جناب نواز شریف کی آمد آمد
وزیراعظم محمد نواز شریف صحتیاب ہو کر اب اپنے وطن آیا ہی چاہتے ہیں
تقریباً ایک ماہ قبل وزیراعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف بہ امرِ مجبوری اوپن ہارٹ سرجری کے لیے لندن کے ایک اسپتال میں داخل ہوئے تو ممتاز امریکی اخبار ''نیویارک ٹائمز'' نے لکھا: ''یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ نواز شریف جونہی دل کے علاج کے لیے داخل ہوئے ہیں، تمام پاکستانی قوم متحد ہو کر اپنے وزیراعظم کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیں کرتی نظر آ رہی ہے۔
جناب نواز شریف لندن میں اپنے قریبی احباب اور اپنی کابینہ کے چنیدہ لوگوں سے جس طرح میل ملاقاتیں کر رہے ہیں، حتیٰ کہ سرکاری امور بھی نمٹا رہے ہیں، جناب نواز شریف کی آمد آمد کا سن کر اپوزیشن والے ابھی سے مبالغہ آمیز اور بے پرکی اڑانے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔ یہ رویہ افسوسناک بھی ہے اور قوم کے اجتماعی ضمیر کے منافی بھی۔ اس منظر پر بھی تاسف ہی کا اظہار کیا جانا چاہیے کہ ہمارے میڈیا کے بعض ''احباب'' کی جانب سے یہ ''خبریں'' اور تبصرے نشر کیے گئے ہیں کہ نواز شریف اگلے دو ماہ بھی لندن ہی میں رہیں گے، تاآنکہ وہ نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان نہ کر دیں۔ صد افسوس۔ کیا ہمارے ہاں اب پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی ہیں؟ کیا ان ''خبروں'' اور تبصروں کو کسی بھی اعتبار سے معروضی جرنلزم کا نام دیا جا سکتا ہے؟
وزیراعظم محمد نواز شریف صحتیاب ہو کر اب اپنے وطن آیا ہی چاہتے ہیں۔ وہ بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے والے اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ انھیں آزادانہ واپس آنے سے کون روک سکتا ہے اور کوئی روکے گا بھی کیوں؟ انھیں کسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ ملک میں کسی نام نہاد ''خلیج'' کا نام لے کر افواہیں اڑانے والوں کا منہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے جرمنی کے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دے کر بند کر دیا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے نہایت سنجیدگی سے کہا ہے کہ سول اور فوج میں کہیں بھی، کسی بھی قسم کے فاصلے نہیں ہیں اور یہ کہ افواجِ پاکستان کی طرف سے جمہوریت کی مکمل حمایت کی جا رہی ہے اور ہر ممکنہ تعاون بھی۔ یہ امر بھی اطمینان بخش ہے کہ جنرل راحیل شریف نے زیرِ علاج جناب وزیراعظم کو دو بار فون کر کے ان کی خیر خیریت دریافت کی، لندن میں ملٹری اتاشی نے سپہ سالار پاکستان کی جانب سے نواز شریف کو گلدستہ بھی بھیجا اور محترمہ بیگم راحیل شریف نے بھی وزیراعظم کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز سے رابطہ کر کے وزیراعظم صاحب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ نواز شریف کی آمد آمد کے موقع پر یہی خبریں اور بیانات اس تاثر کو گہرا کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت میں کوئی چپقلش ہے نہ کوئی سرد جنگ۔ یہ ممکن ہے کہ بعض خارجہ امور پر دونوں بڑے سیاسی اور فوجی اداروں میں کوئی ہلکا سا اختلاف ہو لیکن اس مبینہ اختلاف کو تصادم کا نام دینے سے ہمیں گریز کرنا چاہیے کہ اسی میں قومی سلامتی اور قومی اتحاد کا راز پوشیدہ ہے۔
وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کی ہارٹ سرجری کے باعث پاکستان میں غیر موجودگی کے دوران وطنِ عزیز کئی حساس معاملات سے گزرا ہے۔ ان ''معاملات'' کو بحران بھی کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر حالات انتہائی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ان کی غیر موجودگی کے باوجود یہ بحران کوئی سنگین صورت اختیار نہ کر سکے۔ وجہ اس کی غالباً یہ رہی کہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان گہری ہم آہنگی رہی اور وہ حکومتی لوگ جنھیں وزیراعظم نواز شریف نے اپنی غیر موجودگی کے دوران معاملات کو ہینڈل کرنے کے اختیارات سونپے تھے، وہ تندہی سے اپنے متعینہ فرائض انجام دیتے رہے۔
اگرچہ میڈیا اور اپوزیشن کے چند ایک دانے ایسے بھی تھے جنہوں نے نواز شریف کی ملک میں غیر موجودگی کی بنیاد پر یہ تاثر قائم کرنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی کہ حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں موجود خلیج اپنا رنگ دکھا رہی ہے اور یہ کہ فوج اور سویلین حکومت ایک صفحے پر نہیں ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس پراپیگنڈے کو کامیابی نہ مل سکی۔ جناب نواز شریف کی ملک میں غیر موجودگی کے دوران مرکزی حکومت جس اسلوب میں کامیابیاں سمیٹی رہی، لاریب اس کامیابی کا سہرا جناب اسحاق ڈار، محترمہ مریم نواز اور جناب احسن اقبال کے سربندھتا ہے۔
(نیویارک ٹائمز نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے) پاک افغان بارڈر طور خم کے مقام پر پاکستان کی جانب سے پھاٹک کی تعمیر اور افغان فورسز کا گولیوں کی زبان میں بات کرنا، عالمی میدان میں بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے میں شکستِ فاش، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ کے صاحبزادے کا اغوا اور کراچی میں معروفِ عالم قوال امجد صابری کا قتل ایسے نمایاں واقعات تھے جو وزیراعظم کی پاکستان میں غیر موجودگی میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ طور خم بارڈر کے بحران کا مقابلہ ہماری سیکیورٹی فورسز اور وزارتِ خارجہ نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کیا ہے۔ اس دوران افغانستان کے ڈپٹی وزیرخارجہ حکمت خلیل کرزئی اپنے تئیں شکایات کا پلندہ لے کر پاکستان آئے تو انھیں آئینہ دکھا دیا گیا۔
جناب نواز شریف کی پاکستان میں غیر حاضری کے دوران اس امر کا بھی شدید خدشہ تھا کہ بھارت کہیں نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ ایسا ہونے کی شکل میں پاکستان کے لیے شدید ندامت ہی نہیں، سفارتی شکست کا بھی سبب بنتا۔ جنرل راحیل شریف کی راہنمائی میں ہماری سیکیورٹی فورسز اور وزیراعظم کے خارجہ مشیر جناب سرتاج عزیز کی قیادت میں وزارتِ خارجہ کی زبردست دوڑ دھوپ کا الحمد للہ یہ نتیجہ نکلا ہے کہ بھارت ''این ایس جی'' کا رکن نہیں بن سکا۔ بھارت کے لیے 24 جون 2016ء کو ہونے والی ناکامی اور شکست میں ہمارے قابلِ فخر عالمی دوست، چین، نے مستحسن اور لاثانی کردار ادا کیا ہے۔
بیماری اور کمزوری کے باوجود نواز شریف ان تمام ڈویلپمنٹس سے بے خبر نہ رہے۔ اسی دوران جنرل راحیل شریف نے جرمنی اور چیکو سلواکیہ کے سرکاری دورے بھی کیے۔ ان دوروں میں جنرل راحیل اور آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اپنے خطابات اور انٹرویوز میں دنیا کو کامیابی سے یہ باور کرایا کہ پاکستان میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت ایک صفحے پر رہ کر، ہم آہنگی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان بیانات سے اگرچہ ہماری اپوزیشن کے جملہ ارکان کو قدرے مایوسی ہی ہوئی ہے جو کسی ''بڑی خبر'' سننے کے شدت سے منتظر تھے۔
اپوزیشن کی بدقسمتی ہے کہ اس کا اندرونی خلفشار اور انتشار بھی اسے لے ڈوب رہا ہے۔ محض عمران خان ہی واویلا کرتے اور اپنی علیحدہ ڈفلی بجاتے نظر آ رہے ہیں۔ اب جب کہ تازہ تازہ صحت یاب ہونے والے نواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد آمد کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے، پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف سے نواز شریف کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی پی ٹی آئی نواز شریف کے خلاف اسی طرح کے اقدامات کرتی آ رہی ہے لیکن نتیجہ صفر نکلا ہے۔ اب بھی صفر ہی نکلے گا۔