خواجہ سراؤں سے نکاح جائز ہے فتویٰ
جسمانی علامات والے خواجہ سرا کا مرد و زن والی علامتوں کے حامل سے نکاح درست ہے، فتویٰ
چیئرمین تنظیم اتحاد امت پاکستان اورناظم اعلیٰ اتحاد امت اسلامک سینٹر محمد ضیا الحق نقشبندی کی اپیل پر تنظیم اتحاد امت پاکستان کے 50 سے زائد علمائے کرام نے خواجہ سراؤں کے حوالے سے فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا خواجہ سراجس میں جسمانی طور پر مردانہ علامات پائی جاتی ہوں کا نکاح ایسے خواجہ سرا کے ساتھ جائز ہے جس میں جسمانی طور زنانہ علامات پائی جاتی ہوں جب کہ ان واضع علامات والے خواجہ سراؤں سے عام مرد اور خواتین بھی نکاح کرسکتی ہیں۔
ایسے خواجہ سرا جن میں مردوزن والی (یعنی دونوں ) علامتیں پائی جاتی ہوں ان کو خنثیٰ مشکل کہاجاتا ہے اور''خنثیٰ مشکل'' سے کسی مردوزن کا نکاح ہرگز جائز نہیں ۔ مفتیان کرام کاکہنا ہے خواجہ سراؤں کا جائیداد میں حصہ مقرر ہے، ایسے والدین جو اپنی اولاد کوخواجہ سرا ہونے کی وجہ سے جائیداد سے بے دخل اورگھروں سے نکال دیتے ہیں، اللہ کی بارگاہ میں سخت عذاب کے مستحق ہیں، حکومت ان کے خلاف سخت ایکشن لے۔ خواجہ سراؤں پر آوازیں کسنا، مذاق اُڑانا، تذلیل کرنا، حقیر سمجھنا، شرعی طور پرناجائز اورحرام ہے کیونکہ ان کے ساتھ ایسا عمل روا رکھنا اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر اعتراض ہے جو شرعی طور پر درست نہیں، انھیں حقارت کی نظر سے دیکھنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے ۔
فتویٰ میں کہا گیا ہے خواجہ سراؤں کا نمازجنازہ مسلمان مرد اورعورت کی طرح پڑھا جائے گا، ان کے کفن دفن کے معاملات بھی کیے جائیں گے۔ فتویٰ میں خواجہ سرائوں کو خبردار کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے عام افراد کو ہر طرح کی برائی سے منع فرمایااسی طرح خواجہ سراؤں کے لیے بھی یہی احکامات ہیں۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اوردیگرشرعی احکام جس طرح مسلمان مرد و زن پر فرض ہیں اسی طرح مسلمان خواجہ سراؤں پر بھی فرض ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھے اور علمائے کرام کی زیر نگرانی ان کے حوالے سے قانون سازی کرے تاکہ عوام میں پائی جانے والی منفی سوچ اورفکر کا قلع قمع ہو۔
مفتیان کرام نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وزارت داخلہ کو فور ی طور پرخواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیں۔
ایسے خواجہ سرا جن میں مردوزن والی (یعنی دونوں ) علامتیں پائی جاتی ہوں ان کو خنثیٰ مشکل کہاجاتا ہے اور''خنثیٰ مشکل'' سے کسی مردوزن کا نکاح ہرگز جائز نہیں ۔ مفتیان کرام کاکہنا ہے خواجہ سراؤں کا جائیداد میں حصہ مقرر ہے، ایسے والدین جو اپنی اولاد کوخواجہ سرا ہونے کی وجہ سے جائیداد سے بے دخل اورگھروں سے نکال دیتے ہیں، اللہ کی بارگاہ میں سخت عذاب کے مستحق ہیں، حکومت ان کے خلاف سخت ایکشن لے۔ خواجہ سراؤں پر آوازیں کسنا، مذاق اُڑانا، تذلیل کرنا، حقیر سمجھنا، شرعی طور پرناجائز اورحرام ہے کیونکہ ان کے ساتھ ایسا عمل روا رکھنا اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر اعتراض ہے جو شرعی طور پر درست نہیں، انھیں حقارت کی نظر سے دیکھنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے ۔
فتویٰ میں کہا گیا ہے خواجہ سراؤں کا نمازجنازہ مسلمان مرد اورعورت کی طرح پڑھا جائے گا، ان کے کفن دفن کے معاملات بھی کیے جائیں گے۔ فتویٰ میں خواجہ سرائوں کو خبردار کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے عام افراد کو ہر طرح کی برائی سے منع فرمایااسی طرح خواجہ سراؤں کے لیے بھی یہی احکامات ہیں۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اوردیگرشرعی احکام جس طرح مسلمان مرد و زن پر فرض ہیں اسی طرح مسلمان خواجہ سراؤں پر بھی فرض ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھے اور علمائے کرام کی زیر نگرانی ان کے حوالے سے قانون سازی کرے تاکہ عوام میں پائی جانے والی منفی سوچ اورفکر کا قلع قمع ہو۔
مفتیان کرام نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وزارت داخلہ کو فور ی طور پرخواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیں۔