خانہ جنگی نہیں ہورہی

دانشورطبقے کے متعددافرادبحث میں ایک فقرہ اکثر استعمال کرتے ہیں کہ پاکستان میں سول وارہوسکتی ہے

raomanzarhayat@gmail.com

دانشورطبقے کے متعددافرادبحث میں ایک فقرہ اکثر استعمال کرتے ہیں کہ پاکستان میں سول وارہوسکتی ہے۔ یہ خوفناک فقرہ اس تواترسے استعمال کیاجارہاہے کہ اکثرلوگ یاتواسے اپنامقدرسمجھ چکے ہیںیاانھیں اس کامطلب قطعاً معلوم نہیں۔کل پاکستان کے ایک سیاسی لیڈرموثرمگراس غیرحکیمانہ طریقے سے کراچی میںفرقہ واریت اورطبقاتی جنگ کے متعلق فرمارہے تھے کہ طالبعلم کو لگاکہ ان کی تقریر کے دوران کراچی میں لاکھوں افراداسلحہ لے کرقتل عام شروع کردینگے۔ مگرایساکچھ نہیں ہوااورنہ ہوگا۔

اس سے پہلے کہ"سول وار"کے عفریب کے ملکی اثرات کے متعلق بات کروں۔چندگزارشات کرناچاہوں گا۔کوئٹہ اوربلوچستان میں بم دھماکے آج بھی ہورہے ہیں مگرسانحہ کے بعدزندگی معمول کے مطابق چلناشروع ہوجاتی ہے۔بلوچستان میں دہشت گردوں نے سرتوڑ کوشش کرلی ہے مگر لوگوں میں زندہ رہنے کے جذبہ کے سامنے ہارچکے ہیں۔

کراچی میں قتل کی بھیانک وارداتیں بالکل ہوتی ہیں مگریہ شہراتنابہادرہے کہ فوراًدوبارہ زندہ ہوجاتاہے۔کے پی کے میں ہمارے قانون نافذکرنے والے جوان روزشہیدہوتے ہیں مگران کی جگہ اگلے دن دوسرامحافظ کھڑاہوتاہے۔ہمارے ملک کے لوگوں کی اصل طاقت یہی ہے کہ مشکل حالات میں زندہ رہنے کاسلیقہ جانتے ہیں۔لاہورکی مثال دیناچاہتاہوں۔چندماہ پہلے گلشن اقبال پارک میں نوے کے قریب انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔سانحہ نے پورے لاہورکوہلاکررکھ دیا۔ مگر ٹھیک کچھ عرصے کے بعداسی پارک میں لوگوں نے دوبارہ آنا شروع کردیا۔جاگنگ شروع ہوگئی۔جھولے بچوں سے دوبارہ آبادہوگئے۔دوتین ہفتے کے بعدکوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھاکہ اس باغ میں حددرجہ کی وحشیانہ دہشت گردی ہوئی ہے۔یہی ہماری طاقت ہے اورکوئی بھی غیرملکی منصوبہ بندی اسکو کم نہیں کرسکتی۔ختم کرناتوخیر ناممکن ہے ۔

خانہ جنگی کالفظ جوبھی شخص استعمال کرے۔آپ ضرورپوچھیے کہ محترم اس کامطلب کیاہے۔ یقین فرمائیے، وہ دانشوردلیل کی بنیادپرجواب دینے سے قاصر رہے گا۔ تیس سال پہلے کے تجزیے دیکھیے یا سنیے۔ بتایاجاتاتھاکہ بس ایک دہائی تک پاکستان دنیاکے نقشے سے غائب ہوجائیگا۔مگرتمام ترمشکلات کے باوجودیہ ملک آج بھی موجودہے اورانشاء اللہ آیندہ ہزاروں برس تک رہیگا۔

بنیادی نکتہ کی طرف آناچاہتاہوں کہ"سول وار"کے معاشرے اورملکوں پرکیااثرات ہوتے ہیں۔شام اس مصیبت میں مبتلاہے۔چارسال سے اس خطے میں بھیانک لڑائی ہورہی ہے۔امریکا،روس،داعش اورنہ جانے کتنے مسلح گروہ جنگ میں مصروف ہیں۔ دولاکھ سے اوپرلوگ مارے جاچکے ہیں۔ایک کروڑسے زیادہ اشخاص اپنے گھرچھوڑنے پرمجبورہوگئے ہیں۔ جنگ سے پہلے شام کی آبادی دوکروڑتھی۔ غربت کی شرح اَسی فیصدسے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔سیمنتھااسکان(Shyamantha Asakon)نے شام میں اَن گنت انٹرویوکیے ہیں۔


اپنا خلاصہ برطانیہ سے شایع کیاہے۔یہ بہت بامعنی اور پُرمغز تحقیق ہے۔الیپو(Aleppo)چندبرس قبل ایک ہنستا بستاشہرتھا۔ اب تباہی کی تصویربن چکاہے۔ ملازمتیں اس حدتک کم ہیں کہ تقریباًہرشخص سال کے چندہفتے سے زیادہ روزگارنہیں کماسکتا۔رامی زین اسی شہرمیں ایک فوٹوگرافر ہے۔ عمر23برس ہے۔کچھ عرصہ پہلے فوٹوگرافی بالکل نہیں آتی تھی۔جنگ کے دوران بے روزگاری نے سبق دیاکہ زندہ رہنے کے لیے وہ کام کروں جوحالت جنگ میں ذریعہ معاش بن سکے۔زین سول وارکی بھیانک تصویریں کھینچ کر مختلف اداروں کوفروخت کردیتاہے۔پہلے جولوگ بہت آسودہ ملازمتیں کرتے تھے،آج ٹیکسیاں چلارہے ہیں۔ گاڑیوں کے مکینک بن چکے ہیں۔اسمگلنگ کا غیرقانونی دھنداکرنے پرمجبورہیں۔

زین نے اپنے انٹرویومیں بتایاکہ جنگ سے پہلے اس کاہمسایہ ٹیکسٹائل مل کامالک تھا،آج بازار میں ڈیزل فروخت کررہاہے۔پچھلے برس الیپومیں اجناس کی تمام دکانیں بندتھیں۔ شہری کئی کئی دن بھوکے رہنے پر مجبور تھے۔صورتحال تھوڑی سی بہترصرف اس بناپرہوئی کہ چند بین الاقومی اداروں نے انسانیت کے نام پرجنگ کے دوران چاول اورخوردنی تیل مہیاکرناشروع کردیا۔اب صورتحال قدرے بہترہے۔کھانے پینے کی اشیاء تو موجود ہیں مگران کی قیمت اس درجہ زیادہ ہے کہ انھیں خریدنا تقریباً ناممکن ہوچکاہے۔روٹی سوروپے کی ہوچکی ہے۔ بجلی کاحال یہ ہے کہ کئی کئی ہفتے نہیں آتی۔پیٹرول اتنا مہنگاہے کہ گاڑیوں کوچلانا تقریباً ناممکن ہے۔ اکثر خاندان سات ہزارروپے میں پورامہینہ گزارنے پرمجبورہوچکے ہیں۔

موبائل فون کے سگنل آدھے سے زیادہ ملک میں بند ہیں کیونکہ ٹاور تباہ ہوچکے ہیں۔اَل حمزہ نام کے ایک نوجوان نے بتایاکہ سورج غروب ہونے کے بعدشہری اپنے گھروں سے باہرنہیں نکلتے ۔دن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے سامنے یااردگردنہیں دیکھتے بلکہ آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔صرف اسلیے کہ جنگی ہوائی جہاز نظر آجائیں اوربمباری میں اپنے آپکومحفوظ رکھ سکیں۔

اکثر لوگ اوربچے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔بچے کئی کئی دن نہیںسو نہیں پاتے۔بمباری اورمرنے کے خوف سے بچنا ان کی سرشت میں شامل ہوچکاہے۔توپوں اورگولوں کی آوازیں معمول کاحصہ بن چکی ہیں۔داعش کے زیرتسلط علاقوں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ عصمت دری،پھانسیاں،زندہ جلانااورآنکھیں نکال لینا زندگی کاحصہ ہے۔عورتوں کی خریدوفروخت اس طرح ہو رہی ہے جیسے عام انسان کسی مارکیٹ سے سوداسلف خرید رہاہو۔ لوگوں کے پاس انتہائی محدودذریعہ معاش ہیں۔ شہریوں نے رقع میں گھرمجاہدین کوکرائے پردے ڈالے ہیں۔آمدنی سے ایک وقت کاکھاناکھالیتے ہیں۔

ابومحمد،قصوی شہرمیں پناہ گزین ہے۔ایک تہہ خانے میں بیوی اورسات بچوں کے ساتھ ڈھائی سال سے سانس لے رہاہے۔تہہ خانے کی دیواروں میں دڑاڑیں آچکی ہیں۔تمام خاندان زمین پرسوتاہے۔ان کے پاس کوئی گدایا نمدہ نہیں۔بتاتاہے کہ پینے کے پانی کوہتھیارکے طور پراستعمال کیاجارہاہے۔آپکویقین نہیں آئیگاکہ پورے شہر بلکہ شام کے تین چوتھائی حصے میں پانی کی فراہمی کاکوئی انتظام نہیں ہے۔امداددینے والے ادارے مہینہ میں ایک بارٹینکرلے کرآتے ہیں۔ عورتیں، مرداوربچے برتن لے کر ٹینکر کے سامنے پانی کے لیے جانوروں کی طرح لڑتے ہیں۔پانی حاصل کرنے کی جدوجہدمیں روزاموات ہوتی ہیں۔
Load Next Story