کراچی دہشت گردی کے حصار
رمضان کے پرامن مبارک مہینے میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ جس میں ملک کے نامور صوفی قوال کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا
رمضان کے پرامن مبارک مہینے میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ جس میں ملک کے نامور صوفی قوال کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جن کا کام صرف اﷲ کی حمد و ثناء، رسولﷺ کی خدمت میں ہدیۂ نعت پیش کرنا تھا، جو امن اور محبت کا درس دیتا تھا، اس طرح خاموش کردیا گیا گویا یہ اس کا سب سے بڑا جرم ہو۔ امجد صابری کے لیے ہر آنکھ اشک بار ہے۔شہر کراچی کا لائق تحسین بیٹا تھا، جن کے دم قدم سے پاکستان میں قوالی کے فن کو آگے بڑھانے کے وسیع امکانات نظر آتے تھے، جو اپنے والد کی تقلید کرتے دکھائی دیتے تھے، قدرت نے انھیں والد کی ہوبہو آواز وانداز سے بھی نوازا تھا۔ جس سوز وانداز سے وہ کلام پڑھتے تھے سننے والے کے لیے اشک روکنا ناممکن ہوجاتا تھا۔
دل خودبخود مائل بہ کرم ہونے لگتا۔ جب دکھائی دیا ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کا راج تھا، آخر ایسے بے ضرر امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ اسے کیوں جیتی جاگتی زندگی سے محروم کر دیا گیا؟ اس کے اہل و عیال پر کیا بیتی ہوگی، جب ایک ہنستا بولتا جیتا جاگتا انسان گھر سے نکلا ہو اور لاش کی صورت میں گھر واپس آیا ہوگا۔ اس دکھ سے بڑا کوئی غم ہوسکتا ہے؟ یہ سوچنا بھی کرب آمیز ہے۔ ہم کیسے خونی ذہنی مریضوں کے درمیان رہ رہے ہیں، جو انسانوں کی موت کو محض ایک کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ''تم میں ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مقتول کو خبر نہ ہوگی کہ اسے کیوں قتل کیا گیا''۔ آج ایسے ہی زمانے میں ہم جی رہے ہیں، یہ سب ہم جیسے عام شہریوںکے لیے کسی عذاب سے کم نہیں، جب انسان کے دلوں سے انسان کا احترام اٹھ جائے، ان سے خوف زدہ رہیں تو اس سے بڑھ کر عذاب کا موسم اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے ہی دیس میں خود کو پردیسی محسوس کرنے لگے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ جب زمانہ امن کا ہو اور حالات جنگ جیسے ہوں تو سمجھو عذاب ہے۔ جنازے اٹھ رہے ہیں، کندھا دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آنکھیں نم ہیں، اردگرد جشن منانے والے درندے ہیں، ہم ایسے ہی عذاب میں مبتلا ہیں۔ شہر کراچی کی سڑکوں پر دن دہاڑے بے گناہ انسان کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آگ و خون کا کھیل ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔ اغوا برائے تاوان کا کاروبار زوروں پر ہے۔ تاجر برادری بھتہ خوروں کے ہاتھوں یرغمال ہے، گھر سے روزگار کے حصول کے لیے جانے والے، تعلیم کے لیے نکلنے والے ان کا نشانہ ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کب کوئی گولی کہاں سے آئے اور ایک ہنستے بستے گھر کو ویران کرجائے۔ کراچی کی تباہی و بربادی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ کبھی ڈاکٹروں کی باری ہوتی ہے تو کبھی مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کے کھاتے کھولے جاتے ہیں، اور کبھی بے گناہ شہریوں کے نام قرعہ فال نکلتا ہے۔
شہری خوف زدہ ہوکر یااﷲ خیر ہو کی دعائیں کرتے رہنے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں۔ کیا کریں کہ اس قوم پر ایک کے بعد ایک عذاب نازل ہونا دستور ہوچکا۔ کراچی ایک آتش فشاں کا روپ دھار چکا ہے، جس میں وقفے وقفے سے لاوا ابل کر باہر آتا ہے، تباہی مچاتا ہے، جانوں کا نذرانہ وصول کرتا ہے اور خاموش ہوجاتا ہے۔ سیکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کیا یہ المیہ نہیں؟ کچھ دن امن رہتا ہے، پھر وہی بگڑتی صورتحال، روزانہ گھروں سے کام پر نکلنے والوں کو کوئی امید نہیں ہوتی کہ واپس صحیح سلامت آئیں گے یا خدانخواستہ کسی انجانی گولی کا شکار ہوجائیں گے۔ سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ کانفرنس گفت وشنید اور باہمی مفاہمت اور تعاون کی یقین دہانیاں ہیں۔ رینجرز نے کافی حد تک قابو پایا لیکن اب بات اس کے اختیار سے باہر نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ ہم سب کچھ عرصے کے لیے خوش فہم رہے کراچی میںامن قائم ہوگیا ہے، مگر ایک بار پھر وہی بدامنی، بے یقینی والی فضا قائم ہوچکی ہے۔
1996 سے کراچی میں رینجرز تعینات ہے، ان کی موجودگی کے باوجود اب تک کراچی کا امن بحال نہیں ہوسکا۔ کچھ عرصے قبل سپریم کورٹ نے کراچی دہشت گردی کا ازخود نوٹس لیا۔ عدالتی حکم کے مطابق کراچی کے حالات خراب کرنے والے تمام دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے، ان کو بھی جو گرفتار ہونے کے بعد پیرول پر رہا ہوگئے تھے۔ اس لیے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی قابل ستائش تھا کہ رینجرز کے اختیارات بڑھائے جائیں، ان پر سے ہر قسم کے سیاسی دباؤ کو ختم کیا جائے۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہوں گے تو پھر امن وامان میں بہتری بھی آئے گی۔
اسی حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں بھی ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئی، جس میں تمام سیاسی رہنماؤں نے پولیس اور رینجرز پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ان دونوں اداروں نے کراچی میں آپریشن شروع کیا، کچھ عرصے کے لیے امن کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے، پھر اچانک پولیس افسران کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس پر رینجرز نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا، اس معاملے پر عدالت میں بھی سوال اٹھائے گئے۔
ان تبادلوں کے بعد آہستہ آہستہ کراچی کے حالات ایک بار پھر بگڑنا شروع ہوگئے۔ اب ہم دوبارہ اسی نہج پر آچکے ہیں، روزانہ کی ہلاکتیں عام بات ہے، خوف و دہشت گردی کا راج ہے۔ یہ شہر جو کبھی پرامن تھا، ہر شہری کو گھومنے پھرنے اور مسجد جانے کی آزادی تھی، آزادانہ اپنا کاروبار کرسکتا تھا، کوئی امیر و غریب، فرقہ بندی کا جھگڑا نہ تھا، پھر کراچی میں وقت گزرنے کے ساتھ معاشی مسائل نے جنم لیا، مگر اب ایک دوسرے کے مسلمان ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
ضرب عضب سے پیدا ہونے والی دشمنیوں نے بے شمار انمول زندگیوں کے چراغ گل کردیے۔ کراچی لہو لہو ہے، یہاں کے رہنے والے ارباب اختیار سے سوال کرتے ہیں، آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟ وہ کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کرتے رہیں گے؟ عوام کے ان سوالات کا جواب دینے والوںکے پاس کچھ اقدامات پر زور بیانات اور انکوائری کمیٹی کا اعلان کرکے قوم کو تسلی و دلاسہ کب تک ان کو بری الذمہ کرے گا۔
آخر اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کا وقت کب آئے گا؟ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اقتدار بھی ان ہی کے پاس رہتا ہے جو تدبر سے کام لے کر مسائل حل کرتے ہیں۔ محاذ آرائی اور مسلسل محاذآرائی سے سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ عرصہ دراز سے سیاسی پارٹیاں آپسی دشمنی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں، اس سے ان کو خیالی فتح تو حاصل ہوسکتی ہے، لیکن حقیقی فتح کبھی نہیں مل سکتی۔ دہشت کا کھیل کئی سال سے جاری ہے، آج بھی کھیلا جارہا ہے مگر کسی شہر کو کب تک بندوق کے زور پر کوئی یرغمال بناسکتا ہے۔ مجھے امید ہے، اس شہر کو یرغمال بنانے والے ایک دن ضرور ہار جائیں گے۔ مگر کیا اہل کراچی رمضان میں ہونے والے اس شام غریباں کو اپنی یادداشت سے محو کرسکیں گے؟ کبھی نہیں۔