’’دشمن کے تشدد سے بچنے کے لیے راز اُگل دو ‘‘ برطانوی فوجیوں کو ہدایت
جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں سے صرف ان کا نام، رینک، اور تاریخ پیدائش ہی پوچھی جاسکتی ہے۔
ISLAMABAD:
فوجیوں کو عسکری تربیت کے دوران یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ دشمن کی قید میں جانے کے بعد کسی بھی صورت ملکی راز نہیں اُگلیں گے چاہے انھیں کتنے ہی بدتر حالات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ بلاشبہ مادروطن کی محبت سے سرشار فوجی جان دے دیتے ہیں مگر دشمن ان کی زبان سے قومی راز اُگلوانے میں کام یاب نہیں ہوپاتا۔
برطانوی فوجیوں کو بھی دوران تربیت یہی سکھایا جاتا رہا ہے مگر اب ، غالباً قومی رازوں سے فوجی جوانوں کی زندگی زیادہ اہم ہوگئی ہے، کیوں کہ اب انھیں یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ دشمن کی قید میں جانے کی صورت میں اپنی جان بچانے کے لیے انھیں معلومات فراہم کردی جائیں۔ اگرچہ برطانوی وزارت دفاع کا دعویٰ ہے کہ عشروں پرانی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، تاہم ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بہت سے عسکری کمانڈروں نے اس پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے جوانوں کی تربیت کا نیا انداز اپنالیا ہے، جسے عسکری اصطلاح میں ' ٹریفک لائٹ سسٹم' کہا جارہا ہے۔ اس نظام کے تحت جوانوں کو یہ تربیت دی جارہی ہے کہ دشمن کا قیدی بن جانے کے بعد تشدد سے بچنے کے لیے انھیں معلومات کا ' اجرا' کیسے کیا جائے۔
اس نظام یا حکمت عملی کے تحت فوجیوں کو سکھایا جارہا ہے داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی گرفت میں آجانے کے بعد لامحالہ ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس صورت میں جان بچانے کے لیے انھیں ابتدائی طور پر ' گرین لیول انفارمیشن' فراہم کرنی چاہیے۔ اس سے مراد کم ترین حساسیت کی حامل معلومات ہیں۔ ان کے بعد مرحلہ وار ' ایمبر یعنی زرد انفارمیشن' اور پھر ' ریڈ انفارمیشن' کا نمبر آتا ہے۔ فوجیوں سے کہا گیا ہے کہ جنگی قیدی بننے کے بعد تفتیشی مرحلے کے دوران وہ گرین انفارمیشن دیں، زرد اور سُرخ معلومات کو زیادہ سے زیادہ وقت تک سینوں میں محفوظ رکھیں۔
میجر چارلس ہیمین برطانوی فوج میں بیس سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ برطانوی افواج پر ایک کتاب بھی تحریر کرچکے ہیں۔ میجر چارلس کہتے ہیں کہ عسکری حلقوں میں یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ دشمن کی قید میں جانے کے بعد فوجی اہل کار زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گھنٹے تک معلومات سینے میں چھپائے رکھ سکتا ہے۔ تاہم میجر کے مطابق دوران تربیت انھیں یہ سکھایا گیا تھا کہ کم از کم اڑتالیس گھنٹوں تک زبان سے کوئی حساس معلومات نہیں نکلنی چاہیے چاہے آپ کو بدترین تشدد ہی کیوں نہ سہنا پڑے۔ مگر اب جوانوں کی تربیت ذرا مختلف انداز سے کی جارہی ہے۔
جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں سے صرف ان کا نام، رینک، اور تاریخ پیدائش ہی پوچھی جاسکتی ہے۔ نہ تو انھیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی معلومات حاصل کرنے کے لیے ان پر کسی اور ذریعے سے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کنونشن کی پاسداری کوئی ملک نہیں کرتا۔
فوجیوں کو عسکری تربیت کے دوران یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ دشمن کی قید میں جانے کے بعد کسی بھی صورت ملکی راز نہیں اُگلیں گے چاہے انھیں کتنے ہی بدتر حالات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ بلاشبہ مادروطن کی محبت سے سرشار فوجی جان دے دیتے ہیں مگر دشمن ان کی زبان سے قومی راز اُگلوانے میں کام یاب نہیں ہوپاتا۔
برطانوی فوجیوں کو بھی دوران تربیت یہی سکھایا جاتا رہا ہے مگر اب ، غالباً قومی رازوں سے فوجی جوانوں کی زندگی زیادہ اہم ہوگئی ہے، کیوں کہ اب انھیں یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ دشمن کی قید میں جانے کی صورت میں اپنی جان بچانے کے لیے انھیں معلومات فراہم کردی جائیں۔ اگرچہ برطانوی وزارت دفاع کا دعویٰ ہے کہ عشروں پرانی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، تاہم ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بہت سے عسکری کمانڈروں نے اس پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے جوانوں کی تربیت کا نیا انداز اپنالیا ہے، جسے عسکری اصطلاح میں ' ٹریفک لائٹ سسٹم' کہا جارہا ہے۔ اس نظام کے تحت جوانوں کو یہ تربیت دی جارہی ہے کہ دشمن کا قیدی بن جانے کے بعد تشدد سے بچنے کے لیے انھیں معلومات کا ' اجرا' کیسے کیا جائے۔
اس نظام یا حکمت عملی کے تحت فوجیوں کو سکھایا جارہا ہے داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی گرفت میں آجانے کے بعد لامحالہ ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس صورت میں جان بچانے کے لیے انھیں ابتدائی طور پر ' گرین لیول انفارمیشن' فراہم کرنی چاہیے۔ اس سے مراد کم ترین حساسیت کی حامل معلومات ہیں۔ ان کے بعد مرحلہ وار ' ایمبر یعنی زرد انفارمیشن' اور پھر ' ریڈ انفارمیشن' کا نمبر آتا ہے۔ فوجیوں سے کہا گیا ہے کہ جنگی قیدی بننے کے بعد تفتیشی مرحلے کے دوران وہ گرین انفارمیشن دیں، زرد اور سُرخ معلومات کو زیادہ سے زیادہ وقت تک سینوں میں محفوظ رکھیں۔
میجر چارلس ہیمین برطانوی فوج میں بیس سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ برطانوی افواج پر ایک کتاب بھی تحریر کرچکے ہیں۔ میجر چارلس کہتے ہیں کہ عسکری حلقوں میں یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ دشمن کی قید میں جانے کے بعد فوجی اہل کار زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گھنٹے تک معلومات سینے میں چھپائے رکھ سکتا ہے۔ تاہم میجر کے مطابق دوران تربیت انھیں یہ سکھایا گیا تھا کہ کم از کم اڑتالیس گھنٹوں تک زبان سے کوئی حساس معلومات نہیں نکلنی چاہیے چاہے آپ کو بدترین تشدد ہی کیوں نہ سہنا پڑے۔ مگر اب جوانوں کی تربیت ذرا مختلف انداز سے کی جارہی ہے۔
جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں سے صرف ان کا نام، رینک، اور تاریخ پیدائش ہی پوچھی جاسکتی ہے۔ نہ تو انھیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی معلومات حاصل کرنے کے لیے ان پر کسی اور ذریعے سے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کنونشن کی پاسداری کوئی ملک نہیں کرتا۔