ہمارے نو دولتئے
گلی کوچوں اور فٹ پاتھوں پر شاپنگ کرنے والے پاکستانیوں کا دل پشوری کرنے یا جلانے کے لیے
کوئی دن ایسا بھی تو ہونا چاہیے جب ہم قارئین کرام کو زیادہ نہیں تو ایک دن کی چھٹی دے دیں تاکہ وہ اپنے دل و دماغ کو آسودہ رکھ کر یہ دن گزار لیں ورنہ کسی پاکستانی کے ذہن کو پریشان بلکہ پراگندہ کرنے کے ہر اخبار کے ہر صفحے میں ایک سے زیادہ ایسی خبریں ہوتی ہیں جو ہم خبر نویس چن کر لاتے ہیں تاکہ آپ کے دل و دماغ کو ذرا ہلا جلا کر دیکھیں کہ آپ جو سوچتے ہیں وہ کرتے کیوں نہیں اور جو کرتے ہیں وہ اس سے پہلے سوچتے کیوں نہیں۔ ہمارے کرنے اور سوچنے میں جو فرق ہے وہ ہمیں پریشان رکھتا ہے یہ ان پریشانیوں میں سے ایک ہے جو ہم نے خود پیدا کر رکھی ہیں کہ بے کار مباش کچھ کیا کر۔
ہماری یہ پریشانیاں چند ایک تو وہ ہیں جو ہم اپنے لیڈروں اور بڑے لوگوں کو دنیا کے بڑے شہروں کے بڑے بڑے اسٹوروں میں شاپنگ کرتے دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہمارے زخموں پر نمک یوں چھڑکا جاتا ہے کہ یہ لندن یا کسی دوسرے بڑے شہر کا مہنگا ترین اسٹور ہے۔ یہ فقرہ شاپنگ کی تصویر کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔
گلی کوچوں اور فٹ پاتھوں پر شاپنگ کرنے والے پاکستانیوں کا دل پشوری کرنے یا جلانے کے لیے۔ شروع شروع میں میرا دل بھی بہت جلتا تھا لیکن بعد میں جب رفتہ رفتہ مجھے ان مہنگے ترین اسٹوروں کو ان کے اندرچل پھر کر دیکھنے کا موقع ملا تو میری جلن کچھ کم ہو گئی کیونکہ ان کی متعدد اشیاء کی قیمت بازار سے زیادہ نہیں تھی صرف وہ چیزیں مہنگی تھیں جو کم بکتی تھیں اور ذرا سلیقے سے پیک کی جاتی تھیں کہ گاہک ان کی پیکنگ دیکھ کر ہی جھوم جاتا تھا۔ میں لندن میں اور اس کے مبینہ مہنگے اسٹوروں میں کئی بار لٹ چکا لیکن جب مرحوم برادرم رزاق نے مجھے اپنی تحویل میں لے لیا تو میرے لٹنے کا سلسلہ بند ہو گیا۔
میری ضرورت اور شوق کی تمام اشیاء وہ میرے لیے خرید کر لیتے تھے لیکن چند اشیا کی خریداری وہ ملتوی کر دیتے اور جب میں انھیں یاد دلاتا تو مجھے اشارے سے چپ کرا دیتے اور پھر یہی اشیا کسی مناسب وقت پر میرے پاس ہوتیں۔ بھائی رزاق کے پاکستانی رئیس مہمان آنکھیں بند کر کے شاپنگ کرتے اور اس پر انھیں جن اشیا پر رعایت ملتی وہ میری چیزیں بھی اس فہرست میں شامل کر دیتے اور مناسب قیمت پر وہ مجھے مل جاتیں اور جب میں پاکستانی رؤسا کے سامنے انھیں استعمال کرتا تو وہ میری خوشحالی پر تعجب کرتے۔
میں آپ کو لندن کے بعض مشہور اسٹوروں کا بتاتا ہوں۔ میں ایک بار لندن کے مرکزی علاقے میں ایک فلیٹ میں مقیم تھا جو پاکستانی سفارت خانے نے مجھے الاٹ کیا تھا۔ ایک بار پاکستانی سفیر میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں مقیم ہو اور جب میں نے بتایا تو وہ کہنے لگے اتنی گندی جگہ پر اور پھر جب میں نے ان کے سفارت خانے کی اس عنایت کا ذکر کیا تو وہ صرف یہ کہہ سکے کہ دیکھتے ہیں کوئی اچھی سی جگہ۔ بڑے اسٹور جن کا ہم پر رعب ڈالا جاتا ہے ان میں سے ایک اسٹور ہیرلڈ تو میری رہائش کے قریب تھا۔ ایک پاکستانی نے بتایا کہ تم ناشتہ اس اسٹور میں کیا کرو سستا پڑتا ہے چنانچہ یہی ہوا اور میرا بھرپور ناشتہ میرے لنچ سمیت ہونے لگا اور اس اسٹور کا افریقی بیرا مجھ پر مہربان ہو گیا یہ کہہ کر کہ ہم ایک جیسے ہی ہیں۔
ان اسٹوروںمیں ورائٹی بہت ہوتی ہے جو ہمارے جیسے گاہک کا سر چکرا دیتی ہے۔ لیکن چند دنوں میں سیل بھی لگ جاتی ہے صرف اسٹور کی حد تک۔ یہ اسٹور مثلاً 'ہیرلڈ' دنیا بھر میں مشہور ہے اور ہمارے نو دولتئے یہاں شاپنگ کے لیے ضرور جاتے ہیں۔ اسٹور کے سیلز مین ان کو خوب لوٹتے ہیں۔ میں پاکستان لوٹتے وقت ایک بار اس اسٹور میں گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بند ہے۔
تعجب ہوا اور پتہ چلا کہ کسی عرب ملک سے کچھ گاہک آنے والے ہیں ان کے اعزاز میں اور ان کی سہولت کے لیے اسٹور آج عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے کل کھلے گا۔ نپولین انگریزوں کو دکاندار کہا کرتا تھا اس کی ایک مثال کا حوالہ دیا ہے کہ چند اہم گاہکوں کے لیے انھوں نے اپنا سب سے بڑا اسٹور بند کر دیا جس کی ایک روزہ بندش بھی خبر بن گئی۔ یہی اسٹور ہے جہاں ہمارے رؤسا شاپنگ کرتے ہیں تو اس کی خبر بھی چھپواتے ہیں اور ہیرلڈ لندن میں شاپنگ ایک خبر ہی تو ہے۔ جہاں کوئی نو دولتیا ایک بار شاپنگ کرلے تو وہ اسے اپنی زندگی کا بڑا واقعہ سمجھتا ہے بلکہ میرے جیسا فقرا وہاں سے اپنی روز مرہ کی اشیا خریدتا تھا کہ نزدیک ترین اسٹور یہی تھا۔ اس سے کسی نو دولتئے کی توہین مقصود نہیں۔