امجد فرید صابری کا سوال

وہ اس نوجوان کے لبوں سے پھوٹنے والے لفظوں سے اپنی روحانی پیاس بجھا رہے ہیں۔


Zahida Hina June 26, 2016
[email protected]

اول و آخر فنا... باطن و ظاہر فنا... نقش کُہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا... ماں کا لاڈلا، بہنوں کا دلارا، بچوں کا پیارا، اپنے ارد گرد رہنے والوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے والا، مسکراتے ہوئے چہرے اور شیریں دہن نوجوان کی آواز دلوں کو موم کر رہی ہے۔ اس کے کلام میں موت کے معاملات کا ذکر ہے۔ اسے قبر کی تاریکی سے ڈر لگ رہا ہے اور وہ اس تاریکی اور تنہائی میں روشنی کی دعا کر رہا ہے۔ گریہ اسے بے حال کر رہا ہے اور سننے والے حال میں آ رہے ہیں، وجد کر رہے ہیں۔

وہ اس نوجوان کے لبوں سے پھوٹنے والے لفظوں سے اپنی روحانی پیاس بجھا رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کلام سناتے ہوئے اس پر رقت کیوں طاری ہے، اسے خود بھی نہیں معلوم کہ اس کا کلیجہ کیوں شق ہو رہا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ راہئی طرف عالمِ بالا ہے وہ... دنیا سے عدم کو جانے والا ہے۔ دل میں کوئی گرہ لگی ہوئی ہے، ذہن کسی سفر کی خبر دے رہا ہے۔ کوئی بیماری ہے جو اس کی طرف بڑھی چلی آتی ہے، وہ بیماری جس سے کسی کو شفا نہیں۔ وہ ذائقہ جسے چکھنے والا کوئی بھی پلٹ کر نہ آیا، کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ جنظل کی طرح کڑوا ہے یا شہد کی طرح شیریں۔

منہ میں روزہ، چہرے پر شادابی۔ اپنے پیاروں سے جانے کیا کچھ لانے کا وعدہ کر کے نکلا ہو گا۔ اس سے کون کہتا کہ مرزا دبیر سوا صدی پہلے کہہ گئے ہیں کہ وہ شہر پر آفت، وہ تلاطم، وہ شب تار، جلاد کمیں گاہ میں... دشمن درودیوار لیکن در و دیوار دشمن کیسے ہو سکتے ہیں۔ شہر کی ایک غریب بستی میں 60 گز کے گھر میں پیدا ہونے والے، بیس پچیس برس کی عمر میں انٹرنیشنل سیلے بریٹی بن جانے والے نے وہ بستی نہ چھوڑی، وہ گھر نہ چھوڑا اور جب رخصت ہوا تو 60 گز کے اسی گھر سے جہاں اس کی نال گڑی تھی۔

حضرت امیر خسرو کی دولتِ سماع اس کے باپ نے یہیں اس کے سپرد کی تھی۔ یہیں اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر قول گایا تھا۔ من کنتُ مولا علی ؑ مولا۔ یہیں دس برس کی عمر میں اس نے تان اڑائی ... دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے... ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے... ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت... جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت...

گولی گاڑی پر چلی... معصومیت دیکھیے کہ گاڑی روک کر وہ یہ پوچھنے اترا کہ بھیا میرا کیا قصور ہے... مجھے کیوں مارتے ہو... میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ انھوں نے گولیاں اس کے سر میں اور سینے میں اتار دیں۔ وہ گرا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں کلیانہ گھرانے کی سات سو برس پرانی قوالی کی روایت گری۔ امن و آشتی کا چراغ بجھا۔ اس آواز کا پرندہ اڑ گیا جو اپنے پر پھیلاتا تھا تو لوگوں کے دلوں کو موم کر دیتا تھا۔ انھیں مسلک و مذہب، رنگ و نسل کی تفریق سے اٹھا کر انس اور محبت کی بلندیوں پر لے جاتا تھا۔

نگاہ اس کی چپل پر پڑی جو گاڑی میں رہ گئی تھی۔ بے اختیار منہ سے نکلا، میاں چپل تو پہن لو کوئی کنکر نہ چبھ جائے، پھر دل پر برما چلا۔ اسے تو اب پتھروں کنکروں کے درمیان ہی رہنا ہے۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔ اسلام آباد سے محبوب ظفر کا فون آیا، وہ پُر سہ کر رہے تھے۔

کیا ہم اس قابل ہیں کہ ہم سے پُرسہ کیا جائے؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ گزرے 68 برسوں میں، ہم نے کیسے کیسے نابغہ روزگار انسانوں کو قتل کیا، صرف انھیں ہی نہیں بلکہ ہم نے بلا مبالغہ لاکھوں انسان محض اس لیے مار دیے کہ ہمیں ان کے سیاسی نظریات اور عقائد سے اختلاف تھا۔ پاکستان ہم نے یہ کہہ کر بنایا تھا ہندوستان میں مسلمانوں کی جان، مال، عزت محفوظ نہیں رہے گی لہٰذا ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام ناگزیر ضرورت ہے۔

کیا ہم نے کبھی یہ حساب لگایا ہے کہ 1947ء سے لے کر 2016ء تک ہندوستان میں کتنے ہندو مسلم فسادات ہوئے اور ان میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کیا ہے؟ میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان میں مسلمان حکومتوں، ریاستی اداروں اور خود کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے ہم مذہب مسلمانوں کو جتنی بڑی تعداد میں قتل کیا گیا ہے اس کے مقابلے میں 68 برسوں کے دوران ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں ہلاک کیے جانے والے مسلمان کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔

ہمیں اور آپ کو بار بار خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ محض یہ کہہ کر اس سوال سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ یہ ہمارے دشمنوں کی سازش ہے، کوئی مسلمان ایسا کام نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں جو کچھ ہو چکا ہے، جو ہو رہا ہے اور مشرق وسطیٰ میں قتل و غارتگری کا جو بازار گرم ہے اس کے بعد اس نوعیت کی باتیں خود فریبی کی انتہائی شکل کے سوا کچھ نہیں۔

ایک دوسرے پر الزامات لگا دینے سے اپنی ہر کوتاہی کو، دشمنوں کی سازش کہہ دینے اور خود کو ہر غلطی سے مبرا قرار دینے کے اس مسلسل رویے اور سوچ نے ہمیں اور سارے عالم اسلام کو آج جس مقام پر پہنچا دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اپنی فکر، نقطہ نظر کو برتر اور اس سے اتفاق نہ کرنے والے کو کمتر اور غلط تصور کرنا دراصل انتہا پسندی کا وہ بیچ ہے جس سے نفرت کی فصل پیدا ہوتی ہے، اسے انسانی لہو سے سینچا جاتا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔

سماج انتہا پسند نہیں ہوتے، انھیں انتہا پسند بنایا جاتا ہے۔ عوام جنونی نہیں ہوتے انھیں جنون میں مبتلا کیا جاتاہے، لوگ فرقہ پرست نہیں ہوتے ان کو فرقہ وارانہ فسادات میں چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سماج میں توازن اور اعتدال قائم ہی اس لیے ہے کہ ہمارے عوام روادار اور اعتدال پسند ہیں، نہ ہوتے تو دنیا میں آج کوئی انسان زندہ نہ ہوتا۔ سب ایک دوسرے کو مارکر ختم کر چکے ہوتے۔

اب ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ سماج اور عوام ان رجحانات سے متاثر کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب ریاست اور اس کا نظام روادار اور اعتدال پسند ہو گا تو سماج میں پہلے سے موجود یہ اقدار مزید مضبوط اور توانا ہوں گی۔ ریاست اور اس کا نظام اگر جابرانہ اور آمرانہ ہو گا، وہ اپنے مخالفین کو مار دینے اور اختلاف رائے کو کسی قیمت پر برداشت نہ کرنے کی روش اختیار کرے گا تو سماج میں بھی انتہا پسندانہ سوچ فروغ پائے گی۔

آپ مانیں یا نہ مانیں، رواداری اور اعتدال پسندی کوئی دانشوارانہ طاقت بخش دوا نہیں ہے کہ جسے لوگوں کو پلا دیا جائے۔ یہ اقدار میرے اور آپ کے چلانے، لکھنے یا واعظ دینے سے بھی مستحکم نہیں ہوتیں۔ یہ سب عوامل ضروری ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ نظام جمہوری ہو جس میں یہ اصول ناقابل تنسیخ ہو کہ کوئی فرد، ادارہ، مذہب، مسلک یا نظریہ طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض نہیں ہو گا، کوئی اختلاف رائے رکھنے والوں پر کفر کے فتوے جاری نہیں کرے گا اور کسی کی حب الوطنی پر سوا ل نہیں اٹھائے گا۔

حقوق سب کے مساوی ہوں گے، تفریق کسی بنا پر نہیں ہو گی۔ سوچ اور عقیدہ اپنا اپنا اور ریاست سب کی ہو گی۔ اس نوعیت کا جمہوری نظام، سماج اور عوام میں موجود رواداری اور اعتدال پسندی کے اقدار کو مستحکم کرتا چلا جائے گا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگ انتہا پسندی کو نفسیاتی بیماری خیال کرنے لگیں گے۔

کراچی میں امجد فرید صابری کے قتل کا سانحہ رونما ہوا، جب محبت کی دولت بانٹنے اور یہ پیغام عام کرنے والا ''نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے۔ یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے'' لحد میں اتارا جا رہا تھا تو ہم ٹیلی وژن اسکرینوں پر یہ دیکھ رہے تھے کہ ہمارے معزز سیاسی رہنماؤں کی ایک بہت بڑی تعداد کف در دہن تھی، سیاسی محاذ آرائی کو اپنے عروج پر پہنچا رہی تھی حکومت کو نکال باہر کرنے کے لیے سڑکوں پر جنگ کرنے کا اعلان کر رہی تھی، اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی کہ موجودہ حکومت جمہوری عمل کی پیداوار ہے، سب کو ایک ساتھ فارغ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔

کوئی سیاسی رہنما مزید ڈیڑھ سال گزارنے پر آمادہ نہیں تھا۔ کوئی عوام کو یہ حق نہیں دینا چاہتا تھا کہ سیاستدانوں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ عوام خود کریں۔ امجد فرید صابری کو زمین کی آغوش میں سلاتے ہوئے اس کے ہم نوا، وہ قوالی پڑھ رہے تھے جو اس نے سحری کے وقت پڑھی تھی اور روزے کی حالت میں اسی روز افطار سے پہلے شہید کر دیا گیا تھا۔ عین اس وقت ہمارے سیاست دان رواداری اور اعتدال پسندی کا پیغام دینے کے بجائے عوام میں سیاسی انتہا پسندی پیدا کرنے کے لیے اپنی خطابت کے ترکش کے زہر آلود تیر استعمال کر رہے تھے۔

جو رہنما، عوام کے غم میں غلطاں تھے وہ انھیں عید کے بعد سڑکوں پر لانے کے عزم کا اعلان فرما رہے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی اس جنازے میں شریک نہیں تھا جس میں ہر رنگ، نسل، مسلک، زبان اور قومیت رکھنے والے سوگوار پاکستانی شامل تھے۔ عوام کے غم میں شریک نہ ہوں اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کو اپنا ساتھ دینے کے لیے کہیں؟ یہ کتنا بڑا تضاد ہے! کیا اس طرح کے رویوں سے انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے؟ امجد صابری نے کار سے اتر کر صرف قاتلوں سے ہی نہیں بلکہ ہم سب سے یہ سوال پوچھا تھا ۔ 'بتاؤ میرا قصور کیا ہے؟'

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں