فقط چند برس پہلے تک …

فقط چند برس پہلے تک… بہت سی چیزیں کس قدر مختلف تھیں اور زندگی کا رنگ ہی اور تھا،


Shirin Hyder June 26, 2016
[email protected]

فقط چند برس پہلے تک... بہت سی چیزیں کس قدر مختلف تھیں اور زندگی کا رنگ ہی اور تھا، اب دنیا بھر میں ترقی کے نئے نئے در وا ہو رہے ہیں، سائنس کی ترقی نے ہماری آنکھیں خیرہ کر دی ہیں۔ تصور کریں ان لوگوں کو جو دس بیس برس قبل دنیا سے چلے گئے تھے، اگر ان میں سے کوئی لوٹ کر اس دنیا میں آئے تو دوبارہ حیرت سے مر جائے!!!

ہونا تو یہ چاہیے کہ ترقی ہمیں مزید مہذب بنائے اور ہم خود میں مثبت تبدیلیاں لائیں ، جو ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو آسان بنانے کا کام کر رہی ہے اس کا استعمال بھی ہم مثبت طریقے سے کریں ، مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ مثلًا سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کو ہمارے ملک میں اور ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں تعلیم کا تناسب کافی کم ہے، اسے تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا، تعلیم بالغاں جیسے پروگراموں کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جاتا اور انھیں زیور علم سے مزین کیا جاتا مگر بد قسمتی سے ایسا ہوا نہیں اور ہمارے ہاں میڈیا کو نہ صرف آج کی بلکہ آنے والی نسلوں کے بگاڑنے کی ذمے داری دے دی گئی۔

ہمارے زوال کی ایک اہم وجہ ہمارے ہاں میڈیا کا منفی کردار ہے، یہ کوئی اتفاقاً نہیں ہو رہا بلکہ اس کے پیچھے بھی ملکی اور غیر ملکی ان عناصر کا ہاتھ ہے جنھیں علم ہے کہ مسلمانوں کو زوال پذیر کرنا ہو تو انھیں کھیل تماشوں اور شیطانی کاموں میں الجھا دو۔ بھلا ہو ان کا جو کہ اپنے دور حکومت میں ان گنت لوگوں کو بھانت بھانت کے ٹی وی چینلز کھولنے کے لائسنس تو دے گئے مگر انھیں یہ نہ بتایا کہ ان چینلز کا کوئی ضابطہء اخلاق بھی ہوتا ہے، کوئی طور طریقہ ہوتا ہے، کوئی تمیز ہوتی ہے... کوئی حد ہوتی ہے!!! نتیجتاً ہمار ے ہاں ایسے چینلز کی بھرمار ہو گئی ہے جوشتر بے مہار کی مانند ہیں، مادر پدر آزاد ان چینلزکی سرپرستی وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے لیے سب کچھ پیسہ ہے اور کچھ نہیں!!! کس کی کیا ریٹنگ ہے، صرف یہ بات اہم ہے، کون کس طریقے سے قوم کی اخلاقیات کو بگاڑ رہا ہے، اسے کوئی نہیں جانتا۔

ماہ رمضان ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں مقدس ترین مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں تمام مسلمان ایک وقت میں ( زیادہ سے زیادہ ایک دن کے وقفے سے) اس جسمانی عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے یہ مہینہ ہمیں عبادات اور تزکیہ نفس کے لیے میسر ہوتا ہے ۔ اس مہینے میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جنہوں نے اس مہینے کو پایا اور اس میں عبادت کیں، وہ '' ریان '' نامی دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے... ہمیشہ سے ہم اس مہینے میں اللہ سے خود کو زیادہ قریب محسوس کرتے تھے، ہمارے بڑے جن پر ہماری تربیت کی ذمے داری تھی وہ ہمیں اس عبادت کی اصل روح اور اس کے مقاصد کے بارے میں بتاتے تھے، اس وقت ٹی وی کا ایک ہی چینل ہوتا تھا جس پر تلاوت ، نعت اور روزے کی فضیلت پر کوئی نہ کوئی واقعی عالم بیٹھ کر لیکچر دیتا تھا۔ ہمارے دلوں میںاللہ کی محبت جاگ جاتی تھی اور ہم زیادہ سے زیادہ نیکیاں بٹورنے کی فکر میں مبتلا رہتے تھے۔

مگر اب چینلز کی بھر مار ہے، رمضان کی خصوصی ٹرانسمیشن کی یلغار، مگر عبادت کی اصل روح ناپید...ہر چینل پر کوئی نہ کوئی جوکر یا مسخرہ عالم بنا بیٹھا ہے، فنکار ایسے پروگراموں کی میزبانی کرتے ہیں اور پورے ڈرامائی انداز سے... رمضان کی خصوصی ٹرانسمیشن سحری اور افطار کے اوقات میں جاری ہے، لوگوں کی انگلیاں چینل بدل بدل کر تھک گئی ہیں۔

برقعوں اور عبایا میں ملبوس خواتین... اسکارف اور حجاب پہنے ہوئے، مگر جب ان پروگراموں میں آتی ہیں جہاں نہ صرف انھیں ملک میں بلکہ دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہوتا ہے تو وہ اپنی اصل بھول کر، اس وقت ہپنا ٹائز ہو چکی ہوتی ہیں، پروگرام کا کمپئیر کہتا ہے کہ خاوند سے لڑو تو تمہیں موٹر سائیکل ملے گا تو وہ اس موٹر سائیکل کی خاطر خاوند پر طنز تک کر دیتی ہے... خاوند کو کہتا ہے کہ بیوی سے اظہار محبت کرو، خاوند جو اپنی ماں تک کے سامنے اپنی بیوی سے اظہار محبت نہیں کر پاتاکہ اسی میں حیا ہے اور اسی میں مروت... وہ دنیا بھر کے سامنے اپنی بیوی کو جانے کیا کیا کہہ رہا ہوتا ہے جسے وہ جانتے ہوئے بھی کہ جھوٹ ہے، اس وقت کھڑی مغرور ہو رہی ہوتی ہے۔

پہلے ہم افطاری کی میز پر اس لیے جلدی کرتے تھے کہ مغرب کی نماز کا وقت تنگ ہوتا ہے اور جلد از جلد نماز پڑھنے کا شوق ہوتا تھا، اب ہر گھر میں عموماً افطاری کا انتظام ہی ٹی وی لاؤنج میں کیا جاتا ہے تا کہ افطاری کی خصوصی نشریات کا کوئی ایک لمحہ بھی مس نہ ہو... یا پھر افطاری کرتے ہی مارے باندھے نماز نمٹائی جاتی ہے اور پھر خاندان کے سبھی لوگ ٹی وی کے سامنے '' عبادت '' کے لیے بیٹھ جاتے ہیں، جہاں طوفان بد تمیزی مچا ہوتا ہے، اخلاقیات نام کی چڑیا کو کوئی نہیں جانتا... گانا بجانا بھی ہورہا ہوتا ہے، ناچنا بھی، بدتمیزی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مقابلے بھی اور وہ جو حقیقی زندگی میں تو باحیا ہوتی ہیں... اس وقت جانے کس جذبے سے ایک بائیک جیتنے کی خاطر، دنیا بھر کے سامنے ہر وہ فضول حرکت کرنے کو تیار ہوتی ہیں جو وہ عام حالات میں کبھی نہ کریں ۔

یوں تو پیمرا سختی سے ہر اس پروگرام کا نوٹس لیتی ہے جہاں شک کی گنجائش نکلتی ہو یا لوگ انگلیاں اٹھائیں مگر جانے ان بے لگام پروگراموں کی طرف سے انھوں نے کیوں آنکھیں بند کر رکھی ہیں؟ حکومت کیوں ایسے پروگراموں کا نوٹس نہیں لیتی جنھیں دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور لوگ دیکھتے ہیں کہ کس طرح ہمارے لوگ انعامات کے لالچ میں مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں... ایسی ایسی گھٹیا حرکتیں کرتے ہیں کہ جن کی کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔ جو وقت عبادت کے لیے ہے، جن اوقات کو دعاؤں کی قبولیت کا وقت کہا گیا ہے ، ان اوقات میں ہمارے لوگ اس شیطانی چرخے کے سامنے ڈٹ کر گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ اگر ہم اسلامی ملکوں ہی کی مثال لے لیں تو دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس نوعیت کی نشریات ہوتی ہوں جو کہ ہمیں اس عبادت کی اصل روح سے ہٹا کر کہیں اور مصروف کردیں۔

ان پروگراموں کے سپانسرز جو کہ بائیک اور بیش قیمت انعامات تھوک کے حساب سے لوگوں کو عنایت کر رہے ہوتے ہیں، ان سے کوئی پوچھنے والا ہے کہ ان کے پاس کون سے ذرایع ہیں اور وہ ٹیکس کتنا دیتے ہیں؟ مگر ٹیکس کا تو وہ پوچھے جس کا اپنا دامن صاف ہو... یہاں تو سربراہ حکومت سے لے کر نچلے درجے تک سب لوگ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، جہاں ملک کے وزیر اعظم کے اثاثے اربوںمیں اور ٹیکس سیکڑوں یا ہزاروں میں ہوتا ہے وہاں کسی اور کا کون حساب کرے؟

پوچھنے کا حق تو وہ رکھتا ہے جس کے اپنے پاس ہر سوال کا جواب ہو، کسی کا احتساب تو وہ کر سکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو، یہاں اسی لیے سب کچھ چلتا ہے کیونکہ کوئی سوال کی جرات نہیں رکھتا !! سب جانتے ہیں کہ یہ قوم تماشوں اور میلوں ( دھرنوں ) کی شوقین قوم ہے، انھیں انھی میں مصروف رکھ کر اصل مسائل سے ہٹایا جا سکتا ہے، ان میں شعور بیدار نہ ہو اس لیے انھیں کشکول پکڑا کر ٹی وی کے چینلز پر ڈگڈگی پر نچایا جاتا ہے، انھیں لالچ دے کر ان سے وہ کچھ کروا لیا جاتا ہے جو وہ عام زندگی میں کبھی بھی نہ کریں ، اچھے خاصے نظر آنے والے لوگ، شریفانہ حلیوں کے لوگ جب ان پروگراموں میں آتے ہیں تو ان کی شرافت کے پردے چاک ہو جاتے ہیں، مگر وہ خود ایسا کبھی نہ چاہیں تو ان پروگراموں میں ان کے لیے فضول حرکتوں کے عوض انھیں قیمتی انعامات نہ دیے جائیں، گویا ان کی عزت نفس اور ان کی شرم و حیا کو چند ٹکوں کے عوض خرید لیا جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح مختلف پروگراموں کے اینکر اس ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں کہ وہ کسی مذاکرے کے شرکاء کو کس قدر جلدی اور کس حد تک بد تمیزی کی سطح پر لے کر جا سکتے ہیں اور ان کے منہ سے وہ مغلظات نکلوا سکتے ہیں جنھیں سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں... عورتیں ہیں تو ان کی زبانیں بے لگام ۔

جب اپنے میڈیا پر ہونے والے تماشوں کو دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ سارا سال ای میل آتی رہتی ہیں کہ میڈیا کی مادر پدر آزادی پر کچھ لکھیں مگر اس مہینے میں تو ایسی ای میلز کی بھر مار ہو جاتی ہے جن میں درخواست کی جاتی ہے کہ ماہ رمضان کی خصوصی ٹرانسمیشن کے بارے میں کچھ لکھیں۔ جانتے ہوئے کہ یہ وہ دور ہے جب قلم کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے مگر یہ سوچ کر کہ اس سے اہل قلم کی ذمے داری کم یا ختم نہیں ہو جاتی، اس جہاد بالقلم میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں ... اللہ تعالی مجھ سمیت، ہم سب کو ہدایت کی روشنی عطا کرے!! آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں