کراچی آپریشن پر سوالیہ نشانات

بعض اوقات مصروفیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آدمی خود کو بھول جاتا ہے

ISLAMABAD:
بعض اوقات مصروفیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آدمی خود کو بھول جاتا ہے، صرف مصروفیت کو یاد رکھتا ہے، یہ ہماری دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے آرام، سکون اور مسرتیں حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن اتنی محنت اور اتنی مصروفیت کے باوجود خوشی تھوڑی دیر کے لیے ملتی ہے، ہمیشہ یہی ہوتا ہے، مسرتوں کا حصہ بہت کم ہوتا ہے، ابھی ہم خوشیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک صدمہ ہم پر حملہ آور ہوتا ہے، ہمارے حلق میں قہقہے گھٹ جاتے ہیں اور چیخ نکل پڑتی ہے۔ تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں، انسان اپنی چالیں تو بدل بھی سکتا ہے مگر ستاروں کی چال کبھی نہیں بدلتی۔

بالکل ایسا ہی حال ان دنوں اہل کراچی کا ہے، جہاں جرائم پیشہ افراد نے ایک بار پھر سرگرم ہوکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کو چیلنج کردیا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں بدامنی کی لہریں مکمل طور پر تھمتی بھی نہیں کہ ان میں پھر سے تلاطم پیدا ہوجاتا ہے، یہاں کے باسی مسرت کے لمحوں سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہیں ہوپاتے کہ خوف کے بادل پھر سے چھاجاتے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کا دن دہاڑے اغوا اور معروف قوال امجد صابری کو ٹارگٹ کرکے جاں بحق کیے جانا ایک لمحہ فکریہ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا واضح ثبوت ہے۔جب کہ بھتہ خور بھی دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں اور حسب سابق شہر کے مختلف علاقوں میں بھتے کی پرچیاں تقسیم کیے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ اس ساری صورتحال نے کراچی میں گزشتہ تین برس سے جاری آپریشن پر سوالیہ نشانات لگادیے ہیں؟

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تمام تر حکمت عملی اور ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود شہر قائد میں مکمل طور پر امن کے قیام کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رینجرز کی جانب سے جرائم پیشہ، ٹارگٹ کلرز، مافیا کے خلاف شروع کردہ آپریشن کے انتہائی مثبت اثرات تو مرتب ہوئے ہیں اور شہر قائد کی روشنیاں بھی بحال ہوچکی ہیں مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہر چند روز گزرنے کے بعد جرائم پیشہ سرگرم ہوجاتے ہیں اور شہر میں لاشیں گرنے کے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ شرپسندوں کو استعمال کرنے والے ابھی تک قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں، جیسے ہی وہ سوئچ آن کرکے احکامات جاری کرتے ہیں ویسے ہی شرپسند حرکت میں آکر انسانی جسم کشی (ٹارگٹ کلنگ) کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اصل میں کراچی میں امن قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، کنکریٹ کے اس جنگل میں مافیا گینگز کے کارندوں، دہشتگردوں، ٹارگٹ کلرز کو وارداتوں کے لیے ایک طویل عرصے سے کھلا لائسنس ملا ہوا تھا، آج بھی کچی آبادیوں کے سلسلے پھیلتے جارہے ہیں، ہر سال لاکھوں افراد شہر میں جائے سکونت کی تلاش میں ان آبادیوں میں بسیرے ڈالتے ہیں، انتظامی حوالے سے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔

اس جیتی جاگتی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن سے پہلے اور بعد کی صورتحال میں امن و امان کے حوالے سے نمایاں بہتری آئی ہے، آج کراچی کی تاجر برادری اور عام شہری کافی حد تک مطمئن ہیں، جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے رینجرز، پولیس و دیگر سیکیورٹی اداروں نے جو قربانیاں دی ہیں اس کی حقیقت بھی سب کے سامنے ہے۔


جس شہر میں لوگ دن کو بھی گھر سے باہر نکلنے سے گھبراتے تھے اب اس کی راتیں بھی بڑی حد تک پرسکون ہوگئی ہیں، سماجی و معاشی سرگرمیوں کا پہیہ رواں ہوگیا ہے، نوگو ایریاز بھی تقریباً ختم ہوگئے ہیں، شہر قائد کے مکین امن و امان کی صورتحال میں اس بہتری کا سارا کریڈٹ رینجرز فورس کو دیتے ہیں جو قانون نافذ کرنیوالے دوسرے اداروں سے مل کر شہر میں لاقانونیت کے خلاف دلیرانہ جنگ لڑ رہی ہے لیکن عام شہری اور کاروباری طبقے یہ بھی سوچتے ہیں کہ رینجرز کے چلے جانے کے بعد کہیں بدامنی کا پرانا دور واپس تو نہیں آجائے گا؟ دیکھا جائے تو کسی بھی مسلح اور منظم فورس کے لیے کسی آپریشن کی کامیابی میں تین سال بڑا عرصہ ہوتا ہے۔

اس لیے یہ سوال کہ رینجرز آپریشن کے اثرات تادیر کیسے قائم رکھے جائیں، اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، مجرم بھی اسی انتظار میں ہے کہ رینجرز کب واپس جائیں اور کب انھیں دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملے کیونکہ کراچی میں رینجرز آپریشن ہمیشہ جاری رکھنا مسئلے کا مستقل نہیں ہے۔

دہشتگردی پر تنہا کوئی ادارہ قابو نہیں پاسکتا، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ دیگر اداروں کو بھی اس عمل میں شریک کیا جائے، روشنیوں کے شہر میں مستقل بنیادوں پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہمارے اداروں سمیت تمام جماعتوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اس عمل میں عوامی سطح پر سیکیورٹی سروسز فراہم کرنے والے بلدیاتی اداروں کو بھی شریک کیا جائے تو جرائم پیشہ افراد پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔

جرائم پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں جب کہ دہشتگردی کا خاتمہ ایک طویل المدتی عمل ہے، اس میں سول اداروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت معاون ثابت ہوگی، کراچی میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ کراچی آپریشن کا ٹائم فریم دے کر آپریشن کے اچھے اثرات کو دوام دینے کے لیے ایک ایسا سیٹ اپ قائم کیا جائے جو بنیادی طور پر سویلین ہو لیکن اس میں رینجرز اور سیکیورٹی ایجنسیوں کا بھی کسی طرح کا کردار ہو، اس کے بغیر شہر کے مستقل امن و امان کی کوئی ضمانت شاید موثر نہیں ہوگی۔ کراچی کا امن ملک کا امن ہے، اس کی خوشحالی ملک کی ترقی و خوشحالی ہے۔

ذہن نشین رہے کہ راستے میں دیوار ہو تو فکر کرنے اور اپنا خون جلانے سے دیوار نہیں گرتی، سر مارنے سے سر ٹوٹتا ہے، دیوار نہیں ٹوٹتی، لاحول پڑھنے سے ماحول نہیں بدل جاتا۔ جب یقینی طور پر کوئی خطرہ پیش آنے والا ہو تو خوف کھانے، پریشان ہونے یا فکرمند ہونے سے خطرہ ٹل نہیں سکتا، اس کا ہر حال میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دانشمندی یہی ہوتی ہے کہ حوصلے اور خود اعتمادی سے آنے والے وقت کا انتظار کیا جائے۔ کسی بھی کہانی کا آخری سین بہت ہی سنسنی خیز ہوتا ہے، کسی راستے کی آخری منزل کا آخری مرحلہ بڑا دشوار گزار ہوتا ہے، کراچی میں امن کے دشمنوں کے خلاف آپریشن بھی ایسے ہی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے مگر کہتے ہیں نا کہ جذبہ اگر صادق ہو، ارادے اگر چٹان کی طرح مضبوط ہوں تو انسان کی خواہش ایک دن ضرور پوری ہوتی ہے۔
Load Next Story