امجد صابری ملنسار ہردلعزیز اور سچا عاشق رسول چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر چلا گیا
امجدصابری نے اپنے والد کی مشہور قوالیوں کو زندہ رکھنے کے لئے مشرقی اور مغربی موسیقی کو یکجا کرکے نئے انداز میں پیش کیا
امجد صابری نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کردی فوٹو : فائل
لاہور:
کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں نے کئی نامور شخصیات کو موت کی نیند سلا دیا ، دہشت گردوں نے کبھی یہ بھی نہ سوچا کہ وہ جس شخصیت کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں ،اس کا قصور حب الوطنی ، امن ، محبت اور بھائی چارے کی جیتی جاگتی تصویر ہونا ہے۔ دہشت گردوں نے درندگی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیںکہ درندگی کے ایک اورخوفناک المیہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، ایسا سانحہ جو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آنکھیں نم کر گیا۔
دن دیہاڑے مصروف ترین شاہراہ پر بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال امجد فرید صابری کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا، اس نے پوری قوم کو شدید کرب سے دوچار کر دیا، ٹی وی پر جب یہ خبر بریک ہوئی کہ امجد صابری کو گھر سے ٹی وی پروگرام میں جاتے ہوئے دہشت گردوں نے گولیوں سے چھلنی کردیا اور وہ موقع پر ہی جان بحق ہوگئے،اس خبر سے پورا ملک پوری قوم بلکہ دنیا میں جہاں جہاں امجد صابری کے چاہنے والے موجود ہیں،ایک لمحہ کے لیے دم بخود رہ گئے کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ہوگیا۔۔۔۔۔۔ بہترین لباس پہن کو خوشی خوشی گھر سے نکلنے والے ہنستے مسکراتے امجد صابری کو خون میں نہلا دیا اور کوئی بھی دہشت گردوں کو نہ پکڑ سکا۔
یہ اندوہناک واقعہ سکیورٹی اداروں کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان تھا جنہوں نے بڑی قربانیوں کے بعد شہر کا امن و امان بحال کیا تھا۔ امجد صابری کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو سوگوار کردیا ،لوگوں نے اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر ٹی وی چینلز پر اپنی نظریں جمائے رکھیں رمضان المبارک میں ایک ایسے شخص کا قتل جو سچا عاشق رسو ل تھا جب بھی کسی سے ملتا تو تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ اس ماہ میں وہ مختلف چینلز پر نعت رسولؐ اور اپنی مشہور قوالیوں کے ساتھ پر جوش نظر آتا تھا، ایک رات قبل انہوں نے ایک خوبصورت ہدیہ نعتﷺ پیش کرکے جس عقیدت کا اظہار کیا تھا، وہی ان کی آخری خواہش ثابت ہوئی اور وہ اس منزل پر پہنچ گئے جہاں جانے کی انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی۔
امجد فرید صابری برادران کا وہ چشم چراغ تھا کہ جس نے اپنی خوبصورت آواز سے فن قوالی کا دنیا بھر میں شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا، صابری برادران نے فن قوالی میں دنیا بھر میں جو مقبولیت حاصل کی اس کی مثال نہیں ملتی، غلام فرید صابری، مقبول صابری کی مشہور قوالیاں آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ لیاقت آباد کے علاقے میں پرورش پانے والے امجد صابری نے ایک عوامی فنکار ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی،صرف 9سال کی عمر میں انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز اپنے والد اور چچا کے ساتھ کیا۔وہ اپنے والد اور چچا کے ہمراہ دنیا بھر کے ٹور پر بھی جاتے رہے جس نے فن قوالی میں انہیں بھرپور تربیت فراہم کی ۔
امجد صابری کی تربیت میں والد اور چچاکا کردار سب سے اہم رہا، غلام فرید صابری مقبول صابری (صابری برادران) کی فن قوالی میں خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، غلام فرید صابری 1994ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو مقبول صابری نے قوالی میں اپنا ایک علیحدہ گروپ ترتیب دیا۔ اس موقع پر امجد فرید صابری نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے 28سال کی عمر میں اپنے کزن کے ساتھ مل کر قوالی کا آغاز کیا،یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا مگر ان میں کچھ کر گزرنے کا جوش اور ولولہ تھا ، جس نے انہیں متحرک کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
امجد فرید صابری نے اپنے والد کی مشہور قوالیوں کو زندہ رکھنے کے لئے مشرقی اور مغربی موسیقی کو یکجا کرکے نئے انداز میں پیش کیا۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ یہ قوالیاں ہر خاص وعام میں اتنی مقبول ہوگئیں کہ ہر شخص امجد صابری کا دیوانہ ہوگیا ۔ امجد صابری قوالی کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام بن گیا، کوئی پروگرام یا تقریب ادھوری لگتی جس میں امجد صابری نہ ہوتے ۔وہ اپنی بہترین اور دلکش آواز سے ہاٹ کیک بن گئے تھے۔
صابری برادران کے اس سپوت نے فن قوالی کو ایک جدید اور ماڈرن روپ دے کر ثابت کردیا کہ دنیا میںکوئی کام نا ممکن نہیں ہے قوالی ہی ہمیشہ ہماری پہچان ہے اور رہے گی،امجد صابری سے میری متعدد بار مختلف تقاریب میں ملاقاتیں رہیں وہ ہمیشہ بہت عزت اور احترام سے ملتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ میری ان کے والد اور چچا سے بہت قربت تھی ، حاجی غلام فرید صابری کے گھر پر ہونے والی بہت سی تقاریب میں میرا جانا ہوتا تھا مجھے اندازہ تھا کہ یہ گھرانہ قوالی کے شیدائیوں سے کتنی محبت کرتا ہے، امجد صابری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بہت عاجزی اور انکساری سے ملتا تھا،بزرگوں کا ادب اور احترام اسے اپنے والد،چچا سے ورثہ میں ملا تھا، شہرت کی بلندی پر ہونے کے باجود وہ اپنے علاقہ لیاقت آباد میں ہی رہتا تھا۔
شہرت کی اس بلندی تک پہنچنے کے باوجود نہ تو ان کے والد،چچا اور نہ ہی امجد صابری نے اپنے آبائی گھر کو خیر باد کہنے کی کوشش کی۔ امجد فرید کا کہنا تھا لیاقت آباد میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، میرے بچے جب مجھے کہتے ہیں کہ ہم کہیں اور شفٹ ہوجائیں تو انہیں کہتا ہوں کہ اس سے بہتر کوئی اور علاقہ ہو نہیں سکتا جہاں اتنی اپنائیت ملتی ہو،کیونکہ ہم سب ایک فیملی کا حصہ بن چکے ہیں جس کو چھوڑنے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا اور پھر ہوا بھی یہ کہ امجدصابری کا سفر آخرت بھی اسی مقام سے ہوا، اپنی زندگی میں سب کو ہنسانے والا اس قدر درد ناک غم دے گیا کہ ان کے چاہنے والوں کی آنکھوں سے اب تک آنسو نہیں رک رہے ۔
امجد صابری کی کا آخری دیدار کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہ کے باہر ہزاروں لوگ جمع تھے۔ میرے لئے یہ منظر ناقابل یقین تھا۔امجد صابری کے چاہنے والوں میں خواتین کی بڑی تعداد دھاڑیں مار کر رو رہی تھی۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے صرف کراچی سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آئے ہوئے تھے ، جگہ کم ہونے پر لیاقت آباد کی مصروف ترین شاہراہ پر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ ان کا جسد خاکی جب قبرستان کے لیے روانہ ہوا تو لاکھوں لوگ شریک تھے، خواتین، بچے، بوڑھے، جوان شدید دھوپ اور گرمی میں روزے کی حالت میں پیدل سفر کرتے ہوئے پاپوش نگر قبرستان پہنچے، ایک طویل جنازے کا جلوس جس میں ہر طرف امجد صابری کے چاہنے والے موجود تھے ایک گھنٹہ کے بعد قبرستان پہنچا ان کے جنازے میں شریک لوگ ان کی مشہور قوالیاں ،نعت رسول کا ورد کرتے ہوئے جارہے تھے۔ امجد صابری کے چاہنے والے اس قدر بھی ہوسکتے ہیں اس کا تو کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
امجد صابری نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کردی اور ثابت کردیا وہ واقعی اس ملک کا سب سے زیادہ چاہے جانے والا انسان تھا ۔ امجد صابری تو اس دنیا سے چلا گیا لیکن وہ اپنے پیچھے ایسے کئی سوالات چھوڑ گیا کہ اس کا کیا قصور تھا،اس نے تو عوام کو خوشیاں دی ہیں،وہ تو سچا عاشق رسولؐ تھا، اس بیدردی اسے کیوں مارا گیا۔۔۔ امجد صابری کے بچے، ان کے اہل خانہ اور چاہنے والے بھی اس المناک واقعہ سے اب تک سنبھل نہیں پارہے یہ ایک ایسا صدمہ ہے جو شاید ساری زندگی امجد صابری کے چاہنے والوں کو رلاتا رہے گا۔