جاگتے رہو
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف دل کے آپریشن کے بعد بحالی صحت کے مراحل طے کرنے میں مصروف ہیں جب کہ دوسری جانب ہمارے ازلی دشمن بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سفارتی محاذ پر انتہائی سرگرم عمل ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب، ایران اور قطر وغیرہ کے کامیاب دوروں کے بعد انھوں نے ہمارے سرپرست اعلیٰ امریکا کا رخ کیا جہاں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ جہاں تک امریکا کے ساتھ ہماری دوستی کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے اس کے علاوہ بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
دیکھا جو کھا کے تیرکمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکا کو جب بھی بھی ہماری ضرورت پیش آتی ہے وہ بڑی آسانی سے ہمیں قربانی کا بکرا بنا دیتا ہے اور پھر جب اس کا کام نکل جاتا ہے تو نوبت 'رات گئی بات گئی' تک جا پہنچتی ہے۔ مطلب نکل جانے کے بعد ہمیں ٹھینگا دکھا دینا ،امریکا کی پرانی عادت ہے۔ ہمارے یہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن امریکا نوازی کی ہماری پالیسی جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔
گزشتہ دو برس کے عرصے میں بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کی یہ چوتھی امریکا یاترا تھی جس کے دوران ان کی بڑی زبردست پذیرائی ہوئی۔ امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ان کی ساتویں مرتبہ ملاقات ہوئی جو تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے بعد امریکی صدر نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) میں بھارت کی شمولیت کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکنالوجیز بھارت کی ترقی کے لیے بڑی اہم ہیں۔
امریکی ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بنجمن رہوڈز نے کہا کہ امریکا بھارت کی NSG میں شمولیت اس لیے چاہتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کا یہ ملک ایک ''اچھی'' نیوکلیئر ریاست ثابت ہوگا۔ صدر اوباما اور مودی کی اس طویل ملاقات میں بھارت کے وسیع تر مفادات سے متعلق موضوعات پر سیر حاصل تبادلہ خیال ہوا جس میں سرمایہ کاری کا فروغ، بھارتی شہریوں کے لیے امریکا میں زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کی فراہمی اور تجارت میں اضافے جیسے اہم معاملات شامل تھے۔
امریکا کی بھارت نوازی کا عالم یہ ہے کہ اس نے چین کو بھی اسی بات پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ NSG میں شمولیت کے لیے بھارت کی درخواست کو ویٹو نہ کرے۔ لیکن بھارت این ایس جی میں شمولیت سے محروم رہا، چین نے اپنا موقف نہیں بدلا ۔ بھارت کے خواب بکھر گئے، نریندر مودی نے اپنی ودیش یاتراؤں میں میکسیکو اور سوئٹزرلینڈ کو بھی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے شامل کرلیا۔ امریکی صدر اور بھارتی پردھان منتری کی باڈی لینگویج سے صاف ظاہر تھا کہ دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات کتنی کامیاب تھی۔
بھارت کی اس جارحانہ ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کا فوری اور سنجیدگی سے نوٹس لینا ایک فطری امر تھا۔ چناں چہ 7 جون کو سینیٹ کے اجلاس میں شریک ارکان نے حکومت سے برملا مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ڈپلومیٹک ناکامیابیوں کا فوری نوٹس لے اور بلاتاخیر ان کی اصلاح کرے۔ سینیٹ کے ارکان نے بھارت کے حالیہ Intercept میزائل ٹیسٹ پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ سینیٹ کے ارکان نے افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ مشاہد حسین سید جو سینیٹ کی ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں ایوان کی توجہ بھارت اور امریکا کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کی جانب دلائی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ڈپلومیسی ناکام ہوگئی اور اگر بھارت NSG کا ممبر بن گیا تو وہ گروپ میں شمولیت کے لیے پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکائے گا۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا تھا کہ ہم ایران اور افغانستان سے بھی کٹ گئے ہیں اور یہ ممالک اب بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ بھارت کے 15 مئی کے حالیہ میزائل ٹیسٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں ہمیں ایک لامتناہی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونا پڑے گا۔ بھارت کے مکروہ عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے قومی یکجہتی کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔
پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا استدلال تھا کہ ہماری سیاسی قیادت کو اب جاگ جانا چاہیے اور اپنی سیکیورٹی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے ان کی درستی کرنی چاہیے۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران بھارت کو اڈے مہیا کرنے کے لیے بھی تیار ہوگیا ہے جوکہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو امریکا نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔
بھارتی وزیر اعظم جب امریکی صدر سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچے تو وہاں ان کا بڑا شاندار استقبال کیا گیا اور انھیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ اوباما نے مودی کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ اپنے دوست وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک بار پھر اوول آفس میں خوش آمدید کہنا میرے لیے باعث مسرت ہے۔ اوباما اور مودی نے بھارت میں چھ جوہری ری ایکٹروں پر ابتدائی کام کے آغاز کا بھی خیر مقدم کیا۔ دونوں سربراہان نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ مکمل ہوجانے پر یہ منصوبہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہوگا۔ جس سے کوئلے کے ایندھن پر انحصار میں بڑی حد تک کمی لانے میں مدد ملے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جس سے امریکا کی بہت پرانی یاری ہے وہ آج تک امریکا کی ایسی نظر کرم سے محروم ہے حالانکہ اسے توانائی کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے۔
پاکستان کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کی یہ زبردست بھارت نوازی وطن عزیز کے ساتھ کھلم زیادتی اور ''دکھ جھیلیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں'' والی کہاوت کے مصداق ہے جس پر پوری پاکستانی قوم کو بڑا دکھ اور افسوس ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قومی قیادت اور انفرادی سطح پر آج بھی امریکا کی خوش آمد سے باز نہیں آرہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم امریکا کی ذہنی غلامی سے جلد ازجلد چھٹکارا حاصل کریں اور اپنا قبلہ بلا تاخیر درست کریں۔
وطن عزیز اس وقت جن سنگین حالات سے گزر رہا ہے ان کا تقاضا بس یہی ہے کہ اندرون ملک منفی قوتوں کی سرگرمیوں اور خطے میں ہونے والی دوررس تبدیلیوں پر ہر وقت کڑی نظر رکھی جائے اور جاگتے رہو کی پالیسی پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا رہے۔