جواب کون دے گا
گزشتہ دنوں ایک افطار پارٹی بلاول ہاؤس میں منعقد کی گئی۔
رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جو مسلمانوں کو نظم وضبط، نفس کی نفی، اعلیٰ اقدارکے فروغ اور احکام الٰہی کی تقلید کی باقاعدہ تربیت دیتا ہے بھوک لگ رہی ہے، پیاس کی شدت سے انسان بے حال ہے، مگر مجال ہے مقررہ وقت سے پہلے ایک لقمہ بھی منہ میں ڈال لے، اکثر تو ایسے لوگ بھی دیکھے گئے ہیں کہ انتہائی خراب طبیعت کے باوجود جب کہ ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا ہو کہ روزہ نہ رکھیں یا روزہ توڑ دیں مگر انھوں نے روزہ توڑنا گوارا نہیں کیا۔ نہ ہی پایہ استقلال میں کوئی کمی واقع ہوئی کیونکہ روزہ انسان کو نفس پرستی نہیں بلکہ نفس کی نفی کرنا اور اطاعت اللہ کی تعلیم دیتا ہے مگر اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کہیں افطار پارٹی ہو یا ایسی جگہ جہاں مفت میں کوئی سامان ملنے کی نوید ہو وہاں لوگ سارے احکام الٰہی کو بھول جاتے ہیں اور صرف نفس کی آواز پر کان دھرتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک افطار پارٹی بلاول ہاؤس میں منعقد کی گئی۔ اس کا مقصد خواتین کارکنوں کی خدمات کو سراہنا اور آصفہ بختاور کا خواتین کارکنوں سے رابطہ کرنا تھا۔ جہاں کراچی کے مختلف علاقوں کے عہدیداران اپنی اپنی ٹیم کو لے کر پہنچے۔ پیپلز پارٹی اس وقت نازک دور سے گزر رہی ہے اس وقت پارٹی کو مضبوط کرنے اور تنظیم نو کے لیے نوجوان قیادت سامنے آرہی ہے بلاول، آصفہ اور بختاور اپنی ماں بے نظیر بھٹو کا پرتو ہیں آج بھی بے نظیر کے نام پر لوگوں کو روتے اور بین کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
بے شک آصف زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کو سنبھالنے میں معاون و مددگار ہیں اور شریک چیئرمین کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں مگر عوام جس طرح والہانہ محبت بے نظیر کے بچوں سے کرتے ہیں زرداری سے نہیں۔ بیشتر کارکنوں کو امید ہے کہ بلاول اپنی قیادت کے ذریعے پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دیں گے اور آج بھی یہ نعرہ گونج اٹھے گا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر... بے نظیر بے نظیر! اسی سوچ کو لیے ہوئے آصفہ اور بختاور اس افطار پارٹی میں خواتین کارکنوں سے گھل مل گئیں انھوں نے اپنے گارڈز کے حفاظتی حصار کو توڑ کر خواتین سے معانقہ اور مصافحہ کیا مگر اس دوران بدنظمی اور تربیت کی انتہائی کمی دیکھی گئی۔
خواتین نے ہلہ بول دیا اور چاروں طرف سے دیوانہ وار ان پر نچھاور ہونے لگیں اکثر خواتین نے نعرے لگائے اور بے نظیر کو مجسم ان کی بیٹیوں کی شکل میں دیکھ کر اپنے آنسو ضبط نہ کرسکیں یہ ان کی محبت کا عالم تھا مگر اس محبت نے ان دونوں کا حشر خراب کردیا ۔ مجال ہے جو ان کے ماتھے پر شکن آئی ہو ایک موقع پر تو جب ان کے گارڈز نے خواتین کی بدنظمی دیکھ کر روکا تو انھوں نے گارڈز کو ڈانٹ کر خواتین کے جلوس میں گھس گئیں اور بغیر گھبرائے یا کراہیت کا مظاہرہ کیے لوگوں سے ملتی رہیں یہ نوجوان قیادت اگر روایتی ہتھکنڈوں سے دور رہ کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کرے تو آج بھی پیپلز پارٹی سندھ سے نکل کر چاروں صوبوں میں اپنے قدم جماسکتی ہے کیونکہ ووٹرز آج بھی بے نظیر بھٹو کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں کے معترف نظر آتے ہیں۔
مگر پھر وہی بات کہ بحیثیت مسلمان ہم کسی تقریب میں جاکر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے فرائض کیا ہیں کارکنوں کی تربیت ضروری ہے جیساکہ یہاں بھی دیکھا گیا کہ انتظامیہ افراتفری دیکھنے میں آئی کہیں روزہ داروں کو کچھ نہ ملا تو کہیں بے روزہ دار محفل لوٹ کر لے گئے ، اگرکسی کو کچھ نہ ملے مگر یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ لوٹ لو جو مل جائے پتا نہیں پھر ملے یا نہ ملے۔
روزہ تو دینے کا نام ہے خوشیاں بانٹنے کا نام ہے، بھوک پیاس کی تکلیف اٹھا کر دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کا نام ہے کسی سے چھیننے کا نام نہیں، مگر جیسے عوام ویسے حکمران والی بات صحیح ہے آج ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں جنھیں عوام کی بھلائی، فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ انھیں صرف اپنی فلاح سے مطلب ہے۔ اسمبلی میں ایسی قراردادیں فوراً منظور ہوجاتی ہیں جن میں ارکان کے اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں پھر نہ تو اپوزیشن، اپوزیشن رہتی ہے اور نہ ہی حکومتی ارکان الگ کوئی مخلوق۔ سب شیر و شکر ہوکر اپنے مفادات سے متعلق قراردادوں کو منظور کرلیتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پاس ہوا کسی نے نہ کہا کہ یہ اضافہ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے اس سے جمہوریت کو خطرہ ہے اس کی جگہ کوئی فلاحی منصوبہ سامنے لایا جائے مگر نہ جی! سب نے مل کر اس پر دستخط کردیے۔
نہ تو عمران خان کچھ بولے نہ ہی کسی اور پارٹی نے لب کھولے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نہ ان کو یہ کہتے ہوئے خجالت محسوس ہوئی کہ دال مہنگی ہے تو کیا ہوا، چکن کھاؤ! کیونکہ پولٹری فارمز ان کے ہیں سارے ٹیکس ان پر معاف ہیں عوام چکن کھائے تو فائدہ ان کا ہوگا اربوں کھربوں کی رقم پھر آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک بھیج دیے جائیں گے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ابھی تک اپوزیشن اور حکومت میں ٹی او آرز پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ کون ایک دوسرے کا احتساب کرے گا؟ یہاں تو سب ایک جیسے ہیں۔ پاکستان عالمی برادری میں تنہا کھڑا ہے مگر وزیر اعظم اپنی صحت کے مسئلے کو لے کر باہر پڑے ہیں ملک چلائے تو کون چلائے؟ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے پیسہ چند ہاتھوں میں قید ہوکر رہ گیا ہے اس کا جواب کون دے گا؟
گزشتہ دنوں ایک افطار پارٹی بلاول ہاؤس میں منعقد کی گئی۔ اس کا مقصد خواتین کارکنوں کی خدمات کو سراہنا اور آصفہ بختاور کا خواتین کارکنوں سے رابطہ کرنا تھا۔ جہاں کراچی کے مختلف علاقوں کے عہدیداران اپنی اپنی ٹیم کو لے کر پہنچے۔ پیپلز پارٹی اس وقت نازک دور سے گزر رہی ہے اس وقت پارٹی کو مضبوط کرنے اور تنظیم نو کے لیے نوجوان قیادت سامنے آرہی ہے بلاول، آصفہ اور بختاور اپنی ماں بے نظیر بھٹو کا پرتو ہیں آج بھی بے نظیر کے نام پر لوگوں کو روتے اور بین کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
بے شک آصف زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کو سنبھالنے میں معاون و مددگار ہیں اور شریک چیئرمین کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں مگر عوام جس طرح والہانہ محبت بے نظیر کے بچوں سے کرتے ہیں زرداری سے نہیں۔ بیشتر کارکنوں کو امید ہے کہ بلاول اپنی قیادت کے ذریعے پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دیں گے اور آج بھی یہ نعرہ گونج اٹھے گا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر... بے نظیر بے نظیر! اسی سوچ کو لیے ہوئے آصفہ اور بختاور اس افطار پارٹی میں خواتین کارکنوں سے گھل مل گئیں انھوں نے اپنے گارڈز کے حفاظتی حصار کو توڑ کر خواتین سے معانقہ اور مصافحہ کیا مگر اس دوران بدنظمی اور تربیت کی انتہائی کمی دیکھی گئی۔
خواتین نے ہلہ بول دیا اور چاروں طرف سے دیوانہ وار ان پر نچھاور ہونے لگیں اکثر خواتین نے نعرے لگائے اور بے نظیر کو مجسم ان کی بیٹیوں کی شکل میں دیکھ کر اپنے آنسو ضبط نہ کرسکیں یہ ان کی محبت کا عالم تھا مگر اس محبت نے ان دونوں کا حشر خراب کردیا ۔ مجال ہے جو ان کے ماتھے پر شکن آئی ہو ایک موقع پر تو جب ان کے گارڈز نے خواتین کی بدنظمی دیکھ کر روکا تو انھوں نے گارڈز کو ڈانٹ کر خواتین کے جلوس میں گھس گئیں اور بغیر گھبرائے یا کراہیت کا مظاہرہ کیے لوگوں سے ملتی رہیں یہ نوجوان قیادت اگر روایتی ہتھکنڈوں سے دور رہ کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کرے تو آج بھی پیپلز پارٹی سندھ سے نکل کر چاروں صوبوں میں اپنے قدم جماسکتی ہے کیونکہ ووٹرز آج بھی بے نظیر بھٹو کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں کے معترف نظر آتے ہیں۔
مگر پھر وہی بات کہ بحیثیت مسلمان ہم کسی تقریب میں جاکر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے فرائض کیا ہیں کارکنوں کی تربیت ضروری ہے جیساکہ یہاں بھی دیکھا گیا کہ انتظامیہ افراتفری دیکھنے میں آئی کہیں روزہ داروں کو کچھ نہ ملا تو کہیں بے روزہ دار محفل لوٹ کر لے گئے ، اگرکسی کو کچھ نہ ملے مگر یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ لوٹ لو جو مل جائے پتا نہیں پھر ملے یا نہ ملے۔
روزہ تو دینے کا نام ہے خوشیاں بانٹنے کا نام ہے، بھوک پیاس کی تکلیف اٹھا کر دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کا نام ہے کسی سے چھیننے کا نام نہیں، مگر جیسے عوام ویسے حکمران والی بات صحیح ہے آج ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں جنھیں عوام کی بھلائی، فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔ انھیں صرف اپنی فلاح سے مطلب ہے۔ اسمبلی میں ایسی قراردادیں فوراً منظور ہوجاتی ہیں جن میں ارکان کے اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں پھر نہ تو اپوزیشن، اپوزیشن رہتی ہے اور نہ ہی حکومتی ارکان الگ کوئی مخلوق۔ سب شیر و شکر ہوکر اپنے مفادات سے متعلق قراردادوں کو منظور کرلیتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پاس ہوا کسی نے نہ کہا کہ یہ اضافہ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے اس سے جمہوریت کو خطرہ ہے اس کی جگہ کوئی فلاحی منصوبہ سامنے لایا جائے مگر نہ جی! سب نے مل کر اس پر دستخط کردیے۔
نہ تو عمران خان کچھ بولے نہ ہی کسی اور پارٹی نے لب کھولے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نہ ان کو یہ کہتے ہوئے خجالت محسوس ہوئی کہ دال مہنگی ہے تو کیا ہوا، چکن کھاؤ! کیونکہ پولٹری فارمز ان کے ہیں سارے ٹیکس ان پر معاف ہیں عوام چکن کھائے تو فائدہ ان کا ہوگا اربوں کھربوں کی رقم پھر آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک بھیج دیے جائیں گے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ابھی تک اپوزیشن اور حکومت میں ٹی او آرز پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ کون ایک دوسرے کا احتساب کرے گا؟ یہاں تو سب ایک جیسے ہیں۔ پاکستان عالمی برادری میں تنہا کھڑا ہے مگر وزیر اعظم اپنی صحت کے مسئلے کو لے کر باہر پڑے ہیں ملک چلائے تو کون چلائے؟ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے پیسہ چند ہاتھوں میں قید ہوکر رہ گیا ہے اس کا جواب کون دے گا؟