جنرل راحیل کا بیان اور پراکسی وار کا فتنہ

پراکسی وارproxy war نے دو عالمی جنگوں کے بطن سے جنم لیا مگر اس کی تاریخ قدیم ہے


Editorial June 25, 2016
پاکستان جارحیت اور دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر چکا، دنیا اس کا اعتراف کرے۔ یہی انصاف ہے۔ فوٹو:فائل

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ مستقبل کی جنگ کے خدوخال تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں جب کہ دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشتگردی کا استعمال کر رہے ہیں مگر ہم ان کے مکروہ عزائم کو شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ جمعہ کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کر رہے تھے۔

جنرل راحیل شریف نے جرمنی اور جمہوریہ چیک کے دورے کے بعد وطن پہنچنے پر انتہائی اہم بات کی ہے۔ پراکسی وار کی عسکری اصطلاح برسوں سے استعمال ہو رہی ہے اور زمانہ قبل از تاریخ سے قوموں، قبائل اور قدیم تہذیبی جنگوں میں پراکسی وار عسکری ڈاکٹرائن کا غیر مرئی جز تھا مگر جنگ عظیم اول و دوم اور اس کے بعد جدید جنگی اسلحہ اور ہولناک ہتھیاروں کی ایجادات سے دنیا ایک میزائل بردار عسکری تہذیب کا فلیش پوائنٹ بن گئی ہے جسے امن کی ضرورت بھی ہے اور اسی امن کے قیام اور استحکام کے لیے ریاستی مشینری روایتی ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہوتے اب ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگ رہے ہیں۔

اس صورتحال کو جنگی حکمت عملی اور پراکسی وار نے دو آتشہ بنا دیا ہے، جنرل راحیل نے پراکسی وار کا بر وقت ذکر کیا ہے اور وسیع عسکری تناظر اور خطے کو درپیش ہمہ جہتی خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس 'نیوسینس' کو اجاگر کیا ہے۔ اس وقت پاکستان داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے، اس کے دوست نما دشمنوں کے مذموم خفیہ جنگی عزائم آشکارا ہیں، پاک فوج کو ان کا ادراک ہے۔

پراکسی وارproxy war نے دو عالمی جنگوں کے بطن سے جنم لیا، مگر اس کی تاریخ قدیم ہے، قوموں، اور قبائل کی قدیم جنگوں سے لے کر عہد حاضر کی جدید جنگوں اور جنگی اسلحہ کی تیاریوں میں پراکسی وار کا فتنہ سر اٹھاتا رہا ہے، یہ وار وہ امن دشمن حامی لڑتے ہیں جو دو متحارب اور حریف ملکوں کی براہ راست جنگ سے پہلو تہی کے دوران مفادات و دشمنی کی پوائنٹ اسکورنگ کی خاطر کرائے کے گوریلے بن کر خطے کا امن برباد کرنے میں جارح ملکوں کے جنگی گماشتوں کا کردار ادا کرتے ہیں، دیکھ لیجیے مشرق وسطیٰ پراکسی وار کا جہنم کدہ بنا دیا گیا اس لیے بری فوج کے سربراہ کا پراکسی وار کے مذموم مقاصد اور خواہش رکھنے والی شکست خوردہ قوتوں کو دوٹوک جواب دیا گیا کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کو لقمہ تر سمجھنے کی حماقت سے باز آ جائیں۔

جنرل راحیل نے کہا کہ پاکستان دوسرے ممالک کے خلاف پراکسی وار کی مخالفت کرتا ہے اور کسی دوسرے ملک کو بھی پاکستان کے خلاف پراکسی وار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ شکست خوردہ دہشتگرد اور ان کے اندرون و بیرون ملک ہمدرد اب بد دل ہو کر آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، اس کا اندازہ ملک کے مختلف شہروں میں دہشتگردی کی مسلسل ہولناک وارداتوں سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ڈرون حملوں سے ہونے والی اندوہ ناک ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔

اس کا تسلسل آج بھی جاری ہے، دہشتگردی در اصل پراکسی وار کے عزائم سے جدا نہیں، دشمن آسان اہداف ڈھونڈتا آیا ہے، گزشتہ روز کوئٹہ کے معروف کاروباری علاقے عالمو چوک میں بم دھماکے سے بچے سمیت5 افراد جاں بحق اور خواتین و بچوں سمیت 30 زخمی ہو گئے جن میں 5 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے، تربت کے علاقے دشت سے 3 افراد کی لاشیں ملیں جنھیں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔

جمعے کی شب افغانستان کے مشرقی صوبہ کنڑ سے دہشتگردوں نے باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ناوگئی کے مختلف سرحدی علاقوں میں قائم سیکیورٹی فورسز کی پوسٹوں پر راکٹ داغے اور دیگر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس پر سیکیورٹی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں دہشتگرد واپس افغانستان فرار ہوگئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں داخلی صورتحال ہولناک ہوتی جا رہی ہے، کابل کی رٹ محدود ہو چکی ہے۔

طالبان کے شدید حملوں سے خطہ بدامنی کی زبردست لپیٹ میں آ سکتا ہے، مگر اسے پاکستان سے جنگ چھیڑنے کے لیے شاید کوئی اکسا رہا ہے یا افغان حکمرانوں کو تیزی سے تبدیل ہونے والے زمینی حقائق کا علم نہیں، صدر غنی ادراک کریں کہ عالمی گریٹ گیم میں خطے کو گھسیٹنے کی سازشوں کا انجام اچھا نہیں ہو گا، پاکستان اسے خبردار کر رہا ہے مگر افغان حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔

اسی طرح عالمی سطح پر پاکستان کو درپیش خطرات سے عالمی برادری بھی صرف نظر کیے ہوئے ہے۔ جان کیری کا پراکسی وار کے شعلوں میں گھرے ہوئے شام کی دلگداز صورتحال پر مشہور تبصرہ ہے کہ ہمیں پراکسی وار سے دلچسپی نہیں، ہم تو روسی رویہ میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ مگر پوری عالمی برادری کو اس حقیقت کا گہرا علم ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اسے آتش جنگ کو ٹھنڈا کرنے کی فرصت نہیں تاہم کوئی مانے یا نہ مانے مشرق وسطیٰ کو مرغ بسمل بنانے میں پراکسی وار تھیٹر کے درپردہ جنگی کرداروں کا بھی ہاتھ ہے۔

امریکی سابق صدر رونالڈ ریگن کا کہنا تھا کہ جنگیں اسی وقت چھیڑی جاتی ہیں جب حکومتوں کو یقین ہو جائے کہ اس میں جارحیت کی قیمت بہت کم ہو گی۔ لیکن پاکستان جارحیت اور دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر چکا، دنیا اس کا اعتراف کرے۔ یہی انصاف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔