بچھڑا کچھ اس ادا سے امجد صابری
22 جون 2016…16 رمضان المبارک اور بدھ کا دن تھا۔ میں فجر کی نماز کے بعد کالم لکھنے بیٹھ گیا
22 جون 2016...16 رمضان المبارک اور بدھ کا دن تھا۔ میں فجر کی نماز کے بعد کالم لکھنے بیٹھ گیا۔ 18 رمضان المبارک کے دن بھائی حبیب جالب کا انتقال ہوا تھا، اسی حوالے سے کالم لکھا اور ایکسپریس میں بھیج دیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ دو دن پہلے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے ایڈووکیٹ اویس شاہ کو دن دہاڑے کلفٹن سے مسلح افراد اٹھا کر لے گئے۔ بس اس خبر نے کراچی شہر کو لرزہ رکھا تھا باقی جیساکہ میں لکھ چکا ہوں کہ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
دوپہر ڈھل چکی تھی، گھر والے روزے سے تھے اور سو رہے تھے۔ مگر میں جاگ رہا تھا۔ کوئی گھر کا کام کر رہا تھا کہ میرا چھوٹا بیٹا اپنے کمرے سے نکلا وہ شدید گھبرایا ہوا تھا۔ ''اسے گولیاں مار دیں، وہ قتل ہوگیا'' میں بھی پریشان ہوگیا، دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ پھر میرے بیٹے کے منہ سے وہ وہ کرتے ایک نام نکلا ''ڈیڈی! امجد صابری کو قتل کردیا۔''
وہ جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا، وہ ہوچکا تھا۔ ایک نہایت خوش اخلاق، خوش گفتار، سادہ مزاج، سراپا ایثار و محبت، نرم دل، ہر ایک کے کام آنے والا، فقیر منش، درویش صفت 40 سالہ نوجوان امجد صابری قوال، عاشق رسول و اولیا کرام، فقرا عظام، خادم الاصفیا کو قتل کردیا گیا۔ اس شہر کراچی میں بڑے بڑے لوگ قتل ہوئے، پہلا نام ہی حکیم محمد سعید کا آتا ہے، وہ گورنر سندھ بھی رہے تھے، ایک بہت معتبر شخصیت تھے۔ درندوں نے انھیں گولیوں سے چھلنی کردیا، پھر علمائے کرام کا نمبر آتا ہے، پھر وکلا، ڈاکٹر، یونیورسٹی و کالجز کے اساتذہ قتل ہوئے۔ جالب کا شعر یاد آگیا:
گزرے ہیں اس دیار میں کچھ ایسے روز و شب
خورشید بجھ گیا، کبھی مہتاب گہہ گیا
مگر یہ محبتیں بانٹنے والا، لالو کھیت میں رہنے والا، آج میں لیاقت آباد نہیں لکھوں گا، میں اس علاقے کو پرانے نام سے یاد کروں گا۔ 1976 میں لالو کھیت میں پیدا ہوئے۔ اللہ نے باپ کو ہی بے پناہ عروج سے نواز دیا تھا۔ بھلا کون ہے، جو غلام فرید صابری قوال کو نہ جانتا ہو۔ یہ دو بھائیوں کی جوڑی تھی، غلام فرید صابری اور مقبول صابری۔ غلام فرید صابری کی آواز بلندیوں میں سفر کرتی تھی اور مقبول صابری نیچی نیچی پرواز میں کیسی کیسی میناکاری کرتے تھے۔ باریک کام دکھاتے تھے۔
لالوکھیت کے اسی چھوٹے سے مکان سے یہ دونوں بھائی نکلے اور قوالی پیش کی۔ فلم عشق حبیب کے لیے اس قوالی کو مسرور انور نے لکھا تھا۔
بھردو جھولی میری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، در پہ آئے ہیں بن کے سوالی
یہ دعائیہ، التجائیہ اور وہ بھی اس زعم کے ساتھ کہ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے محبوب اور اس کے نواسوں کے صدقے غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی خالی جھولیاں ایسی بھریں، ایسی بھریں کہ آج بھی وہ جھولیاں لبریز ہیں۔
میرا امجد صابری سے کوئی تعارف نہیں۔ کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ بس دو مواقع یاد آتے ہیں۔ ایک بار ایک ہوٹل جہاں میرا منجھلا بیٹا چیف میڈیکل آفیسر تھا، میں ایک رات قوالی کی محفل تھی۔ امجد صابری آئے ہوئے تھے۔ رات گئے محفل سماع ختم ہوئی تو میرے بیٹے نے امجد صابری سے کہا ''میں اپنے والد سے آپ کی بات کروانا چاہتا ہوں۔ وہ آپ سے بات کرکے بہت خوش ہوں گے۔'' پھر امجد صابری فون پر مجھ سے گفتگو کر رہے تھے۔ دوران گفتگو میں نے امجد صابری سے کہا ''میں آپ سے ملنے گھر آؤں گا'' مگر ایسا نہیں ہوا۔
دراصل میرے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ امجد صابری اتنی جلدی چلا جائے گا۔ دوسری بار پھر امجد سے آرٹس کونسل کراچی میں آمنا سامنا ہوا۔ اوپن ایئر تھیٹر میں مرحوم معین اختر کی یاد میں پروگرام ہو رہا تھا۔ امجد صابری پہلی رو کے راستے میں بیٹھا تھا۔ میں دوسری رو میں تھا۔ مجھے باہر نکلنا تھا، میں اٹھا تو امجد صابری نے اپنی کرسی اٹھائی اور میری طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا ''آئیے۔۔۔! تشریف لائیے۔'' یہ تہذیب، یہ ادب آداب اسے اپنے گھر سے ملے تھے، امجد صابری کے والد اور چچا بھی ایسے ہی مہذب و باادب تھے۔
امجد صابری نے اپنی شہادت سے تقریباً بارہ گھنٹے پہلے سحری کی نشریات میں ٹی وی چینل سے جو نعتیہ کلام پڑھا، خود بھی رویا اور باقی سب کو بھی رلایا۔
میں قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب آقاؐ
امداد میری کرنے آ جانا رسول اللہؐ
اے سبز گنبد والے، منظور دعا کرنا
جب وقت نزع آئے، دیدار عطا کرنا
اور اس دعا کے تقریباً 12 گھنٹے بعد قبولیت کی گھڑی آگئی، رمضان شریف کا مہینہ حالت روزہ میں شہادت کا اعلیٰ ترین مقام امجد صابری کو عطا کیا جا رہا تھا۔ وہ بڑا انسان جو لالوکھیت میں پیدا ہوا، وہیں نام کمایا اور وہیں موت کو گلے لگایا، ورنہ جس جگہ یہ قتل ہوا ہے دو منٹ کی مزید ڈرائیو کے بعد لالو کھیت کی حدود ختم ہوجاتی اور حسن اسکوائر عیسیٰ نگری کا علاقہ شروع ہوجاتا، مگر یہ قدرت کے رنگ ہیں کہ امجد صابری کی موت اس کے اپنے علاقے میں ہونا تھی۔
اور وہ اندھیری قبر جس کا امجد نے موت سے چند گھنٹے پہلے دعا میں ذکر کیا تھا، اور جسے حضور نبی پاکؐ نے اپنے دیدار سے منور کرنا تھا، وہ بھی بڑا خاص مقام ہے۔ یہ پاپوش نگر کے قبرستان میں ایک احاطہ ہے، جہاں حضرت پیر حیرت شاہ وارثیؒ کی قبر مبارک ہے۔ میں نے پیر حیرت شاہ وارثیؒ کو دیکھ رکھا تھا۔ لمبی لمبی زلفیں کاندھوں پر جھولتی ہوئیں، زرد رنگت کا لباس، تہبند (دھوتی) اور ایک زرد چادر باقی جسم کو ڈھانپے ہوئے۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی مشتاق مبارک پیر حیرت شاہ وارثیؒ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔
پیر صاحب بھی مشتاق بھائی سے بڑا پیار کرتے تھے اور دو تین ماہ میں ایک بار ان سے ملنے ان کے دفتر آجایا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک بار حیرت شاہ وارثیؒ بھائی کے دفتر آئے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ بھائی مشتاق محکمہ اطلاعات میں ڈائریکٹر تھے اور الگ کمرے میں بیٹھے تھے۔ حیرت شاہ وارثیؒ کمرے میں داخل ہوئے اور کرسی کے بجائے نیچے قالین پر بیٹھ گئے۔ بھائی مشتاق بھی اپنی کرسی چھوڑ کر پیر صاحب کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے۔ حضرت پیر حیرت شاہ وارثیؒ کی آنکھیں مجھے نہیں بھولتیں۔ ان کی آنکھوں سے نجانے کیسے کیسے منظر دیکھے ہوں گے کن کن برگزیدہ ہستیوں کے عالم کیف وجد میں دیدار کیے ہوں گے۔ وہ تمام رنگ ان کی آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے۔ حضرت پیر حیرت شاہ وارثیؒ کی رحلت کے بعد ان کے صاحبزادے ارشاد وارثیؒ مرحوم سے ہمارا رابطہ رہا۔ وہ ماہانہ رسالہ ''الوارث'' شایع کرتے تھے اور رسالہ عطا کرنے آتے تھے۔ ارشاد وارثی کے بعد یہ ناتا ٹوٹ گیا۔
امجد صابری کے خاندان کا بھی پیر حیرت شاہ وارثیؒ سے انتہائی عقیدت مندانہ تعلق تھا۔ حیرت شاہ وارثیؒ کی خاص عنایت تھی کہ الحاج غلام فرید صابری، الحاج مقبول صابری عالمی شہرت یافتہ قوال بن گئے۔ مجھے یاد آرہا ہے۔ اسی مزار کے احاطے میں میری غلام فرید صابری سے ملاقات ہوئی۔ عصر کی نماز کا وقت تھا اور غلام فرید صابری نماز کے لیے وضو کر رہے تھے۔ یہی میری ان سے واحد ملاقات تھی۔ امجد صابری رخصت ہوا ہے تو ساری یادیں امڈ آئی ہیں۔
امجد صابری نے لالو کھیت نہیں چھوڑا، اور کہنے والوں نے درست کہا ہے کہ اس کو رخصت کرنے کے لیے پورا شہر لالو کھیت چلا آیا۔ وہ کراچی کا شہزادہ تھا، ہر لباس، ہر رنگ اس پر خوب سجتا تھا۔
اللہ کا فرمان ہے کہ جنت کے تمام دروازے رمضان کے مقدس مہینے میں کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اس پاک مہینے میں اللہ کے پیارے بندے ہی آخری سفر اختیار کرتے ہیں۔ شاعر خالد شریف کا شعر امجد صابری کے لیے بہت پڑھا گیا۔ یہی شہر میں بھی نذر شہید کرتے ہوئے بات ختم کرتا ہوں:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا