معاملے عزت و ذلت کے
قندیل بلوچ اور عبدالقوی کے معاملے نے سوشل میڈیا کے بعد ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھی ہلچل مچادی
KARACHI:
قندیل بلوچ اور عبدالقوی کے معاملے نے سوشل میڈیا کے بعد ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھی ہلچل مچادی۔ قندیل ایک ماڈل گرل جب کہ دوسری شخصیت مفتی عبدالقوی خان کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔
ایک نام نہاد عالم دین کا ہوٹل کے کمرے میں خاتون سے ملاقات کرنا اور پھر سب کچھ تصاویر اور ویڈیو کی شکل میں عوام کے سامنے آجانا۔ ایک جانب قندیل کو شہرت ملی تو دوسری جانب عبدالقوی خان کے حصے میں بدنامی آئی۔ انھیں رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہٹا دیا گیا۔ شہرت اور بدنامی کا فرق یوں ہے کہ ایک کے پاس لٹانے کو کچھ نہ تھا کہ وہ نوجوان خاتون تھیں، قندیل نے ابھی فن کی دنیا میں وہ نام نہیں کمایا تھا جو مفتی عبدالقوی خان نے بطور مذہبی اسکالر کمالیا تھا۔ کسی بھی شخص کو ایسی آگ یا پھلجھڑی سے کھیلنے سے پہلے حساب لگانا چاہیے کہ کس کے پاس لٹانے کو کیا کچھ ہے۔
الزامات در الزامات کی گرد اتنی شدید ہے کہ عبدالقوی کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہیں۔ دوسری طرف قندیل نے اس نیک نامی یا بدنامی کی بدولت فن کی دنیا میں اپنے مستقبل کو روشن کرلیا۔ رسوائیاں ایسے لوگوں کا مقدر بن جاتی ہے جو عمر کے ایک مرحلے میں پہنچ کر صرف اور صرف اپنے لیے سوچتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے کئی چہرے ہیں، جنھوں نے نیک نامی، تجربے و قابلیت کے باوجود زندگی کے آخری مرحلے میں رسوائیاں اور بدنامیاں سمیٹی ہیں۔
غلام محمد برٹش انڈیا کے زمانے میں ایک قابل مسلمان افسر تھے، جب لیاقت علی خان کو کابینہ میں خزانے کی وزارت ملی تو غلام محمد جیسے افسران ان کے ساتھ تھے۔ یہ پاکستان بننے سے ذرا ہی پہلے کی بات ہے۔ پاکستان بنا تو غلام محمد کابینہ میں وزیر تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل سے وزیراعظم بن گئے، سربراہ مملکت کا وہ عہدہ جس پر قائداعظم فائز رہ چکے تھے وہ غلام محمد کا مقدر بنا۔ اپریل 53 میں گورنر جنرل نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا، ابھی ڈیڑھ سال گزرا تھا کہ انھوں نے اسمبلی بھی برخاست کردی، اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے عدالت سے رجوع کیا۔ صوبہ سندھ کی اعلیٰ عدلیہ نے گورنر جنرل کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا۔ معاملہ اس دور کی فیڈرل کورٹ میں گیا۔
جسٹس منیر نے فنی بنیادوں پر گورنر جنرل کے اقدامات کو غلط قرار دینے سے انکار کردیا۔ یوں انگریز دور کے دو قابل ترین مسلمان افسران پاکستان بننے کے بعد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے، لیکن انجام کیا ہوا؟ اکاؤنٹس کی دنیا کے جادوگر ملک غلام محمد اور قانون کی دنیا کے اعلیٰ دماغ جسٹس منیر، ان کے غلط اقدامات نے ان کی اعلیٰ تعلیم، بہترین مواقع اور شاندار تجربے کو خاک میں ملادیا۔ کیا صلاحیت تھی اور کیا موقع ملا، لیکن رسوائی ان کا مقدر بن گئی، انھوں نے صرف اور صرف اپنے لیے سوچ لیا، موقع کی مناسبت سے جرأت نہ دکھا سکے۔
اسکندر مرزا بھی پاکستان کے ان اعلیٰ افسران میں تھے جو اپنی قابلیت کی بدولت انگریزوں کو بھاگئے۔ یقیناً دور غلامی اور ہندو اکثریت کے درمیان ایسے کلمہ گو افسران کا اعلیٰ عہدوں پر ہونا مسلمانوں کے لیے حوصلے کا باعث بنتا ہوگا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اسکندر مرزا عہدوں پر ترقی کرتے رہے۔ وہ گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے کہ غلام محمد مفلوج ہوچکے، جب 56 کا آئین بنا تھا، چیف کورٹس کو ہائی کورٹس جب کہ فیڈرل کورٹ کو سپریم کورٹ کا نام دیا گیا۔ بالکل اسی طرح گورنر جنرل کو صدر مملکت کہا جانے لگا۔ وہ پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جو دونوں عہدوں پر فائز رہے، جنرل ایوب سے ان کی دوستی اور پھر غیر آئینی قدم انھیں لے ڈوبا۔ فروری 59 میں انتخابات ہونے تھے، اسکندر مرزا نے سمجھا کہ یوں وہ طاقت ور سربراہ مملکت نہیں رہیں گے۔ ایوب کی شہ پر اسکندر مرزا نے آئین توڑ دیا۔ اسمبلیاں برخاست اور کابینہ رخصت کردی گئی۔
انھوں نے مارشل لا لگاکر جنرل محمد ایوب خان کو اس کا ایڈمنسٹریٹر بنادیا۔ اسکندر مرزا کی اصل طاقت آئین تھا، جب وہی نہ رہا تو ساری طاقت ایوب میں جمع ہوگئی۔ یوں انھیں تین ہفتوں بعد جلاوطن کردیا گیا۔ لندن میں گمنامی اور نہایت برے حالات میں ان کی وفات ہوئی۔ اسکندر مرزا بھی اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود غلط کاموں کی بدولت ذلت و رسوائی کے دریا میں غرق ہوگئے۔ ان کے خاندان کے اکادکا لوگ ایڈیٹر کو خطوط کے ذریعے یا ایک آدھ کتاب کا سہارا لے کر اسکندر مرزا کے کردار پر جمی دھول کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتنی قابلیت، صلاحیت اور مواقع ملنے کے باوجود تاریخ پاکستان میں کوئی عام مقام بھی حاصل نہ کرسکے۔
آغا محمد یحییٰ خان کو پاک فوج کے کم عمر ترین بریگیڈیئر ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ نئے دارالخلافہ کی تعمیر کے لیے ایوب کی نظر یحییٰ خان پر گئی۔ جنرل موسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 66 میں یحییٰ کو پاک فوج کا کمانڈر ان چیف نامزد کیا گیا۔ وہ اپنے پیش رو کی طرح سیاست سے دور رہتے تو آج نیک نام ہوتے۔ ایوب کے خلاف چلنے والی تحریک سے یحییٰ نے فائدہ اٹھایا اور آئین ختم کردیا۔ شاید یحییٰ خان واحد فوجی جنرل تھے جن کے مارشل لاء کے خلاف کہیں سے کوئی آواز نہ اٹھی۔ بلکہ ان کے دور حکومت میں کسی نے عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔ عدالت نے بھی آئین شکنی پر ان کے دور حکومت میں نوٹس نہ لیا۔ یحییٰ خان نے آتے ہی عوامی مطالبات تسلیم کرلیے۔
انھوں نے ون مین ون ووٹ، پارلیمانی نظام ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کرکے مقبولیت حاصل کی۔ ستر کے انتخابات میں مجیب کی عوامی لیگ اور بھٹو کی پیپلزپارٹی ابھر کر سامنے آگئیں، نئے آئینی خاکے پر دونوں بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا، بھٹو نے ڈھاکا میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مغربی پاکستان سے جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دے دی۔ یحییٰ خان اپنی زندگی بلکہ تاریخ پاکستان کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھے۔ انھوں نے اجلاس منسوخ کردیا۔ یوں بنگال میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مارچ 71 میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا، مجیب کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان میں نظر بند کردیا گیا۔ دونوں طرف سے انسانیت سے بہت پرے کی جنگ شروع ہوئی۔
بھارت نے مداخلت کی اور پاکستانی فوج گھیرے میں آگئی۔ دسمبر میں وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئی۔ یہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی بلکہ عالم اسلام کی سب سے بڑی شکست تھی۔ یحییٰ کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ کمانڈر ان چیف کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھٹو کو اقتدار سونپ کر ایک طرف ہوجائیں۔ زندگی کے آخری نو سال یحییٰ خان نے نظر بندی میں گزارے۔ ایک قابل فوجی افسر اور اچھا منتظم اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں غلطی کرگیا اور آج ہمیں تاریخ کے کوڑے دان پر پڑا نظر آرہا ہے۔
قندیل بلوچ کے ساتھ عبدالقوی کی رسوائی، غلام محمد، جسٹس منیر، اسکندر مرزا اور یحییٰ خان کی رسوائیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ قوی خان اتنے قابل ہیں اور نہ اتنے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور نہ تاریخ انھیں اس طرح یاد رکھے گی جس طرح اس نے ان چار اعلیٰ دماغ لیکن بدقسمت شخصیات کو یاد رکھا ہوا ہے۔ دو باتیں ضرور یاد رکھی جائیںگی، بالفرض اگر کبھی عبدالقوی جیسی شخصیت کو کسی ماڈل گرل نے اپنے جال میں پھنسایا تو قوی و قندیل کی داستان دہرائی جائے گی۔ دوسری بات ہمیں اس سوال کا جواب بھی مل رہا ہے کہ عزت و ذلت کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے؟ اگر قادر مطلق کسی کو رسوا کرنا چاہے تو اس کی قوت فیصلہ چھین لیتا ہے کہ عزت و ذلت اﷲ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یوں بھی جا بجا ہمیں دکھائی دیتے ہیں معاملے عزت و ذلت کے۔