اب بھی وقت ہے
امجد صابری شہید کر دیے گئے۔ صابری گھرانے کے اس چراغ کو بجھا دیا گیا
امجد صابری شہید کر دیے گئے۔ صابری گھرانے کے اس چراغ کو بجھا دیا گیا جو قوالی کی خسروی روایت کو زندہ کیے ہوئے تھا۔ وہ فنکار جو دنیا بھر میں محبتوں کے موتی بکھیرتا وطن عزیز کا ثقافتی سفیر تھا، لحد میں اتار دیا گیا۔ وہ آواز جو پوری دنیا میں عشق رسولﷺ کا سحر کانوں میں گھولتی تھی، ہمیشہ کے لیے خاموشی کر دی گئی۔ معاملہ صرف امجد صابری کی شہادت تک محدود نہیں، اس سے دور روز قبل سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس سجاد علی شاہ کے فرزند اور معروف وکیل اویس علی شاہ کو کلفٹن کی ایک مصروف شاہراہ سے دن دہاڑے اغوا کر لیا گیا۔
گزشتہ اتوار کو ایک ڈاکٹر کو ان کے کلینک میں گھس کر ہلاک کر دیا گیا۔ جب سے رمضان شروع ہوئے ہیں، شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کی وارداتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ اچانک رونما ہونے والے ان واقعات اور وارداتوں نے شہر کو جرائم سے پاک کر دینے کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے۔
ستمبر 2013ء میں رینجرز کو ذمے داریاں سونپتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا، شہر کو قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائمز سے نجات دلانے کے لیے بلاامتیاز آپریشن کیا جائے گا۔ حالانکہ رینجرز شہر میں 1989ء سے موجود ہے، مگر اس مرتبہ کہا گیا کہ وہ مزید اختیارات کے ساتھ کام کریں گے۔ انھیں پولیس کے متوازی اختیارات تفویض کیے جا رہے ہیں۔ راقم نے پہلے دن سے اس آپریشن کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارا روز اول ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ رینجرز سمیت کسی بھی پیراملٹری فورس کی تعیناتی ایک عارضی بندوبست ہوتا ہے، جو کسی شورش پر قابو پانے کی خاطر پولیس کی مدد کے لیے بلائی جاتی ہے۔
اصل ذمے داری پولیس کی ہوتی ہے، جس کی تقرری اور تربیت ان ہی مقاصد کے تحت کی جاتی ہے۔ لیکن کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے معاشی اور عمرانی معاملات و مسائل کو سمجھنے کے بجائے شہر کے انتظام کو چھوٹے شہروں اور قصبوں کی طرح چلانے پر مسلسل اصرار کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے پیراملٹری فورسز کے ذریعے کنٹرول کو واحد حل تصور کر لیا گیا ہے۔ جس نے شہر کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد میٹروپولیٹن اور میگا شہروں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا۔ اس کا سبب شہروں میں تیزی کے ساتھ بڑھتی معاشی سرگرمیاں ہیں، جنھوں نے نہ صرف اپنے ملک کے مختلف حصوں، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے لوگوں کو ان شہروں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ اقوام متحدہ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ایک ملین (10 لاکھ) یا اس سے زائد آبادی والا شہر میٹروپولیس (Metropolis) کہلاتا ہے، جب کہ وہ تمام شہر جن کی آبادی 10 ملین (ایک کروڑ) یا اس سے تجاوز کر جائے، میگا سٹی کہلاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں میٹروپولیس اور میگا سٹیز کے لیے دیگر شہروں سے الگ یا مختلف شہری انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے، تا کہ بہت بڑی آبادی جو مختلف النسل، لسان، ثقافت اور عقیدے کے علاوہ مختلف سماجی حیثیت کی حامل ہوتی ہے، اسے جدید شہری سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کو جدید خطوط پر کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
1980ء کے عشرے تک دنیا کے بیشتر بڑے شہر بدترین بدامنی کا شکار تھے، جن میں نیویارک، شکاگو اور شنگھائی وغیرہ بطور خاص شامل تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب کراچی بھی بدامنی کی راہ پر لگنا شروع ہوا تھا۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا کے علاوہ بھارت نے بھی ممبئی اور کلکتہ جیسے میگا سٹیز میں جاری بدامنی اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے بعض اقدامات پر توجہ دینا شروع کی۔ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہوا کہ جب تک اقتدار و اختیار کو ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک منتقل نہیں کیا جاتا، ایک تو نظم حکمرانی میں عوامی شراکت کا تصور ادھورا رہے گا، دوسرے انتظام و انصرام میں بے پناہ مشکلات پیش آتی رہیں گی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک نے مقامی حکومتی نظام کو ریاستی انتظام کے کلیدی جزو کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے پورے ملک میں متعارف کرا دیا۔ چین جہاں اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم ہے، اس نے بھی اپنے بڑے شہروں میں مقامی حکومتی نظام قائم کر کے ان کے انتظام و انصرام کو سہل بنا دیا۔ بھارت جو ہنوز برطانوی نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے کی بندشوں میں جکڑا ہوا ہے، اس نے بھی 1990ء کے عشرے میں اپنے بڑے شہروں کے لیے خودمختار شہری نظام متعارف کرا دیا۔
اس سلسلے میں ممبئی کے حوالے سے چند کلیدی نوعیت کے فیصلے کیے گئے، کیونکہ 1980ء کے عشرے تک ممبئی ایک انتہائی پرآشوب شہر ہوا کرتا تھا۔ اول، ممبئی سمیت تمام میٹروپولیٹن شہروں میں بااختیار مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا۔ ممبئی، کلکتہ اور چنائے (سابقہ مدراس) میں انگریز اپنے جانے سے قبل ہی پولیس کمشنریٹ قائم کر گیا تھا۔ نئے انتظامی ڈھانچہ میں پولیس کو میئر کے تابع کر دیا گیا۔
پولیس کمشنر میئر کے احکامات ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ پولیس میں مقامی افراد کو بھرتی کیے جانے کی پابندی عائد کر دی گئی۔ دوئم، ممبئی میں زمینوں کی الاٹمنٹ میئر کی NoC کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے ممبئی کی زمینوں کی الاٹمنٹ کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ سوئم، ممبئی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا مقامی (مہاراشٹر ریاست کا) ہونا ضروری ہے۔ 1995ء میں اس طریقہ کار کو متعارف کرنے کے بعد سے ممبئی خاصی حد تک ایک پرامن شہر بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت ہر میٹروپولیٹن شہر میں ممبئی کی طرز کا انتظامی ڈھانچہ متعارف کرا رہی ہے۔
کراچی کے مسئلے کا حل رینجرز کی تادیر تعیناتی نہیں ہے۔ بلکہ ایک مکمل طور پر بااختیار مقامی حکومتی نظام کا قیام ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ نظام کا چند کلیدی نوعیت کی ترامیم و اضافہ کے ساتھ نفاذ ہی مسئلے کا واحد اور دیرپا حل ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بھی کراچی کی میگا سٹی اہمیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔
اول، کراچی سونے کی چڑیا ہے، جو قومی خزانے میں 66 فیصد سے زائد حصہ ڈالتا ہے۔ حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش ہے کہ اس شہر پر ان کا تسلط برقرار رہے، تا کہ عالمی سطح پر سکڑتے امدادی ذرایع کو اس شہر کے وسائل سے پورا کیا جا سکے۔ دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور سرکاری اہلکاروں کی نظریں کراچی کے اطراف میں لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر جمی ہوئی ہیں۔ جو مقامی حکومتی نظام کی راہ میں روڑے اٹکا کر اختیارات کی مرکزیت قائم رکھنے پر اصرار کرتی ہیں۔ سوئم، اسٹیبلشمنٹ بھی اس شہر کو منی پاکستان قرار دے کر اس کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی رہتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں فوری طور پر بااختیار مقامی حکومتی نظام رائج کیا جائے۔ جس میں میئر (یا ناظم) کو شہری انتظام کے مکمل اختیارات حاصل ہوں۔ پولیس سمیت ضلعی انتظام کے تمام کلیدی شعبے اس کی ماتحتی میں دیے جائیں۔ شہر میں پولیس کمشنریٹ قائم کیا جائے۔ پولیس کمشنر محکمہ جاتی طور پر بے شک صوبائی محکمہ پولیس کے تابع ہو، مگر انتظامی طور پر میئر کے احکامات کی تعمیل کا پابند ہو۔
پولیس میں کراچی سے نوجوان (کسی لسانی شناخت کے بغیر) میرٹ پر بھرتی کیے جائیں، جنھیں جدید میٹروپولیٹن شہروں کے پولیسنگ نظام کی تربیت دے کر تعینات کیا جائے۔ سماجی خدمات کے شعبہ جات کے علاوہ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم، اسپتال اور صحت مراکز مقامی حکومت کی نگرانی میں دے دیے جائیں۔ سینٹرل سپیریئر سروسز (CSS) اور پروونشل سول سروس (PCS) کی طرز پر میونسپل سروسز (MS) کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے، تا کہ مقامی حکومتوں کے لیے عملہ تیار ہو سکے۔
کراچی جس بدامنی اور جن جرائم کی لپیٹ میں ہے، ان کا حل رینجرز کی تعیناتی نہیں ہے۔ یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ رینجرز کی تربیت ان جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے نہیں کی جاتی۔ انھیں زمانہ امن میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا انھیں زیادہ عرصہ تک شہروں میں تعینات رکھنا خود ان کے اپنے محکمہ جاتی نظام کے لیے بھی کسی طور سودمند نہیں ہے۔ کراچی جن جرائم کا شکار ہے، انتہائی حساس اور پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لیے جدید خطوط پر تربیت یافتہ اربن ذہن رکھنے والی پولیس فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ریاستی منصوبہ ساز سر جوڑ کر بیٹھیں، شہر کے لیے ایک قابل عمل مقامی حکومتی نظام کا خاکہ تیار کر کے اس پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اہل کراچی کو اپنی رعیت سمجھنے کے بجائے اس ملک کا شہری سمجھیں۔ شہر کے وسائل اور اس کی زمینوں کی بندر بانٹ کے سلسلے کو فی الفور ختم کیا جائے۔
شہر میں باہر سے آنے والوں کی رجسٹریشن کی جائے، تا کہ جرائم پر قابو پانا آسان ہو سکے۔ کیونکہ شہر میں ہونے والے جرائم میں 85 فیصد وہ افراد ملوث ہوتے ہیں، جس کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہوتا ہے۔ اگر حکومتوں اور منصوبہ سازوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تو نہ صرف شہر پرسکون ہو جائے گا، بلکہ اس کے وسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ممکن ہو سکے گا۔ جس کا فائدہ شہر کے باسیوں کے علاوہ پورے ملک کو پہنچے گا۔
گزشتہ اتوار کو ایک ڈاکٹر کو ان کے کلینک میں گھس کر ہلاک کر دیا گیا۔ جب سے رمضان شروع ہوئے ہیں، شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کی وارداتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ اچانک رونما ہونے والے ان واقعات اور وارداتوں نے شہر کو جرائم سے پاک کر دینے کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے۔
ستمبر 2013ء میں رینجرز کو ذمے داریاں سونپتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا، شہر کو قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائمز سے نجات دلانے کے لیے بلاامتیاز آپریشن کیا جائے گا۔ حالانکہ رینجرز شہر میں 1989ء سے موجود ہے، مگر اس مرتبہ کہا گیا کہ وہ مزید اختیارات کے ساتھ کام کریں گے۔ انھیں پولیس کے متوازی اختیارات تفویض کیے جا رہے ہیں۔ راقم نے پہلے دن سے اس آپریشن کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارا روز اول ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ رینجرز سمیت کسی بھی پیراملٹری فورس کی تعیناتی ایک عارضی بندوبست ہوتا ہے، جو کسی شورش پر قابو پانے کی خاطر پولیس کی مدد کے لیے بلائی جاتی ہے۔
اصل ذمے داری پولیس کی ہوتی ہے، جس کی تقرری اور تربیت ان ہی مقاصد کے تحت کی جاتی ہے۔ لیکن کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے معاشی اور عمرانی معاملات و مسائل کو سمجھنے کے بجائے شہر کے انتظام کو چھوٹے شہروں اور قصبوں کی طرح چلانے پر مسلسل اصرار کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے پیراملٹری فورسز کے ذریعے کنٹرول کو واحد حل تصور کر لیا گیا ہے۔ جس نے شہر کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد میٹروپولیٹن اور میگا شہروں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا۔ اس کا سبب شہروں میں تیزی کے ساتھ بڑھتی معاشی سرگرمیاں ہیں، جنھوں نے نہ صرف اپنے ملک کے مختلف حصوں، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے لوگوں کو ان شہروں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ اقوام متحدہ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ایک ملین (10 لاکھ) یا اس سے زائد آبادی والا شہر میٹروپولیس (Metropolis) کہلاتا ہے، جب کہ وہ تمام شہر جن کی آبادی 10 ملین (ایک کروڑ) یا اس سے تجاوز کر جائے، میگا سٹی کہلاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں میٹروپولیس اور میگا سٹیز کے لیے دیگر شہروں سے الگ یا مختلف شہری انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے، تا کہ بہت بڑی آبادی جو مختلف النسل، لسان، ثقافت اور عقیدے کے علاوہ مختلف سماجی حیثیت کی حامل ہوتی ہے، اسے جدید شہری سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کو جدید خطوط پر کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
1980ء کے عشرے تک دنیا کے بیشتر بڑے شہر بدترین بدامنی کا شکار تھے، جن میں نیویارک، شکاگو اور شنگھائی وغیرہ بطور خاص شامل تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب کراچی بھی بدامنی کی راہ پر لگنا شروع ہوا تھا۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا کے علاوہ بھارت نے بھی ممبئی اور کلکتہ جیسے میگا سٹیز میں جاری بدامنی اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے بعض اقدامات پر توجہ دینا شروع کی۔ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہوا کہ جب تک اقتدار و اختیار کو ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک منتقل نہیں کیا جاتا، ایک تو نظم حکمرانی میں عوامی شراکت کا تصور ادھورا رہے گا، دوسرے انتظام و انصرام میں بے پناہ مشکلات پیش آتی رہیں گی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک نے مقامی حکومتی نظام کو ریاستی انتظام کے کلیدی جزو کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے پورے ملک میں متعارف کرا دیا۔ چین جہاں اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم ہے، اس نے بھی اپنے بڑے شہروں میں مقامی حکومتی نظام قائم کر کے ان کے انتظام و انصرام کو سہل بنا دیا۔ بھارت جو ہنوز برطانوی نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے کی بندشوں میں جکڑا ہوا ہے، اس نے بھی 1990ء کے عشرے میں اپنے بڑے شہروں کے لیے خودمختار شہری نظام متعارف کرا دیا۔
اس سلسلے میں ممبئی کے حوالے سے چند کلیدی نوعیت کے فیصلے کیے گئے، کیونکہ 1980ء کے عشرے تک ممبئی ایک انتہائی پرآشوب شہر ہوا کرتا تھا۔ اول، ممبئی سمیت تمام میٹروپولیٹن شہروں میں بااختیار مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا۔ ممبئی، کلکتہ اور چنائے (سابقہ مدراس) میں انگریز اپنے جانے سے قبل ہی پولیس کمشنریٹ قائم کر گیا تھا۔ نئے انتظامی ڈھانچہ میں پولیس کو میئر کے تابع کر دیا گیا۔
پولیس کمشنر میئر کے احکامات ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ پولیس میں مقامی افراد کو بھرتی کیے جانے کی پابندی عائد کر دی گئی۔ دوئم، ممبئی میں زمینوں کی الاٹمنٹ میئر کی NoC کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے ممبئی کی زمینوں کی الاٹمنٹ کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ سوئم، ممبئی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا مقامی (مہاراشٹر ریاست کا) ہونا ضروری ہے۔ 1995ء میں اس طریقہ کار کو متعارف کرنے کے بعد سے ممبئی خاصی حد تک ایک پرامن شہر بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت ہر میٹروپولیٹن شہر میں ممبئی کی طرز کا انتظامی ڈھانچہ متعارف کرا رہی ہے۔
کراچی کے مسئلے کا حل رینجرز کی تادیر تعیناتی نہیں ہے۔ بلکہ ایک مکمل طور پر بااختیار مقامی حکومتی نظام کا قیام ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ نظام کا چند کلیدی نوعیت کی ترامیم و اضافہ کے ساتھ نفاذ ہی مسئلے کا واحد اور دیرپا حل ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بھی کراچی کی میگا سٹی اہمیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔
اول، کراچی سونے کی چڑیا ہے، جو قومی خزانے میں 66 فیصد سے زائد حصہ ڈالتا ہے۔ حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش ہے کہ اس شہر پر ان کا تسلط برقرار رہے، تا کہ عالمی سطح پر سکڑتے امدادی ذرایع کو اس شہر کے وسائل سے پورا کیا جا سکے۔ دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور سرکاری اہلکاروں کی نظریں کراچی کے اطراف میں لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر جمی ہوئی ہیں۔ جو مقامی حکومتی نظام کی راہ میں روڑے اٹکا کر اختیارات کی مرکزیت قائم رکھنے پر اصرار کرتی ہیں۔ سوئم، اسٹیبلشمنٹ بھی اس شہر کو منی پاکستان قرار دے کر اس کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی رہتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں فوری طور پر بااختیار مقامی حکومتی نظام رائج کیا جائے۔ جس میں میئر (یا ناظم) کو شہری انتظام کے مکمل اختیارات حاصل ہوں۔ پولیس سمیت ضلعی انتظام کے تمام کلیدی شعبے اس کی ماتحتی میں دیے جائیں۔ شہر میں پولیس کمشنریٹ قائم کیا جائے۔ پولیس کمشنر محکمہ جاتی طور پر بے شک صوبائی محکمہ پولیس کے تابع ہو، مگر انتظامی طور پر میئر کے احکامات کی تعمیل کا پابند ہو۔
پولیس میں کراچی سے نوجوان (کسی لسانی شناخت کے بغیر) میرٹ پر بھرتی کیے جائیں، جنھیں جدید میٹروپولیٹن شہروں کے پولیسنگ نظام کی تربیت دے کر تعینات کیا جائے۔ سماجی خدمات کے شعبہ جات کے علاوہ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم، اسپتال اور صحت مراکز مقامی حکومت کی نگرانی میں دے دیے جائیں۔ سینٹرل سپیریئر سروسز (CSS) اور پروونشل سول سروس (PCS) کی طرز پر میونسپل سروسز (MS) کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے، تا کہ مقامی حکومتوں کے لیے عملہ تیار ہو سکے۔
کراچی جس بدامنی اور جن جرائم کی لپیٹ میں ہے، ان کا حل رینجرز کی تعیناتی نہیں ہے۔ یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ رینجرز کی تربیت ان جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے نہیں کی جاتی۔ انھیں زمانہ امن میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا انھیں زیادہ عرصہ تک شہروں میں تعینات رکھنا خود ان کے اپنے محکمہ جاتی نظام کے لیے بھی کسی طور سودمند نہیں ہے۔ کراچی جن جرائم کا شکار ہے، انتہائی حساس اور پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لیے جدید خطوط پر تربیت یافتہ اربن ذہن رکھنے والی پولیس فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ریاستی منصوبہ ساز سر جوڑ کر بیٹھیں، شہر کے لیے ایک قابل عمل مقامی حکومتی نظام کا خاکہ تیار کر کے اس پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اہل کراچی کو اپنی رعیت سمجھنے کے بجائے اس ملک کا شہری سمجھیں۔ شہر کے وسائل اور اس کی زمینوں کی بندر بانٹ کے سلسلے کو فی الفور ختم کیا جائے۔
شہر میں باہر سے آنے والوں کی رجسٹریشن کی جائے، تا کہ جرائم پر قابو پانا آسان ہو سکے۔ کیونکہ شہر میں ہونے والے جرائم میں 85 فیصد وہ افراد ملوث ہوتے ہیں، جس کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہوتا ہے۔ اگر حکومتوں اور منصوبہ سازوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تو نہ صرف شہر پرسکون ہو جائے گا، بلکہ اس کے وسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ممکن ہو سکے گا۔ جس کا فائدہ شہر کے باسیوں کے علاوہ پورے ملک کو پہنچے گا۔