چھوٹے میاں صاحب سے کچھ باتیں
بالخصوص چھوٹے میاں صاحب سے ان کی دوستی زیادہ گہری اور پکی ہے کہ جب بھی خالد بھائی پاکستان آتے ہیں
خالد شاہین بٹ جو آرمی سے اپنے سابقہ تعلق کی وجہ سے قریبی احباب کے حلقے میں کیپٹن صاحب کے نام سے بلائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہر اعتبار سے اصلی اور وڈے کشمیری ہیں لیکن اعلیٰ، معیاری اور روایتی کشمیری کھانوں سے ان کی رغبت اپنی مثال آپ ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ کھانے سے زیادہ کھلانے کے شوقین ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات بھی کوئی تیس برس قبل اسی واسطے سے ہوئی تھی۔
ہوا یوں کہ ہم لوگ امریکا کے کسی مشاعراتی دورے پر تھے اور امریکی کھانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے دیسی ہوٹلوں کے بدمزہ اور بے مزہ کھانوں سے تنگ آ چکے تھے کہ کسی نے مین ہیٹن کے بیالیسویں اسٹریٹ پر واقع کشمیر ریستوران کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ وہاں گئے تو نہیں لیکن کئی دوستوں سے اس کی تعریف بہت سنی ہے۔ ایک مقامی دوست نے رہنمائی کا بیڑا اٹھایا۔
مین روڈ سے چند سیڑھیاں نیچے اتر کر ریستوران کے ہال میں داخل ہوئے تو کھانوں کی عمدہ خوشبو کے ساتھ ساتھ جس چیز نے فوری طور پر متاثر کیا وہ اس کی پاکستانی پہچان تھی جس کا یہاں مختلف طریقوں سے اظہار کیا گیا تھا جب کہ امریکا اور انگلینڈ میں کاروباری مفادات کے پیش نظر بیشتر پاکستانی ہوٹلوں والے بھی اپنے نام کے ساتھ Indian Cusine لکھتے ہیں۔ ابھی ہم مینیو میں درج طرح طرح کے کھانوں کے ناموں سے ہی لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ایک میانے قد کے قدرے فربہ اندام اور وجیہہ شخص نے آ کر دعا سلام کی اور بتایا کہ وہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو پہچانتے ہیں اور اس لیے اپنے دفتر سے خاص طور پر اٹھ کر آئے ہیں کہ آپ کو بہتر سے بہتر سروس دی جا سکے۔
یہ اس ریستوران کے مالک کیپٹن خالد شاہین بٹ تھے جنہوں نے نہ صرف اس وقت ہمیں گاہک کے بجائے ذاتی مہمان کا درجہ دے دیا بلکہ آیندہ بھی زندگی بھر کے لیے یہ حقوق اپنے نام محفوظ کر لیے۔ تب سے اب تک میں کم و بیش دس بار امریکا جا چکا ہوں اور ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ خالد بھائی سے ملے بغیر واپس آیا ہوں کہ ان کی محبت اور دلنواز مسکراہٹ کوئی دوسرا راستہ چھوڑتی ہی نہیں اور اب تو یہ تعلق ایک اثاثے کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ ایسی بے لوث محبت کرنے والے لوگ قسمت ہی سے ملتے ہیں۔ میاں برادران یعنی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے ان کا بھائیوں جیسا تعلق ہے۔
بالخصوص چھوٹے میاں صاحب سے ان کی دوستی زیادہ گہری اور پکی ہے کہ جب بھی خالد بھائی پاکستان آتے ہیں ان کے گھر پر میاں شہباز شریف کی دعوت لازمی ہوتی ہے۔ جس میں خالد شاہین اپنے کچھ قریبی دوستوں کو بھی مدعو کرتے ہیں یہ محفل خالص دوستانہ، گھریلو، غیررسمی اور اس قدر بے تکلف ہوتی ہے کہ میاں شہباز شریف کے ذاتی اسٹاف تک کو یہ یقین نہیں آتا کہ یہ حقیقت ہے یا وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں کہ ایسا Relaxed' خوش باش اور دوسرے کی بات کو زیادہ سننے والا میاں شہباز شریف ان کے اب تک کے تجربے کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔
اتفاق سے گزشتہ چند برسوں میں مجھے بھی ان محفلوں میں شمولیت کا موقع ملا ہے اور میں خود بھی چھوٹے میاں صاحب کے اس روپ کو دیکھ کر بیک وقت خوش اور حیران ہوتا ہوں کہ روایتی مصاحبوں، کاسہ لیسوں اور خوشامدی فاتحتوں کے ہجوم میں مسلسل گھرے رہنے سے یہ حاکم لوگ تحمل، بردباری، برداشت اور حس مزاح سے عاری ہو جاتے ہیں اور ہر تنقید کرنے والے کو دشمن کا ایجنٹ سمجھ کر یا تو اسے جھڑک دیتے ہیں یا سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ خالد بھائی کی ان محفلوں میں وہ نہ صرف اختلاف رائے کو مسکرا کر سنتے ہیں بلکہ ایک طالب علم کی طرح کسی متعلقہ شعبے کے لوگوں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہونے والی ایک اسی طرح کی ملاقات میں کچھ احباب نے میٹرو اور اورنج ٹرین کے روٹس سے ملحق ذیلی راستوں کی زبوں حالی اور بارشوں کے موسم میں پیدا ہونے والی متوقع پریشانیوں کا کھل کر ذکر کیا اور بتایا کہ اس سے شہریوں کو کن عذابوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے شہادت کی انگلی اٹھائے اور ہلائے بغیر بڑی توجہ سے نہ صرف ساری بات سنی بلکہ ان جگہوں کی نشاندہی بھی حاصل کی جہاں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ میں نے انھیں یاد دلایا کہ گزشتہ محفل میں انھوں نے لاہور کی کوئی بڑی سڑک اور ایک انڈرپاس احمد ندیم قاسمی صاحب کے نام معنون کرنے کا وعدہ کیا تھا (جن کی ایک سو ویں سالگرہ کی تقریبات کا اہتمام پوری اردو دنیا میں کیا جا رہا ہے) اور چونکہ انھوں نے اپنی 89 سالہ زندگی کی تقریباً 65 برس لاہور میں گزارے ہیں اس لیے لاہور پر ان کا حق سب سے زیادہ ہے۔
انھوں نے نہ صرف اپنے اسٹاف کو یہ بات تاکید سے نوٹ کرائی بلکہ گفتگو کا رخ بھی شعر و ادب کی طرف مڑ گیا۔ غالب اور اقبال کے موازنے کی باتیں ہوئی اور احمد ندیم قاسمی صاحب کے فکر و فن کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ فیض صاحب اور ساحر لدھیانوی کی شاعری پر بھی بات ہوئی جس میں سب سے زیادہ حصہ خود میاں شہباز شریف نے لیا حفیظ نیازی، شعیب بن عزیز، ڈاکٹر مجاہد کامران اور میں نے ان کی توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ چونکہ اب تعلیم ایک صوبائی معاملہ بن گیا ہے اس لیے ہمیں کم از کم پنجاب کی حد تک انگلش میڈیم اداروں کی آمریت، بالادستی اور تفرقہ انگیزی کو ختم کرنا چاہیے کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے سرکاری زبان انگریزی ہونے کے باوجود آج تک اے لیول اور او لیول سسٹم کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا ضرورت اس امر کی ہے ہمارا ہر بچہ پرائمری سے ایف اے تک ایک ہی مشترکہ اور منظور شدہ نصاب کے تحت تیار کی گئی کتاب پڑھے اور کم از کم مڈل تک ذریعہ تعلیم اردو ہو اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے ایک زبان کے طور پر پڑھایا اور سکھایا جائے تا کہ آگے چل کر میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس یا آئی ٹی وغیرہ کے شعبوں میں انھیں دقت نہ ہو اور یہ کہ ہر اصطلاح کا اردو ترجمہ کرنے کے بجائے عام فہم اور مخصوص نوعیت کی انگریزی اصطلاحات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے کہ بقول شخصے آج تک دنیا میں کسی قوم نے کسی دوسری قوم کی زبان میں ترقی نہیں کی چاہے وہ کتنی ہی زیادہ ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔
انھوں نے یہ بات بھی بہت غور اور توجہ سے سنی کہ ہماری درسگاہوں کی لائبریریوں میں نصاب اور اس سے متعلق کتابوں کے علاوہ سوشل سائنسز معلومات عامہ، تاریخ جغرافیہ یا شعر و ادب کی کتابوں کا داخلہ تقریباً بند ہے۔ شاعری فکشن اور فلسفے کی کتابوں کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا جن تیزی سے کھا رہا ہے حالانکہ یہی کتابیں ہیں جو انسان کو شعور، علم اور دانش سے بہرہ ور کرتی ہیں جب کہ یہ جدید آلات ہمیں صرف معلومات یعنی Information دیتے ہیں جو اصل میں علم یعنی Knowledge کا خام مال ہوتی ہیں مگر ہم اپنی اگلی نسلوں کو آنکھیں بند کر کے اسی گمراہ کن اور تغیر پذیر رستے پر لگاتے چلے جا رہے ہیں۔
اعلیٰ اور معیاری اردو کتابوں کی دکانیں اور ناشر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ تمام تعلیمی سرکاری اور نیم سرکاری لائبریریوں کو اس بات کا حکماً پابند بنایا جانا چاہیے کہ وہ سماجی علوم سے متعلق کتابیں ایک خاص شرح کے مطابق ضرور خریدیں کہ ایسا نہ کرنے کی شکل میں ہمارا معاشرہ انسانوں کے بجائے روبوٹوں کا مسکن بن جائے گا۔ ان سب باتوں پر چھوٹے میاں صاحب نے بار بار اثبات میں سر ہلایا تو تھا اب دیکھیے کہ یہ انھیں کس حد تک یاد رہتی ہیں۔