برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی

ریفرنڈم کے نتائج کو 28 رکنی یورپی تنظیم کے قیام کے بعد سے اس کے لیے سخت دھچکا قرار دیا جا رہا ہے


Editorial June 25, 2016
دنیا میں بڑھتی ہوئی کساد بازاری، دہشت گردی اور خانہ جنگی نے دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فوٹو: فائل

برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نکل جانے کے سوال پر ہونے والے تاریخی ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی صرف دو فیصد اکثریت نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیا جس کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ جمعرات کو ہونے والے اس ریفرنڈم میں ووٹنگ کی شرح تقریباً بہتر فیصد رہی اور تین کروڑ سے زیادہ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ 52 فیصد نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں جب کہ48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔

اس ریفرنڈم کے نتائج کو 28 رکنی یورپی تنظیم کے قیام کے بعد سے اس کے لیے سخت دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ 43 برس کے بعد یورپی یونین کو الوداع کہنے والا پہلا ملک بن جائے گا تاہم علیحدگی کے حق میں ووٹ کا مطلب برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے۔ اس عمل میں کم از کم دو برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ یو کے انڈیپنڈنٹ پارٹی کے لیڈر نائیجل فیرار نے اسے برطانیہ کا 'یومِ آزادی' قرار دیا ہے جب کہ یونین کا حصہ رہنے کے حامی کیمپ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 'تباہ کن' ہے۔

ایک تبصرہ یہ بھی ہے کہ برطانیہ نے اندھیرے میں چھلانگ لگا دی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اکتوبر میں کنزرویٹو پارٹی کانفرنس کے آغاز کے موقع پر ملک میں ایک نیا وزیراعظم ہونا چاہیے اور یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کا عمل ایک نئے کپتان کی سربراہی میں شروع ہونا چاہیے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا اگرچہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیر رہ سکتا ہے لیکن اس موقع پر وہ علیحدگی کے حق میں نہیں تھے اس لیے وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ کے عوام کی خواہشات کا احترام کیا جانا چاہیے اور ملک کوایک مضبوط اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں برطانیہ کے آنے والے کردار پر بات کرے۔

کیمرون کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے بات چیت کے لیے اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی حکومتوں کو بھی انگلینڈ کا مکمل ساتھ دینا ہو گا تا کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔ ادھریورپی یونین کی مخالف تنظیموں نے فرانس، نیدرلینڈ اور اٹلی میں بھی ریفرنڈم کا مطالبہ کر دیا۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک باقی ماندہ27 ممالک کو متحد رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی ممکنہ علیحدگی کے باجود یورپی اتحاد قائم رہے گا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ یورپی عوام کی امیدیں برطانیہ سے مختلف ہیں۔

یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی نے یورپ کے اتحاد کے نظریے کو زک پہنچائی ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ اس اتحاد کو برقرار رکھنے کا ہے۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی بنیادی وجہ جرمنی اور برطانیہ کی محاذ آرائی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یورپی یونین کے لیے جدوجہد کا آغاز جرمنی نے کیا تھا اور پھر فرانس نے اس کا ساتھ دیا۔ یوں دیکھا جائے تو یورپی یونین دراصل جرمنی اور فرانس کا برین چائلڈ ہے۔

برطانوی قوم پرست اشرافیہ اس اتحاد میں خود کو مس فٹ سمجھتی تھی، برطانوی قوم پرست اسے برطانیہ عظمیٰ کے تصور کی نفی سمجھتے تھے۔ اس ریفرنڈم میں برطانوی قوم پرستوں نے انگریزوں کے جذبات کو ابھارا ہے اور وہ جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریفرنڈم کے نتائج جیسے ہی سامنے آئے تو عالمی مارکیٹیں تنزل کا شکار ہو گئیں۔ پاؤنڈ اسٹرلنگ کی قیمت گر گئی، ایک موقع پر اس کی قیمت میں دس فیصد کمی ہو گئی، 1985ء کے بعد سے اب تک اتنی کم نہیں ہوئی تھی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔

برطانوی معیشت جو یورپی اتحاد سے مستفید ہو رہی تھی، اب یہ فوائد ختم ہو جائیں گے، اس حوالے سے برطانیہ میں خاصی بحث بھی جاری ہے۔ برطانیہ میں افراط زر بڑھنے کا خطرہ ہے اور جائیدادوں کی قیمتیں بھی کم ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اب یہ یورپی یونین مستقبل میں کیا شکل اختیار کرتی ہے، آنے والے وقت میں اس کا پتہ چل جائے گا لیکن یہ آثار واضح ہیں کہ برطانیہ اور یورپی یونین شاید مختلف راستوں کے مسافر بن جائیں۔ جرمنی اور فرانس یورپی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔

ممکن ہے اکتوبر میں منتخب ہونے والا برطانیہ کا نیا قائد اس معاملے پر کوئی مربوط پالیسی اختیار کر سکے۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی کساد بازاری، دہشت گردی اور خانہ جنگی نے دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دولت کا ارتکاز چند خوشحال ممالک میں ہو گیا ہے۔ یورپ کی جانب مہاجرین کی یلغار ہے۔ مہاجرین کی یہی یلغار یورپی یونین کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ آنے والے وقت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اس حوالے سے پاکستان کو ان تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔