ازالہ
ایوب خان کا دور صنعتی ترقی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے
پچھلے کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی کے رہنما حبیب جنیدی سمیت ملک کی مختلف مزدور تنظیموں کے رہنماؤں کی طرف سے مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے مطالبے تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں مزدور اپنے مطالبات کے حوالے سے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں ہمارے وزیر خزانہ نے مزدوروں پر مہربانی کرتے ہوئے ان کی ماہانہ تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کیا ہے۔
کوئی وزیر خزانہ مزدوروں کو ایسا بجٹ بنا کر نہیں دیتا جس میں ایک 7-6 افراد پر مشتمل خاندان چودہ ہزار روپوں میں ایک ماہ گزارا کر سکے، لیکن پروپیگنڈہ زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ حکومت نے مزدوروں کی تنخواہ میں ایک ہزار روپوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ ماضی میں جب ملک میں ٹریڈ یونین بنانے کی آزادی تھی، مزدور اپنے مطالبات اپنی یونینوں کی طاقت کے ذریعے منواتے تھے۔ ٹریڈ یونین کی تاریخ میں 1968ء سے 1972ء کا عرصہ ایسا رہا جس میں مزدور تنظیمیں بہت فعال اور طاقت ور رہیں۔ 1972ء میں لانڈھی کورنگی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی اور سائٹ میں متحدہ مزدور فیڈریشن دو ایسی طاقتور مزدور تنظیمیں تھیں جو کراچی کے مزدوروں میں اس قدر مقبول تھیں کہ مزدور ان دو تنظیموں کے علاوہ کسی مزدور تنظیم کا نام سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ پیپلزپارٹی نے بھٹو صاحب کی قیادت میں جب ''مزدور کسان راج'' کا نعرہ لگایا تو مزدوروں میں اس نعرے نے ایک نئی روح پھونک دی۔
ایوب خان کا دور صنعتی ترقی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان کی صنعتی ترقی میں امریکا کے کولمبو پلان کا بڑا دخل رہا ہے۔ سوشلسٹ بلاک کی تیزی سے مقبولیت سے خوف زدہ امریکا کے منصوبہ سازوں نے امریکی حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا کہ پسماندہ ملکوں میں سوشلزم کی مقبولیت کو روکنے کے لیے کولمبو پلان کے تحت بھاری مالی امداد دی جائے تا کہ ان ملکوں میں سوشلسٹ بلاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکا جا سکے۔ ایوب خان نے کولمبو پلان کے تحت ملنے والی بھاری مالی امداد کو ملک میں صنعتی ترقی کے لیے استعمال کیا۔
یوں پاکستان خاص طور پر کراچی میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ لیکن سامراجی حکومتوں کو پتہ تھا کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین کی باگ ڈور ترقی پسند لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو نظریاتی طور پر امریکا کو عوام دشمن سامراجی طاقت سمجھتے ہیں، اسی پس منظر میں امریکا نے ایوب خان کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ پاکستان میں پوری طاقت سے ٹریڈ یونین کو کچل دے۔ اور ایوب خان امریکا کی اس ہدایت پر پوری طرح عمل کرنے لگے۔ مزدوروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور اس ظلم کی انتہا یہ تھی کہ مزدور رہنما حسن ناصر کو لاہور کے قلعہ میں شدید انسانیت سوز تشدد کے ذریعے شہید کر دیا گیا، یہ امریکا کے کولمبو پلان کی وہ قیمت تھی جو محنت کش چکا رہے تھے۔
1972ء میں جب پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو مزدوروں کے سینوں میں ایوب دور سے اندر ہی اندر بھڑکتی ہوئی آگ باہر آنے لگی۔ لانڈھی کورنگی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی مزدوروں کی روح رواں بن گئی اور سائٹ کے صنعتی علاقے میں متحدہ مزدور فیڈریشن مقبول ترین فیڈریشن بن گئی۔ ان دونوں تنظیموں کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو کام کا موقع دیا جائے لیکن مزدور دشمن بیوروکریسی ہر حال میں حکومت اور مزدوروں کے درمیان تصادم کرانا چاہتی تھی، سو اس نے سائٹ میں ایک بڑا تصادم کرایا جس میں درجنوں مزدوروں کو شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد لانڈھی میں مزدوروں کا قتل عام کر دیا گیا، اس کے ساتھ ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے انھیں لمبی لمبی سزائیں دلوائی گئیں۔ یوں کراچی سے ٹریڈ یونین کا خاتمہ کر دیا گیا۔
لانڈھی انڈسٹریل ایریا کی خونریزی میں بیورو کریسی کے کردار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سانحے کی رات کو لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کا ایک وفد اس وقت کے وزیر محنت ستار گبول کے مکان پر مزدوروں کے مسائل کے حل اور کراچی میں صنعتی امن کے حوالے سے رات دو بجے تک مذاکرات کرتا رہا اور یہ طے پایا کہ اگلے روز ستار گبول کے آفس میں اس حوالے سے حتمی فیصلے جاری کیے جائیں گے۔ میں رات تین بجے گھر پہنچا اور چند گھنٹوں کی نیند کے بعد جب میں ستار گبول کے دفتر جانے کے لیے ٹیکسی میں بیٹھا تو ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ رات لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں پولیس نے سخت آپریشن کیا ہے اور مزدوروں کا قتل عام کیا ہے۔ یہ خبر سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ہم نے ستار گبول کو فون کر کے اس کی وضاحت چاہی تو وہ کہنے لگے کہ اس سانحے کی مجھے اطلاع ملی ہے لیکن میں حیران ہوں کہ یہ سانحہ کیسے ہوا۔
پیپلزپارٹی کے دور میں کراچی سے ٹریڈ یونین کا خاتمہ ہوا، آج سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، وہ اس ظلم کا ازالہ کر سکتی ہے۔ سب سے پہلے اسے صنعتی علاقوں میں مزدوروں پر مسلط اس خوف کو دور کرنا چاہیے کہ ٹریڈ یونین بنانے کا مطلب ملازمتوں سے برطرفی ہے۔ ٹریڈ یونین بنانا مزدوروں کا قانونی حق ہے جسے فوری اور غیر مشروط طریقے سے بحال کیا جانا چاہیے۔
ہر کارخانے پر ملز کے مزدوروں کو یہ آزادی ہو کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنائیں۔ مزدوروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے مالکان غنڈوں اور پولیس کو جس طرح استعمال کرتے ہیں اسے روکا جانا چاہیے۔ کراچی میں ٹھیکیداری نظام کے ذریعے مزدوروں کے قانونی حقوق کا خون کیا جا رہا ہے، یہ سازشی سلسلہ بند کرنے کے لیے ٹھیکیداری نظام کو ختم کیا جانا چاہیے۔ مزدوروں کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کر کے انھیں فاقوں سے بچانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے، وہ ان مزدور مسائل کو حل کر کے 1972ء، 1973ء کی زیادتیوں کا ازالہ کر سکتی ہے۔
کوئی وزیر خزانہ مزدوروں کو ایسا بجٹ بنا کر نہیں دیتا جس میں ایک 7-6 افراد پر مشتمل خاندان چودہ ہزار روپوں میں ایک ماہ گزارا کر سکے، لیکن پروپیگنڈہ زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ حکومت نے مزدوروں کی تنخواہ میں ایک ہزار روپوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ ماضی میں جب ملک میں ٹریڈ یونین بنانے کی آزادی تھی، مزدور اپنے مطالبات اپنی یونینوں کی طاقت کے ذریعے منواتے تھے۔ ٹریڈ یونین کی تاریخ میں 1968ء سے 1972ء کا عرصہ ایسا رہا جس میں مزدور تنظیمیں بہت فعال اور طاقت ور رہیں۔ 1972ء میں لانڈھی کورنگی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی اور سائٹ میں متحدہ مزدور فیڈریشن دو ایسی طاقتور مزدور تنظیمیں تھیں جو کراچی کے مزدوروں میں اس قدر مقبول تھیں کہ مزدور ان دو تنظیموں کے علاوہ کسی مزدور تنظیم کا نام سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ پیپلزپارٹی نے بھٹو صاحب کی قیادت میں جب ''مزدور کسان راج'' کا نعرہ لگایا تو مزدوروں میں اس نعرے نے ایک نئی روح پھونک دی۔
ایوب خان کا دور صنعتی ترقی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان کی صنعتی ترقی میں امریکا کے کولمبو پلان کا بڑا دخل رہا ہے۔ سوشلسٹ بلاک کی تیزی سے مقبولیت سے خوف زدہ امریکا کے منصوبہ سازوں نے امریکی حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا کہ پسماندہ ملکوں میں سوشلزم کی مقبولیت کو روکنے کے لیے کولمبو پلان کے تحت بھاری مالی امداد دی جائے تا کہ ان ملکوں میں سوشلسٹ بلاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکا جا سکے۔ ایوب خان نے کولمبو پلان کے تحت ملنے والی بھاری مالی امداد کو ملک میں صنعتی ترقی کے لیے استعمال کیا۔
یوں پاکستان خاص طور پر کراچی میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ لیکن سامراجی حکومتوں کو پتہ تھا کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین کی باگ ڈور ترقی پسند لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو نظریاتی طور پر امریکا کو عوام دشمن سامراجی طاقت سمجھتے ہیں، اسی پس منظر میں امریکا نے ایوب خان کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ پاکستان میں پوری طاقت سے ٹریڈ یونین کو کچل دے۔ اور ایوب خان امریکا کی اس ہدایت پر پوری طرح عمل کرنے لگے۔ مزدوروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور اس ظلم کی انتہا یہ تھی کہ مزدور رہنما حسن ناصر کو لاہور کے قلعہ میں شدید انسانیت سوز تشدد کے ذریعے شہید کر دیا گیا، یہ امریکا کے کولمبو پلان کی وہ قیمت تھی جو محنت کش چکا رہے تھے۔
1972ء میں جب پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو مزدوروں کے سینوں میں ایوب دور سے اندر ہی اندر بھڑکتی ہوئی آگ باہر آنے لگی۔ لانڈھی کورنگی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی مزدوروں کی روح رواں بن گئی اور سائٹ کے صنعتی علاقے میں متحدہ مزدور فیڈریشن مقبول ترین فیڈریشن بن گئی۔ ان دونوں تنظیموں کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو کام کا موقع دیا جائے لیکن مزدور دشمن بیوروکریسی ہر حال میں حکومت اور مزدوروں کے درمیان تصادم کرانا چاہتی تھی، سو اس نے سائٹ میں ایک بڑا تصادم کرایا جس میں درجنوں مزدوروں کو شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد لانڈھی میں مزدوروں کا قتل عام کر دیا گیا، اس کے ساتھ ہزاروں مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے انھیں لمبی لمبی سزائیں دلوائی گئیں۔ یوں کراچی سے ٹریڈ یونین کا خاتمہ کر دیا گیا۔
لانڈھی انڈسٹریل ایریا کی خونریزی میں بیورو کریسی کے کردار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سانحے کی رات کو لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کا ایک وفد اس وقت کے وزیر محنت ستار گبول کے مکان پر مزدوروں کے مسائل کے حل اور کراچی میں صنعتی امن کے حوالے سے رات دو بجے تک مذاکرات کرتا رہا اور یہ طے پایا کہ اگلے روز ستار گبول کے آفس میں اس حوالے سے حتمی فیصلے جاری کیے جائیں گے۔ میں رات تین بجے گھر پہنچا اور چند گھنٹوں کی نیند کے بعد جب میں ستار گبول کے دفتر جانے کے لیے ٹیکسی میں بیٹھا تو ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ رات لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں پولیس نے سخت آپریشن کیا ہے اور مزدوروں کا قتل عام کیا ہے۔ یہ خبر سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ہم نے ستار گبول کو فون کر کے اس کی وضاحت چاہی تو وہ کہنے لگے کہ اس سانحے کی مجھے اطلاع ملی ہے لیکن میں حیران ہوں کہ یہ سانحہ کیسے ہوا۔
پیپلزپارٹی کے دور میں کراچی سے ٹریڈ یونین کا خاتمہ ہوا، آج سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، وہ اس ظلم کا ازالہ کر سکتی ہے۔ سب سے پہلے اسے صنعتی علاقوں میں مزدوروں پر مسلط اس خوف کو دور کرنا چاہیے کہ ٹریڈ یونین بنانے کا مطلب ملازمتوں سے برطرفی ہے۔ ٹریڈ یونین بنانا مزدوروں کا قانونی حق ہے جسے فوری اور غیر مشروط طریقے سے بحال کیا جانا چاہیے۔
ہر کارخانے پر ملز کے مزدوروں کو یہ آزادی ہو کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنائیں۔ مزدوروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے مالکان غنڈوں اور پولیس کو جس طرح استعمال کرتے ہیں اسے روکا جانا چاہیے۔ کراچی میں ٹھیکیداری نظام کے ذریعے مزدوروں کے قانونی حقوق کا خون کیا جا رہا ہے، یہ سازشی سلسلہ بند کرنے کے لیے ٹھیکیداری نظام کو ختم کیا جانا چاہیے۔ مزدوروں کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کر کے انھیں فاقوں سے بچانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے، وہ ان مزدور مسائل کو حل کر کے 1972ء، 1973ء کی زیادتیوں کا ازالہ کر سکتی ہے۔