ناک میں مرغی کے پر…آدھا ادھر آدھا ادھر
جب مرغی کڑک ہوجاتی ہے اور عرصہ لمبا ہوجاتا ہے تو اس کی ناک میں پر ڈالا جاتا ہے
جب مرغی کڑک ہوجاتی ہے اور عرصہ لمبا ہوجاتا ہے تو اس کی ناک میں پر ڈالا جاتا ہے جو آدھا ادھر اور آدھا ادھر ہوتا ہے۔ اس طرح مرغی دوبارہ انڈوں پر آجاتی ہے۔ دنیا کی امن و امان کی صورت حال پر نظر ڈالیے لگتا ہے قانون کی حکمرانی کڑک ہوگئی ہے۔ کڑکنا ہی کڑکنا۔ فائدہ نہ حاصل۔ سوال یہ ہے کہ کیا میزان عدل میں پاسنگ آگیا ہے؟ ایک پلڑے میں بلا تفریق انصاف اور دوسرے پلڑے میں بلا تاخیر سزا برابر برابر نہیں ہے؟ کہاں ڈنڈی ماری جا رہی ہیں آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
معاشرے میں اکثریت اخلاقی جرائم کی ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سڑک چھاپ جرائم (Street Crimes) آتے ہیں اور آخر میں گھناؤنے جرائم جیسے قتل، زنا وغیرہ۔ قتل دو قسم کے ہوتے ہیں اول حالت اشتعال، طیش اور غصہ ہیں۔ دوم منصوبہ بندی کے تحت۔ مغربی معاشرے میں بظاہر قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں خوشحالی نظر آتی ہے لیکن دو باتیں نمایاں ہیں۔ وہاں اخلاقی جرائم (جن کی اکثریت ہوتی ہے) کے خلاف مزاحمت کے بجائے ان کو گود لے لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قانون مجرم نواز اور معاشرہ جرائم پرور بن گیا ہے۔
مثلاً A۔ معاہدے عمرانی میں شادی میاں بیوی کے درمیان ہونے والا سب سے مقدس اور اہم ترین معاہدہ ہے۔ اس کی غایت یہ ہے کہ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے عورت اکیلی نہ رہ جائے بلکہ یہ اہم فریضہ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کے زیر سایہ تکمیل پائے۔ تاکہ انسان دوست، پڑھا لکھا، مہذب فرد معاشرے میں شامل ہوسکے، لیکن مغربی معاشرے میں اس کی جو درگت بن رہی ہے ملاحظہ کیجیے۔
بالغ مرد عورت کو جن کو آنے والی نسل کی پرورش کرنا ہے بغیر شادی کیے بندھن میں بندھے منہ بولے میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنے اور بچے جننے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ نتیجتاً آج ہر دوسرے گھر سے منہ بولی بیوی کی کچھ اس قسم کی صدا سننے کو ملتی ہے ''ذرا بچوں کو ڈانٹ پلائیے پلیز! آپ کے بچے اور میرے بچے مل کر ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں۔'' ماضی میں مغربی معاشرے میں عورت کی عمر اور مرد کی آمدنی دریافت کرنا بداخلاقی شمار ہوتی تھی آج اگر کسی سے اس کے والد کا نام پوچھا جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے ماں کی گالی دے دی۔
جب کہ ہم جنس پرستوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے، تاکہ ان کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ مہیا کیا جاسکے اور وہ دودھوں نہائیں اور پوتوں پھلیں۔
B۔ سڑک چھاپ کرائمز (اسٹریٹ کرائمز) ہر انسان کے اندر ایک درندہ چھپا رہتا ہے جو مناسب موقعہ ملے تو باہر آتا ہے اور ایسے کارنامے انجام دیتا ہے کہ انسانیت کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ امریکا کے کسی بھی گنجان آباد شہر میں اگر اچانک بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوجائے اور تاریکی چھا جائے تو تہذیب یافتہ معاشرے کی اخلاق باختگی سڑکوں پر کھلے عام برہنہ رقص کرنے لگتی ہے۔ دکانوں کے شیشے توڑ کر لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے اس وقت سڑک پر موجود اکیلی خواتین کی کھلے عام بے حرمتی کی جاتی ہے۔ مزاحمت پر بات تشدد اور قتل تک پہنچ جاتی ہے۔
C۔ نیویارک کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سے گزرتے وقت پرس میں لازمی کچھ رقم رکھنا پڑتی ہے۔ کیونکہ کسی سڑک چھاپ مجرم (اسٹریٹ کریمنل) نے روک لیا اور پرس خالی پایا تو پہلے ایک جھانپڑ رسید کرے گا اور پوچھے گا ''کیا ہم تمہارے باپ کے نوکر ہیں جو یہاں جھک مارنے کھڑے ہیں۔'' پھر دوسرا جھانپڑ رسید کرکے کہے گا ''دفع ہوجاؤ آیندہ خیال کرنا۔'' دفع ہوتے وقت اس کی رینج سے نکلنے تک احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اگر وہ کچھ زیادہ ہی اخلاق باختہ ہوا تو پیچھے سے آپ کی تشریف پر ایک کک بھی رسید کرسکتا ہے۔
D ۔ تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ ایک انسان کا قتل دراصل انسانیت کا قتل ہوتا ہے، لیکن مغربی مہذب لوگ پھانسی کی سزا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرے کے احمق بھی Ph.D لیول کے ہی ہوتے ہیں پاکستان کی طرح نان میٹرک نہیں۔
اب ذرا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت پر ایک نظر۔ ملک میں سیکولر نظام قانون نافذ ہے اور ملک کا وزیر اعظم کٹر انتہا پسند فرقہ پرست تنظیم RSS کا عقیدت مند ہے۔ میزان عدل کا ایک پلڑا جس میں ہندومت ہے زمین پر ٹکا ہوا ہے اور دوسرا پلڑا جس میں سیکولرازم ہے فضا میں معلق جھول رہا ہے۔ ایسے میں قانون کی حکمرانی کڑک نہیں ہوگی توکیا ہوگی؟ دعا کیجیے نریندر مودی پانچ سال اور رہ جائے۔ جو کام پچیس سال میں ہوتا ہے وہ پانچ سال میں ہوجائے گا۔ (1)۔ سیکولرازم کا خاتمہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے۔ (2)۔ کشمیر پاکستان کی جھولی میں۔
یکایک میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کیا روئے زمین پر ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہاں مثالی قانون کی حکمرانی ہو۔ سعودی عرب سامنے آگیا۔ ''میں ہوں نا!''
جب بھی ہم مثالی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو برطانیہ کی مثال دیتے ہیں (جب کہ بکنگھم پیلس میں ملکہ الزبتھ بھی موجود ہیں)۔ جب بھی سائنس اور ٹیکنالوجیز کی مثالی ترقی کی بات کرتے ہیں تو امریکا کی مثال دیتے ہیں (جب کہ ایک سے ایک مہلک ہتھیار تیار کرنے اور کاروبار کرنے والا بھی وہی ہے) جب بھی ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو بھارت کی مثال دیتے ہیں (جہاں ہندوتوا کا حامی نریندر مودی وزیر اعظم ہے)۔ جب قانون کی حکمرانی کی بات نکلے تو سعودی عرب کی مثال کیوں نہ دی جائے؟ کیا ابھی وہاں نظام شریعت نافذ ہے؟
پہلے دو جرائم کی مثال پھر گفتگو۔ اول قتل ۔ دوم چوری۔
مسجدوں میں اعلان ہوتا ہے کہ بعد نماز جمعہ فلاں میدان میں قتل کے مجرم کی گردن اڑا دی جائے گی۔ لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے۔ میدان میں کالے لباس میں ملبوس جلاد ننگی تلوار لیے ٹہل رہا ہے۔ اتنے میں جیل کی گاڑی آکر رکتی ہے قاتل جس کے پیچھے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اتارا جاتا ہے اور دوزانو آگے کی طرف جھکا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ جلاد اس کے پہلو میں تیر چبھوتا ہے جس سے مجرم بے ساختہ اچھلتا ہے اور پلک جھپکتے میں جلاد ایک ہی وار سے سر تن سے جدا کردیتا ہے۔ اس کے بعد مجرم کے سر اور دھڑ کو یکجا کرکے لے جایا جاتا ہے۔ کچھ دیر تک مجمع سکتے کے عالم میں کھڑا رہتا ہے پھر آہستہ آہستہ واپس جانے لگتا ہے۔
اس مظاہرے سے مجمع پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
(1)۔ مجرم طاقتور ہوکر کمزور قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ (2)۔ سزا کی پوری کارروائی دماغ پر نقش ہوجاتی ہے۔ (3)۔ مجمع میں موجود ہر شخص چاہے کتنے ہی اشتعال یا طیش میں ہو قتل کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (4)۔ ایک مجرم کے قتل کے مظاہرے سے ہزاروں تماش بین قتل جیسے گھناؤنے جرم سے باز رکھے جاسکتے ہیں۔
B۔ اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ جس دن ہاتھ کٹتا ہے اس دن سے سزا شروع ہوتی ہے مثلاً ایک بیٹا اپنے باپ سے کہتا ہے ''ابو! شام میرے دوست آنے والے ہیں آپ ڈرائنگ روم میں مت آئیے گا۔'' مثال نمبر 2۔ گھر میں خوشی کا سماں ہے لڑکے والوں کو لڑکی پسند آگئی ہے مبارک سلامت کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ اتنے میں کوئی کہتا ہے لڑکی کے والد کہاں ہیں ان کو بھی تو بلائیے؟ لڑکی کے والد آتے ہیں جن کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ خوشیاں سنجیدگی اختیارکر لیتی ہیں۔ سب روانگی کے لیے اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں لڑکی کی ماں گڑگڑاتی ہے ''بہن آپ کو لڑکی پسند ہے اپنے پاس ہی رکھیے ہمارے پاس مت بھیجیے انکار تو مت کیجیے۔'' لڑکے کی ماں جواب دیتی ہے '' بہن! دیکھتے دکھاتے مکھی تو نہیں نگلی جاسکتی۔''
تمام ادیان عالم میں نرک سورگ، جنت دوزخ، Hell and Heaven کا تصور ہے۔ مذہبی رہنما اچھے اعمال کے بدلے حقیقت کی نوید سناتے ہیں اور برے اعمال کے مرتکب افراد کو جہنم کی آگے سے ڈراتے ہیں۔ ایک پادری دوزخ Hell کی تفصیل بتاتے ہوئے رک کر سامعین سے سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے کبھی بھٹی میں پگھلا ہوا اورنج کلر کا سنسناتا ہوا لوہا دیکھا ہے؟ تقریباً تمام سامعین اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ تب پادری صاحب فرماتے ہیں ''یہ اورنج کلر کا پگھلا ہوا لوہے کا مادہ جہنم والوں کے لیے آئسکریم بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔''
معاشرے میں اکثریت اخلاقی جرائم کی ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سڑک چھاپ جرائم (Street Crimes) آتے ہیں اور آخر میں گھناؤنے جرائم جیسے قتل، زنا وغیرہ۔ قتل دو قسم کے ہوتے ہیں اول حالت اشتعال، طیش اور غصہ ہیں۔ دوم منصوبہ بندی کے تحت۔ مغربی معاشرے میں بظاہر قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں خوشحالی نظر آتی ہے لیکن دو باتیں نمایاں ہیں۔ وہاں اخلاقی جرائم (جن کی اکثریت ہوتی ہے) کے خلاف مزاحمت کے بجائے ان کو گود لے لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قانون مجرم نواز اور معاشرہ جرائم پرور بن گیا ہے۔
مثلاً A۔ معاہدے عمرانی میں شادی میاں بیوی کے درمیان ہونے والا سب سے مقدس اور اہم ترین معاہدہ ہے۔ اس کی غایت یہ ہے کہ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے عورت اکیلی نہ رہ جائے بلکہ یہ اہم فریضہ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کے زیر سایہ تکمیل پائے۔ تاکہ انسان دوست، پڑھا لکھا، مہذب فرد معاشرے میں شامل ہوسکے، لیکن مغربی معاشرے میں اس کی جو درگت بن رہی ہے ملاحظہ کیجیے۔
بالغ مرد عورت کو جن کو آنے والی نسل کی پرورش کرنا ہے بغیر شادی کیے بندھن میں بندھے منہ بولے میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنے اور بچے جننے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ نتیجتاً آج ہر دوسرے گھر سے منہ بولی بیوی کی کچھ اس قسم کی صدا سننے کو ملتی ہے ''ذرا بچوں کو ڈانٹ پلائیے پلیز! آپ کے بچے اور میرے بچے مل کر ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں۔'' ماضی میں مغربی معاشرے میں عورت کی عمر اور مرد کی آمدنی دریافت کرنا بداخلاقی شمار ہوتی تھی آج اگر کسی سے اس کے والد کا نام پوچھا جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے ماں کی گالی دے دی۔
جب کہ ہم جنس پرستوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے، تاکہ ان کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ مہیا کیا جاسکے اور وہ دودھوں نہائیں اور پوتوں پھلیں۔
B۔ سڑک چھاپ کرائمز (اسٹریٹ کرائمز) ہر انسان کے اندر ایک درندہ چھپا رہتا ہے جو مناسب موقعہ ملے تو باہر آتا ہے اور ایسے کارنامے انجام دیتا ہے کہ انسانیت کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ امریکا کے کسی بھی گنجان آباد شہر میں اگر اچانک بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوجائے اور تاریکی چھا جائے تو تہذیب یافتہ معاشرے کی اخلاق باختگی سڑکوں پر کھلے عام برہنہ رقص کرنے لگتی ہے۔ دکانوں کے شیشے توڑ کر لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے اس وقت سڑک پر موجود اکیلی خواتین کی کھلے عام بے حرمتی کی جاتی ہے۔ مزاحمت پر بات تشدد اور قتل تک پہنچ جاتی ہے۔
C۔ نیویارک کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سے گزرتے وقت پرس میں لازمی کچھ رقم رکھنا پڑتی ہے۔ کیونکہ کسی سڑک چھاپ مجرم (اسٹریٹ کریمنل) نے روک لیا اور پرس خالی پایا تو پہلے ایک جھانپڑ رسید کرے گا اور پوچھے گا ''کیا ہم تمہارے باپ کے نوکر ہیں جو یہاں جھک مارنے کھڑے ہیں۔'' پھر دوسرا جھانپڑ رسید کرکے کہے گا ''دفع ہوجاؤ آیندہ خیال کرنا۔'' دفع ہوتے وقت اس کی رینج سے نکلنے تک احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اگر وہ کچھ زیادہ ہی اخلاق باختہ ہوا تو پیچھے سے آپ کی تشریف پر ایک کک بھی رسید کرسکتا ہے۔
D ۔ تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ ایک انسان کا قتل دراصل انسانیت کا قتل ہوتا ہے، لیکن مغربی مہذب لوگ پھانسی کی سزا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرے کے احمق بھی Ph.D لیول کے ہی ہوتے ہیں پاکستان کی طرح نان میٹرک نہیں۔
اب ذرا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت پر ایک نظر۔ ملک میں سیکولر نظام قانون نافذ ہے اور ملک کا وزیر اعظم کٹر انتہا پسند فرقہ پرست تنظیم RSS کا عقیدت مند ہے۔ میزان عدل کا ایک پلڑا جس میں ہندومت ہے زمین پر ٹکا ہوا ہے اور دوسرا پلڑا جس میں سیکولرازم ہے فضا میں معلق جھول رہا ہے۔ ایسے میں قانون کی حکمرانی کڑک نہیں ہوگی توکیا ہوگی؟ دعا کیجیے نریندر مودی پانچ سال اور رہ جائے۔ جو کام پچیس سال میں ہوتا ہے وہ پانچ سال میں ہوجائے گا۔ (1)۔ سیکولرازم کا خاتمہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے۔ (2)۔ کشمیر پاکستان کی جھولی میں۔
یکایک میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کیا روئے زمین پر ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہاں مثالی قانون کی حکمرانی ہو۔ سعودی عرب سامنے آگیا۔ ''میں ہوں نا!''
جب بھی ہم مثالی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو برطانیہ کی مثال دیتے ہیں (جب کہ بکنگھم پیلس میں ملکہ الزبتھ بھی موجود ہیں)۔ جب بھی سائنس اور ٹیکنالوجیز کی مثالی ترقی کی بات کرتے ہیں تو امریکا کی مثال دیتے ہیں (جب کہ ایک سے ایک مہلک ہتھیار تیار کرنے اور کاروبار کرنے والا بھی وہی ہے) جب بھی ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو بھارت کی مثال دیتے ہیں (جہاں ہندوتوا کا حامی نریندر مودی وزیر اعظم ہے)۔ جب قانون کی حکمرانی کی بات نکلے تو سعودی عرب کی مثال کیوں نہ دی جائے؟ کیا ابھی وہاں نظام شریعت نافذ ہے؟
پہلے دو جرائم کی مثال پھر گفتگو۔ اول قتل ۔ دوم چوری۔
مسجدوں میں اعلان ہوتا ہے کہ بعد نماز جمعہ فلاں میدان میں قتل کے مجرم کی گردن اڑا دی جائے گی۔ لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے۔ میدان میں کالے لباس میں ملبوس جلاد ننگی تلوار لیے ٹہل رہا ہے۔ اتنے میں جیل کی گاڑی آکر رکتی ہے قاتل جس کے پیچھے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اتارا جاتا ہے اور دوزانو آگے کی طرف جھکا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ جلاد اس کے پہلو میں تیر چبھوتا ہے جس سے مجرم بے ساختہ اچھلتا ہے اور پلک جھپکتے میں جلاد ایک ہی وار سے سر تن سے جدا کردیتا ہے۔ اس کے بعد مجرم کے سر اور دھڑ کو یکجا کرکے لے جایا جاتا ہے۔ کچھ دیر تک مجمع سکتے کے عالم میں کھڑا رہتا ہے پھر آہستہ آہستہ واپس جانے لگتا ہے۔
اس مظاہرے سے مجمع پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
(1)۔ مجرم طاقتور ہوکر کمزور قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ (2)۔ سزا کی پوری کارروائی دماغ پر نقش ہوجاتی ہے۔ (3)۔ مجمع میں موجود ہر شخص چاہے کتنے ہی اشتعال یا طیش میں ہو قتل کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (4)۔ ایک مجرم کے قتل کے مظاہرے سے ہزاروں تماش بین قتل جیسے گھناؤنے جرم سے باز رکھے جاسکتے ہیں۔
B۔ اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ جس دن ہاتھ کٹتا ہے اس دن سے سزا شروع ہوتی ہے مثلاً ایک بیٹا اپنے باپ سے کہتا ہے ''ابو! شام میرے دوست آنے والے ہیں آپ ڈرائنگ روم میں مت آئیے گا۔'' مثال نمبر 2۔ گھر میں خوشی کا سماں ہے لڑکے والوں کو لڑکی پسند آگئی ہے مبارک سلامت کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ اتنے میں کوئی کہتا ہے لڑکی کے والد کہاں ہیں ان کو بھی تو بلائیے؟ لڑکی کے والد آتے ہیں جن کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ خوشیاں سنجیدگی اختیارکر لیتی ہیں۔ سب روانگی کے لیے اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں لڑکی کی ماں گڑگڑاتی ہے ''بہن آپ کو لڑکی پسند ہے اپنے پاس ہی رکھیے ہمارے پاس مت بھیجیے انکار تو مت کیجیے۔'' لڑکے کی ماں جواب دیتی ہے '' بہن! دیکھتے دکھاتے مکھی تو نہیں نگلی جاسکتی۔''
تمام ادیان عالم میں نرک سورگ، جنت دوزخ، Hell and Heaven کا تصور ہے۔ مذہبی رہنما اچھے اعمال کے بدلے حقیقت کی نوید سناتے ہیں اور برے اعمال کے مرتکب افراد کو جہنم کی آگے سے ڈراتے ہیں۔ ایک پادری دوزخ Hell کی تفصیل بتاتے ہوئے رک کر سامعین سے سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے کبھی بھٹی میں پگھلا ہوا اورنج کلر کا سنسناتا ہوا لوہا دیکھا ہے؟ تقریباً تمام سامعین اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ تب پادری صاحب فرماتے ہیں ''یہ اورنج کلر کا پگھلا ہوا لوہے کا مادہ جہنم والوں کے لیے آئسکریم بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔''