اسرائیلی جارحیت کی مذمت

ایم کیو ایم نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہی ان کے قائد کی تعلیمات ہیں ۔


Khalidah Ateeb November 24, 2012

غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی بمباری سے معصوم فلسطینی بچے،عورتیں،جوان اوربوڑھے شہید ہو گئے۔

اسرائیلی جارحیت فلسطینی علاقوں میں بڑھتی جارہی ہے، مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پرشرمناک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ حتیٰ کہ او آئی سی نے بھی کوئی اجلاس بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور جو اجلاس ہوئے بھی، وہ نمائشی تھے کیونکہ ان اجلاسوں میں کسی بھی قسم کی مذمت اورکارروائی یا احتجاج نہیں کیا گیا۔یقینا بحیثیت مسلمان اور انسان یہ ہم سب کا فرض ہے کہ حکومت وقت پر زور دیں کہ وہ اس کی نہ صرف بھرپور مذمت کرے بلکہ منظم انداز میں اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کرائے۔

اسرائیل کا برسہا برس سے فلسطین پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ معصوم اور بے گناہ شہری عرصہ دراز سے ا س کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری بان کی مون ، وزیر اعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون، نیٹو ممالک اور ویٹو پاور رکھنے والے تمام ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز احتجاج بلندکریں۔ اسی طرح تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی اس حساس معاملے پر اپنا فرض ادا کریں اوراپنی خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کریں۔ یقینا مصلحت کے خول کو اتارکر میدان عمل میں آکر اسرائیلی شرمناک عمل کی مذمت اور احتجاج ہم سب کا فرض ہے۔

اس حساس نوعیت کے مسئلے پر ایم کیو ایم نے اسلام آباد میں ایک کانفرنس بعنوان ''اسرائیلی جارحیت کو روکنا اقوام عالم کی ذمے داری'' منعقد کرائی۔اس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، مشائخ عظام اورمفتیان دین کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، دانشوروں ،اینکر پرسنز، صحافتی تنظیموں، مختلف این جی اوز کے نمایندوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور شرکت کی اور اپنا اپنا مطمع نظر بھرپورانداز میں پیش کیا۔اس کانفرنس سے ایم کیو ایم کے قائد نے بھی ٹیلی فونک خطاب کیا اور واشگاف الفاظ میں اس شرمناک جارحیت کی مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ میں ہمیشہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتا رہوں گا۔

انھوں نے کہا جب میں نے ٹی وی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی لاشیں دیکھیں تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے یہ کانفرنس بلائی۔ اب اس کی پاداش میں چاہے مجھے ظلم کو ظلم کہنے کی کچھ بھی سزا ملے، مجھے منظور ہے، مگر میں مصلحت کوشی سے کام نہیں لے سکتا۔ انھوں نے کہا کہ سچ کہنے کی پاداش میں اگر مجھے قتل بھی کردیاجائے تو میں خوشی سے اپنی موت قبول کر لوں گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والدین نے ہمیشہ سچ بولنے کی ترغیب دی اور یہ تلقین کی کہ اگر حق و باطل میں کسی ایک کا ساتھ دینے کا مسئلہ آجائے تو یہ مت دیکھنا کہ کون کتنی تعداد میں ہے بلکہ یہ دیکھنا کہ کون حق پر ہے۔ اس کانفرنس میں مختلف افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ۔ اس موقعے پر فاروق ستار نے ایک مذمتی قرارداد بھی پیش کی جو کہ اکثریتی رائے سے منظور کر لی گئی۔ تمام شرکاء نے مشترکہ طور پر اجلاس سے خطاب میں ایم کیو ایم کے قائد کے اس کانفرنس کے منعقد کرنے کے عمل کو بھرپور انداز میں سراہا اور اس حساس اور اہم ترین مسئلے کی نشاندہی اور اس کے خلاف احتجاج کرنے پر ایم کیو ایم کے قائد کی ستائش کی۔

ایم کیو ایم نے ہمیشہ کی طر ح ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور پھر ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہی ان کے قائد کی تعلیمات ہیں۔ اس وقت پاکستان سمیت تمام امت مسلمہ کو اس بربریت پر آواز اٹھانا ہوگی اور اسرائیلی حملے میں شہید و زخمی ہونے والے معصوم فلسطینیوں سے بھرپور ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرنا ہوگا۔ اسرائیل کے حملے فلسطین پر جاری ہیں۔ پانچ روز میں شہید ہونے والوں کی تعداد 65سے تجاوز کر گئی ہے۔ سیکڑوں کی تعداد زخمیوں کی ہے۔ غزہ کے اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اگر اس سلسلے کو فوری نہ روکا گیا تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے منہ پر طمانچہ ہوگا۔ اقوام عالم کو اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے اسرائیل کو فوری اس عمل سے رکنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ شہری علاقوں پر بمباری جنگی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنانا انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے جس پر ساری دنیا کو اسرائیل کی مذمت اور اس پر احتجاج بلکہ عالمی سطح پر اس کو اس عمل سے باز رکھاجائے کیونکہ ظلم کو ظلم نہ کہنا او راس پر خاموشی اختیار کرنا بھی ظالم کا ساتھ دینا ہے بقول پروین شاکر:

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

سو ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان ہم ظالم کے ساتھ ہیں جو طاقت ور ہے یا مظلوم کے ساتھ جو کمزور ہے؟ یقینا ہمارا فیصلہ تاریخ کے صفحات کا حصہ بنے گا۔ اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ القدس بریگیڈ کے رہنما رافر حرب بھی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں۔ اسلام کو دہشت گردی کی علامت کے طور پر پیش کرنیوالے اس سفاکانہ جارحیت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے قتل عام پر خصوصاً بچوں اور عورتو کو نشانہ بنانے پر اُنہوں نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔

سیکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔خدارا اپنے فرض کو محسوس کرتے ہوئے انسانیت کے ناتے یہ سلسلہ بند کرائیں اوراسرائیل کو حملے روکنے کا پابند بنائیں۔ اسرائیل نے اس آپریشن کو آپریشن پلر آ ف ڈیفنس کا نام دے رکھا ہے۔ یقینا اقوام متحدہ اورG-8 ممالک مل کر اگر اسرائیل کو اس آپریشن سے رک جانے کاکہیں گے تو شاید فلسطینیوں کے دکھ کا کچھ مداوا ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں