استنبول میں دو دن
جبران حمید کے اصرار پر ہم نے بھی استنبول جانے کا پروگرام بنا لیا جہاں آج کل درجہ حرارت 25 ڈگری سنٹی گریڈ ہے
انسانوں کی طرح موسم بھی بدل گئے ہیں، کبھی اسماعیل میرٹھی نے کہا تھا کہ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
اب جولائی شروع ہو رہا ہے تب جا کر حبس آلود گرمی نے لوگوں کی مت مارنی شروع کی ہے ورنہ جون 2016ء میں تو درجہ حرارت 50 ڈگری تک چلا گیا جس نے لوگوں کا برا حال کیے رکھا تھا جب کہ ایئرکنڈیشنز کی سہولت رکھنے والوں کا بلڈ پریشر بھی Fluctuate کرتا رہتا تھا کہ جس روز بجلی کا بل آئے گا انھیں بلڈ پریشر کم رکھنے کی کتنی گولیاں کھانا پڑیں گی۔
جبران حمید کے اصرار پر ہم نے بھی استنبول جانے کا پروگرام بنا لیا جہاں آج کل درجہ حرارت 25 ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ جب ہم مزید تعلیم حاصل کرنے لاء کالج لاہور آئے تو مسافروں کے لیے میٹر لگی موٹر کیپ اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ ترقی ہوئی تو یہ دونوں غائب ہوئیں اور ان کی جگہ ویگنیں اور موٹر رکشہ آ گئے جو اپنے ساتھ سرکس کے ڈرائیور اور بے ہنگم شور لے کر آئے۔ استنبول کے لیے ٹرکش ایئرلائن کی روزانہ ڈائریکٹ فلائٹ ہے جو مسافروں کے دو دن لے لیتی ہے۔
وقت روانگی صبح سوا پانچ بجے ہے یعنی آپ رات جاگ کر تین بجے ایئرپورٹ پہنچیں اور پھر استنبول پہنچ کر دن بھر گزشتہ رات والی نیند سو کر پوری کریں۔ ویسے فلائٹ ٹائم کم نہ زیادہ چھ گھنٹے ہے۔ ترکی نے اس وقت پیلی ٹیکسی کی ایک سو کاریں لاہور میں چلانے کا کنٹریکٹ لے کر وہی میٹر والی ییلوکیپ چلانے کا کام سنبھال لیا ہے۔ جب صبح ڈھائی بجلی پیلی ٹیکسی میری ایک ٹیلیفون کال پر ہمیں ہوائی اڈے پر پہنچانے دروازے پر آ گئی تو اچھا لگا۔ بورڈنگ کارڈ ملنے تک سوا تین بج چکے تھے لیکن جہاز کی روانگی میں دو گھنٹے باقی تھے اور پھر اس سے آگے چھ گھنٹے کا ہوائی سفر تھا۔
جبران کا ایک بیڈروم کا انیسویں منزل پر اپارٹمنٹ کشادہ، آرام دہ، ہر چیز سے مزین اور روشن تھا۔ یورپین سائیڈ کی اس بائیس منزلہ عمارت کی کھڑکیوں میں سے چاروں طرف ایسی ہی سیکڑوں بلند عمارات کے ساتھ ہر ایک کے سرسبز لان، سوئمنگ پول، کاروں کی پارکنگ کی جگہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔
شام کو افطاری کے بعد گزشتہ جگراتے کی تھکن اتری تو پہلا پروگرام Kadikoy پہنچ کر باسفورس میں بحری جہاز کی سیر تھا۔ ٹکٹ لے کر داخلے کی جگہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آخری شپ چند منٹ پہلے روانہ ہو چکا ہے۔ ہم ساحل سمندر کی سیر کرتے رہے رات 9 بجے اپنی پسند کا ریستوران ڈھونڈنے چلے۔ کیدی کوئے میں سیکڑوں ریستوران ہیں۔ گلیوں میں سڑکوں کے کنارے ہر ریستوران نے میزیں کرسیاں سجا رکھی ہیں، وہاں گلیاں ہی گلیاں ہیں اور ہر ریستوران کے باہر سڑک چھوڑ کر کرسیوں کو ترتیب سے لگایا گیا ہے۔
ہر ریستوران کے باہر کھانے پینے کے شوقین مرد وزن گروپوں کی صورت خوش گپیوں میں مشغول پائے۔ نہ شور نہ ہنگامہ، نہ بدنظمی ہر کوئی اپنے ساتھیوں میں مصروف ہر کوئی خوش اور من مست۔ ہم اپنی پسند کی خوراک والا ریستوران ڈھونڈنے گلیاں گھومتے رہے۔ اس دوران اندازہ ہوا کہ ریستورانوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو گی ان میں سروس کرنے والوں نے سفید قمیضیں پہنی تھیں۔ کھانا کھانے آئے بیٹھے مہمانوں کی تعداد پانچ سات ہزار لوگوں سے کم نہ ہو گی۔ گاہکوں اور ریستوران والوں میں انتہا کا ڈسپلن تھا کوئی کسی سے ٹکرا رہا تھا نہ الجھ رہا تھا پاس سے گزرنے والا دوسرے کو رستہ دیتا تھا کوئی اونچی آواز میں بول رہا تھا نہ کوئی دوسرے کو دیکھ یا تاڑ رہا تھا۔
یوں معلوم ہوتا تھا یہ پانچ سات ہزار کا ہجوم ایک گھر کے لوگ ہیں۔ بالآخر ہم نے اپنی پسند کا ریستوران پا لیا۔ تلاش کے دوران کسی ریستوران کے ملازم نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا نہ بلایا نہ گھسیٹا۔ اب ایک ویٹر نے ہمیں ایک بڑے ٹرے میں رکھے چھوٹے برتنوں میں 32 اسٹارٹرز کے نمونے لا کر پسند پوچھی اور مینو پیش کیے۔ ریستورانز سے کچھ فاصلے پر ایک ایمبولینس دیکھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا ضلعی حکومت ممکنہ ضرورت کے پیش نظر ایک ایمبولینس اور ایک پانی کا ٹینکر روزانہ دوپہر اور رات کے وقت یہ بندوبست کرتی ہے۔ بحری جہاز کی سیر تو پہلے دن نہ ہو سکتی ہم نے کیدی کویا میں لذیذ کھانا کھایا وہ بھی باسفورس کے کنارے۔
ہم سمندر کی طرف روانہ ہوئے تو ابھی غروب ہوتے سورج کی روشنی تھی۔ سڑکوں پر بے حد ٹریفک تھی لیکن ٹریفک کنٹرول کرتی پولیس کسی جگہ نہ دیکھی کسی چوک یا موڑ پر کسی گاڑی کو سرخ ہوتی لائٹ یا سرخ ٹریفک لائٹ کی خلاف ورزی کرتے نہ دیکھا، کوئی موٹر کسی دوسری گاڑی کو اوورٹیک نہیں کر رہی تھی، کوئی پیدل رستے میں آتا تو موٹر ڈرائیور رک کر اسے رستہ دیتا تھا، سارا رستہ سڑک پر ہارن کی آواز سننے کو نہ ملی۔ سڑکیں کھلی اور صاف ستھری دیکھ کر کئی بار آنکھیں ملیں کہ ابھی ان میں نیند کا خمار تو نہیں۔ رستے میں خوبصورت اور کہیں بلند عمارتیں دیکھیں کسی کے نزدیک توڑ پھوڑ کا کچرا نہ تھا۔ سڑکوں کے دو رویہ سبز گھاس یا پھول اگے تھے کسی جگہ کھدائی یا مرمت کا ملبہ بھی نہ پایا۔ رات کھانے سے واپسی پر یقین تھا کہ تاریکی میں کون دیکھے گا۔
میاں جبران جو ابھی چار ماہ قبل پاکستان سے استنبول گیا تھا اس نے گاڑی اسٹارٹ کی تو پہلے خود سیٹ بیلٹ باندھی پھر مجھے دوبارہ بیلٹ باندھ لینے کے لیے کہا۔ اس نے تو نہ کبھی اوور ٹیکنگ کی نہ اشارہ کاٹا اور نہ ہی ہارن بجایا وہ تو خیر پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا میں نے دیکھا ہے باہر جا کر تو اپنے سب ہی مہذب ہو جاتے ہیں۔ کئی ایک نے البتہ اپنے لوگوں کو دیکھا کہ واپس آتے ہوئے ایئرپورٹ ہی پر پاکستانی ہو جاتے ہیں جب کہ کچھ نے تو نیویارک ایئرپورٹ پر اپنی ملکی ایئرلائن میں سوار ہونے والے پاکستانیوں کو ڈیوٹی افسروں سے قطار توڑنے پر گالیاں کھاتے بھی دیکھا ہے۔ یقینا یہ ماحول اور تربیت کا نتیجہ ہے۔ جس کی بنا ہم خود ہیں۔
بحری جہاز کی سیر کی غرض سے دوسرے روز ہمارے گائیڈ نے ہمیں ایک نئے تجربے سے روشناس کرانے کے لیے ایک مختلف ساحل پر لے جا کر موٹر کار کو ایک شپ میں اتار دیا کھلے جہاز میں چالیس پچاس اور کاریں بھی آ گئیں اور جہاز چل پڑا۔ ہم کار سے اتر کر کھلے آسمان تلے تیز سمندری ہوا میں گھومتے اور چائے پیتے رہے۔ یہ پون گھنٹے کا سفر تھا۔ جہاز اب ایمی نونو کے ساحل پر لنگرانداز ہوا اور کاریں باہر آنا شروع ہو گئیں۔
سامنے سپائس بازار تھا جس کے قریب ہی مشہور نیو مسجد اور سلطان احمد مسجد نظر آ رہی تھیں۔ کچھ فاصلے پر اوپن ایئراسٹیڈیم کے اسٹیج پر موسیقی کے ساتھ Whirling Darwesh محو رقص تھے۔ اسٹیڈیم شائقین سے بھرا ہوا تھا۔ پہلی بار ترکی کا مشہور قدیمی چار درویشوں کا لائیو رقص دیکھنے کو ملا۔ گانے والے کی زبان تو سمجھ نہ آئی لیکن اس کی پاٹ دار آواز سے امجد صابری قوال کی یاد آتی رہی جس کی آواز کو چند روز قبل کراچی میں درندہ صفت قاتلوں نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ میوزک شو تو چلتا رہا لیکن کانوں میں صابری کی عشق نبیؐ میں سرشار قوالیاں گونجتی رہیں۔
اس بار استنبول دو سال پہلے والے استنبول سے زیادہ خوبصورت روشن سرسبز اور زندگی سے بھر پور لگا۔ ابھی تو اس شہر کی یادگار اور تاریخی نوادرات کی دوبارہ زیارت باقی ہے۔
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
اب جولائی شروع ہو رہا ہے تب جا کر حبس آلود گرمی نے لوگوں کی مت مارنی شروع کی ہے ورنہ جون 2016ء میں تو درجہ حرارت 50 ڈگری تک چلا گیا جس نے لوگوں کا برا حال کیے رکھا تھا جب کہ ایئرکنڈیشنز کی سہولت رکھنے والوں کا بلڈ پریشر بھی Fluctuate کرتا رہتا تھا کہ جس روز بجلی کا بل آئے گا انھیں بلڈ پریشر کم رکھنے کی کتنی گولیاں کھانا پڑیں گی۔
جبران حمید کے اصرار پر ہم نے بھی استنبول جانے کا پروگرام بنا لیا جہاں آج کل درجہ حرارت 25 ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ جب ہم مزید تعلیم حاصل کرنے لاء کالج لاہور آئے تو مسافروں کے لیے میٹر لگی موٹر کیپ اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ ترقی ہوئی تو یہ دونوں غائب ہوئیں اور ان کی جگہ ویگنیں اور موٹر رکشہ آ گئے جو اپنے ساتھ سرکس کے ڈرائیور اور بے ہنگم شور لے کر آئے۔ استنبول کے لیے ٹرکش ایئرلائن کی روزانہ ڈائریکٹ فلائٹ ہے جو مسافروں کے دو دن لے لیتی ہے۔
وقت روانگی صبح سوا پانچ بجے ہے یعنی آپ رات جاگ کر تین بجے ایئرپورٹ پہنچیں اور پھر استنبول پہنچ کر دن بھر گزشتہ رات والی نیند سو کر پوری کریں۔ ویسے فلائٹ ٹائم کم نہ زیادہ چھ گھنٹے ہے۔ ترکی نے اس وقت پیلی ٹیکسی کی ایک سو کاریں لاہور میں چلانے کا کنٹریکٹ لے کر وہی میٹر والی ییلوکیپ چلانے کا کام سنبھال لیا ہے۔ جب صبح ڈھائی بجلی پیلی ٹیکسی میری ایک ٹیلیفون کال پر ہمیں ہوائی اڈے پر پہنچانے دروازے پر آ گئی تو اچھا لگا۔ بورڈنگ کارڈ ملنے تک سوا تین بج چکے تھے لیکن جہاز کی روانگی میں دو گھنٹے باقی تھے اور پھر اس سے آگے چھ گھنٹے کا ہوائی سفر تھا۔
جبران کا ایک بیڈروم کا انیسویں منزل پر اپارٹمنٹ کشادہ، آرام دہ، ہر چیز سے مزین اور روشن تھا۔ یورپین سائیڈ کی اس بائیس منزلہ عمارت کی کھڑکیوں میں سے چاروں طرف ایسی ہی سیکڑوں بلند عمارات کے ساتھ ہر ایک کے سرسبز لان، سوئمنگ پول، کاروں کی پارکنگ کی جگہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔
شام کو افطاری کے بعد گزشتہ جگراتے کی تھکن اتری تو پہلا پروگرام Kadikoy پہنچ کر باسفورس میں بحری جہاز کی سیر تھا۔ ٹکٹ لے کر داخلے کی جگہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آخری شپ چند منٹ پہلے روانہ ہو چکا ہے۔ ہم ساحل سمندر کی سیر کرتے رہے رات 9 بجے اپنی پسند کا ریستوران ڈھونڈنے چلے۔ کیدی کوئے میں سیکڑوں ریستوران ہیں۔ گلیوں میں سڑکوں کے کنارے ہر ریستوران نے میزیں کرسیاں سجا رکھی ہیں، وہاں گلیاں ہی گلیاں ہیں اور ہر ریستوران کے باہر سڑک چھوڑ کر کرسیوں کو ترتیب سے لگایا گیا ہے۔
ہر ریستوران کے باہر کھانے پینے کے شوقین مرد وزن گروپوں کی صورت خوش گپیوں میں مشغول پائے۔ نہ شور نہ ہنگامہ، نہ بدنظمی ہر کوئی اپنے ساتھیوں میں مصروف ہر کوئی خوش اور من مست۔ ہم اپنی پسند کی خوراک والا ریستوران ڈھونڈنے گلیاں گھومتے رہے۔ اس دوران اندازہ ہوا کہ ریستورانوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو گی ان میں سروس کرنے والوں نے سفید قمیضیں پہنی تھیں۔ کھانا کھانے آئے بیٹھے مہمانوں کی تعداد پانچ سات ہزار لوگوں سے کم نہ ہو گی۔ گاہکوں اور ریستوران والوں میں انتہا کا ڈسپلن تھا کوئی کسی سے ٹکرا رہا تھا نہ الجھ رہا تھا پاس سے گزرنے والا دوسرے کو رستہ دیتا تھا کوئی اونچی آواز میں بول رہا تھا نہ کوئی دوسرے کو دیکھ یا تاڑ رہا تھا۔
یوں معلوم ہوتا تھا یہ پانچ سات ہزار کا ہجوم ایک گھر کے لوگ ہیں۔ بالآخر ہم نے اپنی پسند کا ریستوران پا لیا۔ تلاش کے دوران کسی ریستوران کے ملازم نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا نہ بلایا نہ گھسیٹا۔ اب ایک ویٹر نے ہمیں ایک بڑے ٹرے میں رکھے چھوٹے برتنوں میں 32 اسٹارٹرز کے نمونے لا کر پسند پوچھی اور مینو پیش کیے۔ ریستورانز سے کچھ فاصلے پر ایک ایمبولینس دیکھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا ضلعی حکومت ممکنہ ضرورت کے پیش نظر ایک ایمبولینس اور ایک پانی کا ٹینکر روزانہ دوپہر اور رات کے وقت یہ بندوبست کرتی ہے۔ بحری جہاز کی سیر تو پہلے دن نہ ہو سکتی ہم نے کیدی کویا میں لذیذ کھانا کھایا وہ بھی باسفورس کے کنارے۔
ہم سمندر کی طرف روانہ ہوئے تو ابھی غروب ہوتے سورج کی روشنی تھی۔ سڑکوں پر بے حد ٹریفک تھی لیکن ٹریفک کنٹرول کرتی پولیس کسی جگہ نہ دیکھی کسی چوک یا موڑ پر کسی گاڑی کو سرخ ہوتی لائٹ یا سرخ ٹریفک لائٹ کی خلاف ورزی کرتے نہ دیکھا، کوئی موٹر کسی دوسری گاڑی کو اوورٹیک نہیں کر رہی تھی، کوئی پیدل رستے میں آتا تو موٹر ڈرائیور رک کر اسے رستہ دیتا تھا، سارا رستہ سڑک پر ہارن کی آواز سننے کو نہ ملی۔ سڑکیں کھلی اور صاف ستھری دیکھ کر کئی بار آنکھیں ملیں کہ ابھی ان میں نیند کا خمار تو نہیں۔ رستے میں خوبصورت اور کہیں بلند عمارتیں دیکھیں کسی کے نزدیک توڑ پھوڑ کا کچرا نہ تھا۔ سڑکوں کے دو رویہ سبز گھاس یا پھول اگے تھے کسی جگہ کھدائی یا مرمت کا ملبہ بھی نہ پایا۔ رات کھانے سے واپسی پر یقین تھا کہ تاریکی میں کون دیکھے گا۔
میاں جبران جو ابھی چار ماہ قبل پاکستان سے استنبول گیا تھا اس نے گاڑی اسٹارٹ کی تو پہلے خود سیٹ بیلٹ باندھی پھر مجھے دوبارہ بیلٹ باندھ لینے کے لیے کہا۔ اس نے تو نہ کبھی اوور ٹیکنگ کی نہ اشارہ کاٹا اور نہ ہی ہارن بجایا وہ تو خیر پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا میں نے دیکھا ہے باہر جا کر تو اپنے سب ہی مہذب ہو جاتے ہیں۔ کئی ایک نے البتہ اپنے لوگوں کو دیکھا کہ واپس آتے ہوئے ایئرپورٹ ہی پر پاکستانی ہو جاتے ہیں جب کہ کچھ نے تو نیویارک ایئرپورٹ پر اپنی ملکی ایئرلائن میں سوار ہونے والے پاکستانیوں کو ڈیوٹی افسروں سے قطار توڑنے پر گالیاں کھاتے بھی دیکھا ہے۔ یقینا یہ ماحول اور تربیت کا نتیجہ ہے۔ جس کی بنا ہم خود ہیں۔
بحری جہاز کی سیر کی غرض سے دوسرے روز ہمارے گائیڈ نے ہمیں ایک نئے تجربے سے روشناس کرانے کے لیے ایک مختلف ساحل پر لے جا کر موٹر کار کو ایک شپ میں اتار دیا کھلے جہاز میں چالیس پچاس اور کاریں بھی آ گئیں اور جہاز چل پڑا۔ ہم کار سے اتر کر کھلے آسمان تلے تیز سمندری ہوا میں گھومتے اور چائے پیتے رہے۔ یہ پون گھنٹے کا سفر تھا۔ جہاز اب ایمی نونو کے ساحل پر لنگرانداز ہوا اور کاریں باہر آنا شروع ہو گئیں۔
سامنے سپائس بازار تھا جس کے قریب ہی مشہور نیو مسجد اور سلطان احمد مسجد نظر آ رہی تھیں۔ کچھ فاصلے پر اوپن ایئراسٹیڈیم کے اسٹیج پر موسیقی کے ساتھ Whirling Darwesh محو رقص تھے۔ اسٹیڈیم شائقین سے بھرا ہوا تھا۔ پہلی بار ترکی کا مشہور قدیمی چار درویشوں کا لائیو رقص دیکھنے کو ملا۔ گانے والے کی زبان تو سمجھ نہ آئی لیکن اس کی پاٹ دار آواز سے امجد صابری قوال کی یاد آتی رہی جس کی آواز کو چند روز قبل کراچی میں درندہ صفت قاتلوں نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ میوزک شو تو چلتا رہا لیکن کانوں میں صابری کی عشق نبیؐ میں سرشار قوالیاں گونجتی رہیں۔
اس بار استنبول دو سال پہلے والے استنبول سے زیادہ خوبصورت روشن سرسبز اور زندگی سے بھر پور لگا۔ ابھی تو اس شہر کی یادگار اور تاریخی نوادرات کی دوبارہ زیارت باقی ہے۔