وزیراعظم نے این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کیخلاف 17 ممالک کو خط لکھےمشیر خارجہ
خارجہ پالیسی کی تشکیل کیلئےکوئی ڈکٹیشن نہیں لیتےتاہم امریکاکی طرح سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سےپالیسی تیارکی جاتی ہے
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کے خلاف 17 ممالک کے وزرائے اعظم کو خطوط لکھے ہیں جو کہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اسلام آباد میں سینیئر اینکر پرسنز اور ایڈیٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے مشیر خارجہ نے کہا کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لیے کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیتے تاہم امریکا کی طرح سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سے خارجہ پالیسی تیار کی جاتی ہے۔
پاک افغان سرحدی کشیدگی سے متعلق سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ کا تنازع طے کرنا ہے،اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز ملیں گے۔ بارڈر مینجمنٹ کے لیے پاکستان نے لائحہ عمل بنایا ہے،جس کے تحت بارڈر کے قریب رہنے والے لوگوں کے لیے ویزے کی پابندی نہیں ہوگی تاہم دیگر لوگوں کو ویزے کے بغیر نہیں آنے دیا جائے گا۔ افغان امن مزاکرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ مستقبل میں امن مذاکرات انتہائی کٹھن ہوں گے کیونکہ کچھ افغان طالبان دھڑے امن مذاکرات کے حامی جب کہ کچھ مخالف ہیں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ بنگلادیش میں سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں دیے جانے کے معاملے پر ہمیں تحفظات ہیں، انسانی حقوق کے اداروں نے بھی ان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ تعلقات میں اب کوئی مسئلہ نہیں، ایران کے ساتھ جو غلط فہمی پیدا ہوئی وہ ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات میں کلیئر ہوگیا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں چاہتا لیکن کشمیر کےمعاملے پر ہم بھارتی ڈکٹیشن نہیں لیں گے، کلبھوشن یادیو کے خلاف ڈوزیئر تیارکررہے ہیں، اس کا نیٹ ورک مکمل طور پر بے نقاب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تحقیقات مکمل ہوتے ہی اس کے خلاف دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔ این ایس جی کی رکنیت سے متعلق انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کے خلاف 17 ممالک کے وزرائے اعظم کو خطوط لکھے ہیں جو کہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اسلام آباد میں سینیئر اینکر پرسنز اور ایڈیٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے مشیر خارجہ نے کہا کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لیے کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیتے تاہم امریکا کی طرح سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سے خارجہ پالیسی تیار کی جاتی ہے۔
پاک افغان سرحدی کشیدگی سے متعلق سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ کا تنازع طے کرنا ہے،اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز ملیں گے۔ بارڈر مینجمنٹ کے لیے پاکستان نے لائحہ عمل بنایا ہے،جس کے تحت بارڈر کے قریب رہنے والے لوگوں کے لیے ویزے کی پابندی نہیں ہوگی تاہم دیگر لوگوں کو ویزے کے بغیر نہیں آنے دیا جائے گا۔ افغان امن مزاکرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ مستقبل میں امن مذاکرات انتہائی کٹھن ہوں گے کیونکہ کچھ افغان طالبان دھڑے امن مذاکرات کے حامی جب کہ کچھ مخالف ہیں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ بنگلادیش میں سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں دیے جانے کے معاملے پر ہمیں تحفظات ہیں، انسانی حقوق کے اداروں نے بھی ان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ تعلقات میں اب کوئی مسئلہ نہیں، ایران کے ساتھ جو غلط فہمی پیدا ہوئی وہ ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات میں کلیئر ہوگیا ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں چاہتا لیکن کشمیر کےمعاملے پر ہم بھارتی ڈکٹیشن نہیں لیں گے، کلبھوشن یادیو کے خلاف ڈوزیئر تیارکررہے ہیں، اس کا نیٹ ورک مکمل طور پر بے نقاب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تحقیقات مکمل ہوتے ہی اس کے خلاف دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔ این ایس جی کی رکنیت سے متعلق انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کے خلاف 17 ممالک کے وزرائے اعظم کو خطوط لکھے ہیں جو کہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔