انتظار رحمت
پانامہ لیکس کا ہنگامہ ، پھر حکمرانوں کے دل کا علاج، لگتا ہے دونوں لازم ملزوم ہوگئے ہیں۔
لاہور:
پانامہ لیکس کا ہنگامہ ، پھر حکمرانوں کے دل کا علاج، لگتا ہے دونوں لازم ملزوم ہوگئے ہیں۔ پانامہ لیکس کا سچ اپنی جگہ مگر حکمرانوں کے دل کا علاج معمہ بنا ہوا ہے۔ اس پر مجھے ایکشخص کی کہانی یاد آئی، وہ شخص فٹ پاتھ کا رہنے والا تھا، نہ خاندان نہ ذات، امیر بننے کا شوق چڑھ گیا، پھر تو دھوکا بازی کا ہونا شرط ہوگیا، وہ شخص ادھر ادھر خواتین سے رشتے ناطے بناتا پھرتا، پھر آدھی رات کو گنجا ہوکر آجاتا اور صبح سے لوگوں کی مبارکبادیں وصول کرتا کہ وہ عمرہ کرکے آیا ہے۔ آج کل رمضان کریم ہے، اس لیے مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ افطاری سے پہلے سبزی فروش اور فروٹ بیچنے والوں کی بلے بلے ہے اور کوئی پوچھتا تک نہیں۔ یہ پاکستان ہے میری جان۔
بہرحال پانامہ لیکس کا بم اپنے اثرات رکھتا ہے، اب یہ اثرات ظاہر کب ہوں گے اور نتیجہ کیا نکلے گا اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ انجام کا یا دھول مٹی پڑنے کا۔ بے انتہا مایوسی ہر طرف چھائی ہوئی ہے، کرپشن اور غلاظت اپنی جڑیں جماتے ہی جا رہے ہیں۔ نیک لوگوں کے بھیس میں منحوس کردار کے لوگ ہر وقت ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ دھڑا دھڑ آپریشن بھی ہورہے ہیں۔ شہر کراچی میں کرائم ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے۔
پیسے کی ہوس نے مرد اور عورت دونوں کا خانہ خراب کیا ہوا ہے، اور دونوں ہی دل و جان سے اپنا اور دوسروں کا بیڑا غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمارا قبلہ کب درست سمت میں ہوگا۔ بے انتہا کرپشن کے الزامات کے ساتھ موجودہ حکومت رواں دواں ہے اور وزرا کے سخت بیانات بھی رواں دواں ہیں۔ گویا پانچ سال نہ ہوئے اﷲ کا عذاب ہوگئے، جو پورے ہی ہونے ہیں۔ لگتا ہے جیسے جیسے تعلیم بڑھتی جارہی ہے شاید بے حسی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ لوٹ مار میں بھی کسی طور کمی نہیں ہو رہی۔
اﷲ کرے کہحکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کی بیماریوں کا بھی علاج ہوجائے، کوئی واقعی اﷲ کی رحمت ہوجائے، امید اور ناامیدی میں بس تھوڑا سا ہی فرق ہے۔ ہم جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں، حال احوال کے بعد اکثر تمام گفتگو مایوسی کی ہی ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے وحشیوں کے جنگل میں تمام کے تمام ہی لمبے لمبے دانت نکالے ایک دوسرے کو نگلنے کو تیار ہیں۔ نہ پڑوسیوں کو ایک دوسرے کی خبر، نہ رشتے داروں کو رشتوں کا پاس، کہ ایک ہی طرح کی ہوا میں بدمست چلے جا رہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ۔ پتا نہیں پاکستان کے ساتھ کون ہے؟
لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا نے ہمیں بہت باشعور بنا دیا ہے، میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا لمحہ لمحہ بریکنگ نیوز کے جھٹکے دے دے کر سب کو شعور دے رہا ہے، جب الیکٹرانک میڈیا کا بوم نہیں تھا تب اگر کسی گاڑی کی ٹکر سے کوئی زخمی بھی ہوجاتا تھا تو لوگ بھاگم بھاگ مدد کے لیے دوڑے چلے آتے تھے، اب شعور کی آگاہی ہے کہ انسان سامنے مر رہا ہوتا ہے اور کوئی رکنے کو تیار نہیں، بلکہ جلد ازجلد وہاں سے جانے کی جلدی کرتا ہے۔ یہ کیسی آگاہی ہے، یہ کیسا شعور ہے، جو میڈیا دے رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک دھماکے دار خبریں میڈیا دیتا ہی رہتا ہے۔ بڑی ہلچل ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ ان سب پہ مٹی پڑنے لگتی ہے۔ بڑے بڑے جرائم میں ملوث افراد، بڑی بڑی سازشوں میں اور گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد، ان کی شکلیں، ان کے کردار سب میڈیا عیاں کر رہا ہے مگر انصاف کرنے والے، معاشرے کو بنانے والے گہری نیند سو رہے ہیں۔ مفادات کی جنگ میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے اور اس لاحاصل جنگ میں درندگی و حیوانیت ہی زیادہ بھی پھیلے گی۔
رمضان کریم میں ماشا اللہ عمرہ پر جانے والوں کی بہت بڑی تعداد ہوتی جا رہی ہے،حکمرانوں سے لے کر وزرا تک اور بہت سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی شخصیات بارگاہ الٰہی میں اور روضہ رسولؐ میں حاضری کے لیے بے قرار روانہ ہوتے ہیں، بس سمجھ سے باہر ہے کہ یہ لوگ اپنے تئیں کیا اللہ اور رسول کو بھی دھوکا دیتے ہیں؟ کیا یہ بہت بھولے ہیں ؟ بے شک دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے، ہزاروں، لاکھوں لوگ گمراہی، دھوکا بازی پر چل پڑتے ہیں، ذمے دار کون؟ ہم ہرگز معاشرے کو ذمے دار نہیں ٹھہراسکتے کہ ذمے دار وہی لوگ ہوتے ہیں جو مسند پر بٹھائے جاتے ہیں اور جواب بھی انھی لوگوں کو دینا ہوگا۔
ہر عہدے کی ایک عزت ہے، ایک مقام ہے، سمجھنے اور اس کو نبھانے کی کوشش کریں، پوری دنیا میں ترقی کی رفتار بہت تیز ہوتی جا رہی ہے، علم و ہنر کے دائرہ کار بھی بڑھتے جا رہے ہیں، مگر ہم دن بہ دن پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ سب سے اہم وجہ ہی یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی ذمے داری دیانتداری سے نبھانے کو تیار نہیں، ان سب میں سب اہم ہے، حکومت اور پارلیمنٹ کے ممبرز اور ان کی کوتاہیاں قابل معافی بھی نہیں ہونی چاہئیں۔
پانامہ لیکس کوئی بہت پرانی بات نہیں مگر جس طرح اس پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے وزیراعظم اور ان کی فیملی کے نام آنے پر جس طرح پاکستان سے دور رہ کر دوسری تیسری چیزوں میں دماغوں کو ڈالا جا رہا ہے، ڈرامہ در ڈرامہ ہی نظر آرہا ہے، دیکھیے کہ آگے ہوتا کیا ہے۔
آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کی اسٹرٹیجی اب کس طرح جائے گی کہ ڈاکٹر عاصم کی دوسری ویڈیو جاری کی گئی ہے، ایان علی کو باہر نہیں جانے دیا جا رہا ہے، خورشید شاہ کے بیانات، ایم کیو ایم کی اپنی مشکلات، عمران خان کی تحریک انصاف اور موجودہ حکومت، کس کس طرف کھڑی ہیں اور کیا کیا کرنا چاہتی ہیں اور عوام کا رجحان کس طرف زیادہ ہے، اس کشمکش میں عوام بھی الجھے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عوام کی خواہشات کے برعکس معاملات نظر آرہے ہیں۔آصف زرداری کی سیاست آج کل باہر ممالک سے ہورہی ہے کہ وہ اپنے طرح دار بیانات کی وجہ سے اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے تھے، مگر ہوا یہ ہے کہ ان بیانات کے بعد سے ہی بیرون ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ بلاول بھٹو کو جو اشارہ دیا جاتا ہے وہ بیان داغ دیتے ہیں، زیرک سیاستدان انھیں بچہ سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں اور کبھی تربیت حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
رمضان کریم کچھ اسی طرح گرم سرد گزرنے کا امکان ہے اور خیال ہے کہ بعد عید کوئی سخت قسم کی ہلچل متوقع ہے، کہتے ہیں کہ کچھ جانور زلزلے آنے سے پہلے زمین کو سونگھ کر اس جگہ سے دور ہوجاتے ہیں اور خدا کی پناہ، جب اللہ کی طرف سے ناگہانی آتی ہے تو کوئی نہ روک سکتا ہے اور نہ اس سے بچ سکتا ہے۔ بڑے بڑے فرعون عبرت کا نشان بن جاتے ہیں، بڑے بڑے سخت پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں، صحرا میں بہار آسکتی ہے، پانی کی ندیاں بہہ سکتی ہیں، آبشار اور جھرنے اللہ کے حکم سے نمودار ہوجاتے ہیں، بارش کی رحمت برسنے لگتی ہے، جن کو اللہ غرق کرنا چاہتا ہے وہ غرق ہوکر ہی رہے گا، بس ایک وقت مقرر ہے اور وہ پورا ہوکر رہتا ہے پھر اللہ کا قانون اور انصاف ہی باقی رہتا ہے۔