقابلہ صدر ایوب خان کے 1961ء میں ہونے والے استقبال سے کریں جس میں امریکی صد کینیڈی اور خاتون اول جیکولین بنفس نفیس انھیں خیرمقدم کہنے کے لیے ایئرپورٹ پر پہنچے تھے جب کہ نیویارک کی سڑکیں ہزاروں لوگوں سے بھر گئی تھیں جو استقبالی نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس زمانے میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا تقاضا تھا کہ صدر پاکستان کا ویسا استقبال کیا جائے۔ اور آج چونکہ حالات بدل گئے ہیں لہٰذا بھارتی وزیراعظم کا استقبال بھی نمایاں نظر آ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں