کامیابی ہجرت کے بغیر ممکن نہیں

انسان کی زندگی میں اکثر ایسے لمحات آتے ہیں جب اس کا رزق تنگ ہو جاتا ہے


Jawed Chowhdray June 26, 2016
www.facebook.com/javed.chaudhry

''میرے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، میں مایوسی کی انتہا کو چھو رہا ہوں'' اس کی آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی، میں نے ٹشو پیپرز کا ڈبہ اس کے سامنے رکھ دیا، اس نے دو پیپرز کھینچے اور آنکھوں پر رکھ کر رونے لگا۔

انسان کی زندگی میں اکثر ایسے لمحات آتے ہیں جب اس کا رزق تنگ ہو جاتا ہے، اس کے تمام عزیز، رشتے دار اور دوست اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور زندگی کی خوشیاں پتوں کی طرح ایک ایک کر کے جھڑ جاتی ہیں اور وہ خود کو مکمل طور پر ہوپ لیس محسوس کرتا ہے۔ یہ ''میک اینڈ بریک'' کا لمحہ ہوتا ہے اور اس لمحے میں زیادہ تر لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں، دنیا میں ہر سال 21 لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں اور یہ 21 لاکھ لوگ مرنے سے قبل اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہوتے ہیں، یہ نوجوان بھی اس وقت اسی قسم کی صورتحال سے گزر رہا تھا اور میں چپ چاپ اس کی گفتگو سن رہا تھا۔

اس کا کہنا تھا دس برسوں میں اس کا سارا کاروبار تباہ ہو گیا، اس نے نوکری کے لیے کوشش کی مگر نوکری نہیں ملی، بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی، بھائیوں نے اپنے دروازے بند کر دیے، والدین انتقال کر گئے، دوست ساتھ چھوڑ گئے، قرض داروں نے اس کی زندگی عذاب کر دی اور وہ خود دمے کا مریض ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا زندگی اس کے لیے موت سے بدتر ہو چکی ہے چنانچہ اس نے اب مرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

میں نے پوچھا ''پھر تم میرے پاس کیوں آئے ہو'' اس نے بتایا وہ مرنے سے پہلے کسی کو اپنی کہانی سنانا چاہتا تھا، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد اس سے پوچھا ''کیا تم نے تاریخ پڑھی ہے'' اس نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ میں نے پوچھا ''کیا تم نے انبیائے کرام کا احوال پڑھاتھا'' اس نے ہاں میں سر ہلا دیا، میں نے پوچھا ''تم نے اس احوال سے کیا سیکھا'' وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا اور ذرا سا سوچ کر بولا ''کچھ خاص نہیں'' میں نے عرض کیا ''دنیا کے تمام نبی زندگی میں کسی نہ کسی مشکل وقت سے گزرے تھے، اس مشکل وقت میں دکاندار انھیں سودا نہیں دیتے تھے، گاؤں اور بستی کے لوگوںنے ان کا حقہ پانی بند کر دیا تھا، وہ کنوئیں سے پانی تک نہیں لے سکتے تھے اور ان کے سنگی ساتھی، عزیز رشتے دار حتیٰ کہ والدین تک نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، اس مشکل وقت میں انبیائے کرام نے کیا کیا؟''

میں خاموش ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا، اس نے تھوڑی دیر سوچا، انکار میں سر ہلایا اور آہستہ سے بولا ''آئی ڈونٹ نو'' میں نے مسکرا کر سر ہلایا اور نرم آواز میں جواب دیا ''ہجرت، انبیائے کرام نے اس مشکل وقت میں ہجرت کی تھی، وہ ایک بستی سے نکل کر دوسری بستی میں چلے گئے تھے اور اس ہجرت نے ان پر اللہ کے کرم کے سارے راستے کھول دیے تھے''۔

وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا، میں نے عرض کیا ''سکون، آرام، خوشیوں، کامیابیوں، کاروبار، دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں اور رزق کا ایک کوٹہ ہوتا ہے، یہ کوٹہ مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر ہوتا ہے، آپ جب کسی ایک جگہ مقیم ہوتے ہیں تو یہ کوٹہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے، آپ اس جگہ موجود اپنے حصے کا رزق کھا جاتے ہیں، آپ اپنے حصے کا سکون، آرام، خوشی، آسائش، کامیابی، کاروبار اور دوستی کنزیوم کر چکے ہوتے ہیں جس کے بعد آپ بے روزگاری، معاشی بدحالی، ناکامی، غم ، پریشانی، بے آرامی اور بے سکونی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آپ اس کو اپنی بد نصیبی سمجھنے لگتے ہیں، آپ کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ جس جگہ پر موجود ہیں وہاں آپ کے حصے کا کوٹہ ختم ہو چکا ہے اور اب آپ جب تک خوشیوں کا نیا کھیت تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کے مقدر کے دروازے نہیں کھلیں گے''۔

وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ میں نے عرض کیا ''تم نے جانوروں اور پرندوں کو دیکھا ، یہ کیا کرتے ہیں؟ جب ایک چراگاہ ختم ہو جاتی ہے، جب ایک کھیت اجڑ جاتا ہے، جب کسی ایک چشمے کا پانی سوکھ جاتا ہے، جب کسی ایک جگہ سختی، مشکل یا قحط آتا ہے اور جب کسی ایک جگہ موسم میں شدت آتی ہے تو پرندے اور جانور کیا کرتے ہیں؟ یہ آگے کی طرف چل پڑتے ہیں۔ سائبیریا کے پرندے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یورپ، فلپائن اور آسٹریلیا کے ساحلوں پر اتر آتے ہیں، منگولیا کی ہرنیں پولینڈ پہنچ جاتی ہیں اور آسام کے شیر مظفر آباد آ جاتے ہیں۔۔کیوں؟ کیونکہ یہ زمینی حقائق کو انسانوں سے زیادہ سمجھتے ہیں چنانچہ یہ سختی کے زمانوں میں اپنا دیس بدل لیتے ہیں، یہ نئی چراگاہیں اور نئے جنگل تلاش کر لیتے ہیں اور یوں مسرتوں کے نئے خزانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

اس دوران جب ان کے آبائی دیسوں کے حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں، وہاں برفیں پگھل جاتی ہیں، قحط ختم ہو جاتے ہیں یا بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں تو یہ واپس اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور یوں ان کی زندگی بھی قائم رہتی ہے اور ان پر خوشیوں اور مسرتوں کا سلسلہ بھی کھلا رہتا ہے'' وہ خاموشی سے سنتا رہا، میں نے عرض کیا ''دنیا میں دو قسم کے فلسفے ہیں، ایک ہنس کا فلسفہ ہے اور دوسرا مرغابی کا زاویہ نظر۔ دنیا میں جب کوئی جوہڑ، تالاب یا ندی سوکھتی ہے تو مرغابی فوراً نقل مکانی کر جاتی ہے جب کہ ہنس اس سوکھی ندی۔

اس تالاب اور اس جوہڑ کے کنارے بیٹھا رہتا ہے، وہ کنارے پر بیٹھے بیٹھے بھوکا پیاسا مر جاتا ہے اور تمہارا مسئلہ یہ ہے! تم ہنس کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہو، اس شہر میں تمہارے حصے کا رزق، خوشیاں، مسرتیں اور کامیابیاں ختم ہو چکی ہیں لیکن تم یہ جوہڑ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو چنانچہ تم ہنس کی طرح آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہے ہو، اگر تم نے قدرت کے اتنے واضح سگنل کو نہ سمجھا تو تمہارا حشر ہنس جیسا ہو گا، تم بھی کسی خشک چٹان پر مرے ہوئے پائے جاؤ گے''۔

وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا، میں نے عرض کیا ''تم نے اکثر ایسے لوگوں کی کہانیاں سنی ہوں گی جو حالات کے جبر کی وجہ سے خالی جیب کسی اجنبی ملک میں اتر گئے اور اس پورے ملک، اس پورے شہر میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں تھا، وہ اس شہر کی زبان سے بھی واقف نہیں تھے لیکن پھر چند برس بعد وہ اس شہر کے رئیس ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے، اس شہر میں ان کے پاس بڑے بڑے فارم ہاؤسز، بڑے بڑے کارخانے، بڑے بڑے دفتر اوربڑے بڑے پلازے تھے۔

یہ لوگ ذاتی جہازوں کے مالک بنے اور دنیا بھر کی خوشیوں کے دروازے ان پر کھل گئے، کیسے؟ تم نے کبھی سوچا؟'' میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھنے لگا، وہ چپ چاپ میری طرف دیکھتا رہا، میں نے عرض کیا ''کیونکہ یہ لوگ مرغابی کی طرح کامیابی، خوشی اور رزق کے نئے سمندر کے کنارے جا بیٹھے تھے، انھوں نے ہجرت کی اور اللہ نے انھیں رزق کے نئے بینک کے سامنے اتار دیا'' میں نے عرض کیا ''تم حالات کے جس جبر کاشکوہ کر رہے ہو، تم جسے مایوسی اور بدنصیبی سمجھ رہے ہو وہ دراصل خوشیوں اور کامیابیوں کا نیا راستہ ہے، یہ قدرت کی طرف سے تبدیلی کے سگنلز ہیں مگر تم ہنس بن کر قدرت کے ان سگنلز کو سمجھنے سے انکاری ہو۔

تم یقین کرو تم ان سگنلز کو انڈرسٹینڈ کرنے میں جتنی تاخیر کرو گے تمہاری فرسٹریشن اور ڈپریشن میں اتنا ہی اضافہ ہو گا، تم اپنے مقدر کے اجڑے ہوئے کھیتوں میں رزق تلاش کر رہے ہو مگر یہاں سے تمہیں کچھ نہیںملے گا چنانچہ جتنی جلدی ہو سکے تم ہجرت کرو تا کہ تم پر مقدر کے نئے دروازے کھل جائیں'' وہ خاموش ہو کر سنتا رہا، میں نے عرض کیا ''تم یقین کرو اگر خود کشی کا ارادہ کرنے والا ہر شخص موت سے پہلے ہجرت کر جائے تو اس کے سارے حالات بدل جائیں، وہ اپنے وقت کا رئیس ترین شخص ہو کیونکہ کامیابی ہجرت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ دنیا میں تو اللہ کے پیغمبرؐ بھی مکہ فتح کرنے کے لیے پہلے مدینہ جاتے ہیں اور تم اپنے شہر میں رہ کر کامیابی بھی چاہتے ہو اوررزق کی کشادگی بھی۔ تم سے بڑا بے وقوف کون ہے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں