اچھے کپڑوں کی انوکھی شرط
کیا اچھے کپڑے اور جوتوں کی کوئی تعریف وضع ہے؟ صاف ستھرے لباس کا بھی تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ اصولی بھی ہے اور منطقی بھی
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب رمضان کے مبارک مہینے میں عبادت کے علاوہ سوغات کے طور پر کھجلہ پھینی، پراٹھے، پکوڑے، افطاری اور سحری کے دیگر لوازمات، کرکٹ میچز اور پتنگ بازی کو ہی جانا جاتا تھا، لیکن پھر میڈیا کے ارتقائی سفر کے ساتھ کمرشلزم اور گلیمر کے تڑکوں نے رمضان ٹرانسمیشن، سحری کا منظر، افطار کا سماء جیسے رحجانات متعارف کرائے، جو کہ بدقسمتی سے مقبولیت کا ریکارڈ توڑتے آج اس نہج پر ہیں کہ رات 2 بجے ہوں یا سہہ پہر کا وقت، ہر گھر میں جیتو، لوٹ مار، اور بے تکے سوالوں کے جوابات اور تُکوں کی صدا آرہی ہوتی ہے۔ مذہبی ادائیگی سے فن گائیکی تک تمام جلوے ایک ہی جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تمام عوامل نے صورت حال اس نہج تک پہنچا دی ہے کہ لوگ اب اس تگ و دو میں رہتے ہیں کہ کسی صورت ان پروگرامز میں جانے کا پروانہ مل جائے یعنی داخلہ پاس۔ ای میلز، واٹس اپ میسجز، فون کالز اور رجسٹریشن کیلئے پہلے سر توڑ کوشیشیں کی جاتی ہیں، اور ان سب سے بھی جب کام نہ بنے تو پاکستانی اپنا آخری حربہ آزماتے ہوئے جگاڑ یعنی مطلوبہ چینل میں تعلقات کھنگالتے ہیں کہ کوئی تو صورت بر آئے۔
پھر جب اس تمام تر جدوجہد کے بعد کوئی فرد پاس کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے تو باقاعدہ خاندان میں اطلاع دی جاتی ہے، ٹیکسٹ میسجیج فارورڈ ہوتے ہیں کہ کامیابی مقدر ٹھہری اور شان و شوکت کے ساتھ ہم بھی اس رمضان ٹرانسمیشن کا حصہ بنیں گے۔ ایسے ہی ایک اتفاق کا ہمیں بھی سامنا کرنا پڑا۔ جب ایک روز افطار کیلئے ہم خاندان میں ایک جگہ مدعو تھے۔ بعد افطار اہل خانہ کی ایک کم عمر بچی نے نہایت پر مسرت انداز میں بتایا کہ وہ بھی کل ایسے ہی ایک پروگرام میں شرکت کرنے والے ہیں اور میں بھی انکل سے پنک والی سائیکل مانگ کر لاؤں گیں۔ یہ بات سن کر ہمیں حیرت تو نہیں البتہ ناگواری ضرور محسوس ہوئی، کیونکہ معصوم بچے جو دیکھتے، سنتے ہیں وہ ہی جذب کرلیتے ہیں۔
جب بچہ یہ دیکھے گا کہ اسی کے ہم عمر نے اسی طرح مانگ کر اپنی من پسند شے حاصل کی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ باجی نے سونے کی انگوٹھی، بھائی نے لیپ ٹاپ، ابو نے بائیک اور امی نے لان کا سوٹ مانگ لیا تو ایک اس کے مانگ کر کچھ لینے میں کیسی قباحت؟ خیر میں نے بات کا رخ بدلتے ہوئے بچی سے پوچھا کہ چھوڑو آپ کے پاس تو پہلے ہی اتنی اچھی سائیکل ہے، یہ بتاؤ کہ عید کے کپڑے کیسے بناؤ گی؟ بچی سے پہلے اس کی والدہ اٹھیں اور بتانے لگیں کہ وہ کل ہی شاپنگ کرکے آئیں ہیں اور جو کپڑے اور جوتے عید کیلئے خریدے گئے ہیں وہی کل ٹی وی شو میں پہنیں جائیں گے، کیونکہ شو کیلئے نئے کپڑے جوتوں کا پہنا جانا لازمی ہے۔
یہ سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میں نے مخاطب کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ 'کرنے والوں کو شاپنگ کا بہانہ چاہئیے'۔ اس پر انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ یہ بہانہ نہیں حقیقت ہے، اور شو کے پاس میرے سامنے دھر دئیے۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو یہ ایک نجی چینل کے مقبول شو کا پاس تھا۔ جس میں شامل ہونے والے کا نام اور کچھ شرائط و ضوابط درج تھے۔ اس میں اول شرط پر نگاہیں جم کر رہ گئیں۔ کچھ عجیب وغریب شرط تھی کہ،
کیا کوئی اب یہ بتائے گا کہ ٹرانسمیشن میں شرکت کا اچھے کپڑے اور جوتوں سے کیا تعلق؟ کیا اچھے کپڑے اور جوتوں کی کوئی تعریف وضع ہے؟ کیا کوئی خاص مالیت طے کرتی ہے کہ آپ کا پہناوا اچھا ہے یا بُرا؟ یوں بھی تو درج کیا جا سکتا تھا کہ صاف ستھرے لباس میں تشریف لائیں۔ جو کہ اصولی بھی ہے اور منطقی بھی، لیکن یہ اچھے کپڑوں اور جوتوں کے ضابطے نے واضح کردیا کہ ان ٹرانسمیشن کا مقصد عوام کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ پرکشش اور دلفریب ماحول بنا کر ریٹنگ اور اشتہارات کا حصول ہے۔
اگر یہ ٹرانسمیشن آپ کے چینل کی ضرورت ہے اور عوام بھی اس سے محظوظ ہورہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ حسن معاشرت اور سادگی کو نمایاں کرنے کے بجائے اس طرح کی سراسر دکھاوے اور بناوٹ کی شرائط کا اطلاق نہ کیجئے۔ یہ کون سا معیار ہے کہ شرکت اچھے کپڑے اور جوتوں سے مشروط ہو؟ معاشرے میں طبقاتی کشمکش اور مسابقت کی فضا کو ابھارنے کے بجائے سادگی اور رواداری کو نمایاں کیجئے۔
[poll id="1152"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس تمام عوامل نے صورت حال اس نہج تک پہنچا دی ہے کہ لوگ اب اس تگ و دو میں رہتے ہیں کہ کسی صورت ان پروگرامز میں جانے کا پروانہ مل جائے یعنی داخلہ پاس۔ ای میلز، واٹس اپ میسجز، فون کالز اور رجسٹریشن کیلئے پہلے سر توڑ کوشیشیں کی جاتی ہیں، اور ان سب سے بھی جب کام نہ بنے تو پاکستانی اپنا آخری حربہ آزماتے ہوئے جگاڑ یعنی مطلوبہ چینل میں تعلقات کھنگالتے ہیں کہ کوئی تو صورت بر آئے۔
پھر جب اس تمام تر جدوجہد کے بعد کوئی فرد پاس کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے تو باقاعدہ خاندان میں اطلاع دی جاتی ہے، ٹیکسٹ میسجیج فارورڈ ہوتے ہیں کہ کامیابی مقدر ٹھہری اور شان و شوکت کے ساتھ ہم بھی اس رمضان ٹرانسمیشن کا حصہ بنیں گے۔ ایسے ہی ایک اتفاق کا ہمیں بھی سامنا کرنا پڑا۔ جب ایک روز افطار کیلئے ہم خاندان میں ایک جگہ مدعو تھے۔ بعد افطار اہل خانہ کی ایک کم عمر بچی نے نہایت پر مسرت انداز میں بتایا کہ وہ بھی کل ایسے ہی ایک پروگرام میں شرکت کرنے والے ہیں اور میں بھی انکل سے پنک والی سائیکل مانگ کر لاؤں گیں۔ یہ بات سن کر ہمیں حیرت تو نہیں البتہ ناگواری ضرور محسوس ہوئی، کیونکہ معصوم بچے جو دیکھتے، سنتے ہیں وہ ہی جذب کرلیتے ہیں۔
جب بچہ یہ دیکھے گا کہ اسی کے ہم عمر نے اسی طرح مانگ کر اپنی من پسند شے حاصل کی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ باجی نے سونے کی انگوٹھی، بھائی نے لیپ ٹاپ، ابو نے بائیک اور امی نے لان کا سوٹ مانگ لیا تو ایک اس کے مانگ کر کچھ لینے میں کیسی قباحت؟ خیر میں نے بات کا رخ بدلتے ہوئے بچی سے پوچھا کہ چھوڑو آپ کے پاس تو پہلے ہی اتنی اچھی سائیکل ہے، یہ بتاؤ کہ عید کے کپڑے کیسے بناؤ گی؟ بچی سے پہلے اس کی والدہ اٹھیں اور بتانے لگیں کہ وہ کل ہی شاپنگ کرکے آئیں ہیں اور جو کپڑے اور جوتے عید کیلئے خریدے گئے ہیں وہی کل ٹی وی شو میں پہنیں جائیں گے، کیونکہ شو کیلئے نئے کپڑے جوتوں کا پہنا جانا لازمی ہے۔
یہ سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میں نے مخاطب کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ 'کرنے والوں کو شاپنگ کا بہانہ چاہئیے'۔ اس پر انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ یہ بہانہ نہیں حقیقت ہے، اور شو کے پاس میرے سامنے دھر دئیے۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو یہ ایک نجی چینل کے مقبول شو کا پاس تھا۔ جس میں شامل ہونے والے کا نام اور کچھ شرائط و ضوابط درج تھے۔ اس میں اول شرط پر نگاہیں جم کر رہ گئیں۔ کچھ عجیب وغریب شرط تھی کہ،
''شو میں شرکت کیلئے اچھے کپڑے اور جوتے پہن کر آئیں، اچھے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا جائے گا''۔
کیا کوئی اب یہ بتائے گا کہ ٹرانسمیشن میں شرکت کا اچھے کپڑے اور جوتوں سے کیا تعلق؟ کیا اچھے کپڑے اور جوتوں کی کوئی تعریف وضع ہے؟ کیا کوئی خاص مالیت طے کرتی ہے کہ آپ کا پہناوا اچھا ہے یا بُرا؟ یوں بھی تو درج کیا جا سکتا تھا کہ صاف ستھرے لباس میں تشریف لائیں۔ جو کہ اصولی بھی ہے اور منطقی بھی، لیکن یہ اچھے کپڑوں اور جوتوں کے ضابطے نے واضح کردیا کہ ان ٹرانسمیشن کا مقصد عوام کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ پرکشش اور دلفریب ماحول بنا کر ریٹنگ اور اشتہارات کا حصول ہے۔
اگر یہ ٹرانسمیشن آپ کے چینل کی ضرورت ہے اور عوام بھی اس سے محظوظ ہورہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ حسن معاشرت اور سادگی کو نمایاں کرنے کے بجائے اس طرح کی سراسر دکھاوے اور بناوٹ کی شرائط کا اطلاق نہ کیجئے۔ یہ کون سا معیار ہے کہ شرکت اچھے کپڑے اور جوتوں سے مشروط ہو؟ معاشرے میں طبقاتی کشمکش اور مسابقت کی فضا کو ابھارنے کے بجائے سادگی اور رواداری کو نمایاں کیجئے۔
[poll id="1152"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔