برطانوی عورت ٹالکم پاؤڈر پھانکنے کی لت میں مبتلا
اب تک پانچ من خوش بُودار سفوف کھا چکی ہے۔
JAMMU:
ٹالکم پاؤڈر کا استعمال پسینے کی ناخوش گوار بو زائل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے مگر یہ خاتون خوشبو دار سفوف جسم پر چھڑکتی نہیں بلکہ کھاتی ہیں۔ برطانوی شہری کم و بیش دس برسوں سے اس لت میں مبتلا ہے۔
ایک عشرے کے دوران وہ دوسوکلو ( پانچ من) پاؤڈر پھانک چکی ہے! لزی فوسٹر کو پاؤڈر پھانکنے کی لت عشرے پہلے اس وقت پڑی جب اس کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ ایک روز پاؤڈر چھڑکتے ہوئے اس کے جی میں جانے کیا آئی کہ اس نے یہ سفوف ہتھیلی پر لے کر پھانک لیا۔ ٹالکم پاؤڈرکا ذائقہ اس کے من کو ایسا بھایا کہ کچھ ہی دیر میں وہ چوتھائی ڈبا خالی کرچکی تھی۔ پھر تو یہ معمول بن گیا۔ دن میں کئی بار وہ پاؤڈر پھانکنے لگی۔
لزی کا خیال تھا کہ حمل کے باعث اسے یہ چسکا لگ گیا ہے، بچے کی پیدائش کے بعد یہ عادت چھوٹ جائے گی۔ مگر ماں بن جانے کے بعد بھی وہ خود کو اس عادت سے باز نہ رکھ سکی۔ اسے یہ لت ایسی لگی ہے کہ بارہا کوششوں کے باوجود وہ اپنے ہاتھوں کو پاؤڈر کے ڈبے کی طرف بڑھنے سے نہیں روک پاتی۔ وہ پانچ سو گرام والا پاؤڈر کا ڈبّا لاتی ہے جو ایک ہفتے میں ختم ہوجاتا ہے۔ لزا کا کہنا ہے دس برسوں کے دوران اب تک وہ دو سو کلوگرام پاؤڈر ہڑپ کرچکی ہے۔ پاؤڈر کی صورت میں اب تک کئی ہزار پاؤنڈز بھی اس کے معدے میں منتقل ہوچکے ہیں۔
لزی نے اس لت سے چھٹکارا پانے کے لیے ڈاکٹروں سے بھی رجوع کیا۔ انھوں نے اس لت کا سبب ضرور تشخیص کرلیا مگر علاج نہ کرسکے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ پائیکا نامی نادر مرض یا بگاڑ کا شکار ہے۔ اس میں مبتلا فرد کو غیرغذائی اشیاء کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ شخص اس کی تکمیل پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لزی کو علم ہے کہ ٹالکم پاؤڈر پھانکنا یا سانس کے ساتھ اندر لے جانا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ خود کو باز نہیں رکھ سکتی۔
طبی ماہرین کہتے ہیں ٹالکم پاؤڈر مسلسل سونگھنے یا کھاتے رہنے سے زہرخورانی ہوسکتی ہے، اس کے نتیجے میں سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد، لو بلڈ پریشر، متلی اور اسہال کی شکایت ہوجاتی ہے۔ شدید صورت میں اس سے اعصابی نظام متأثر ہوتا ہے اور بعض اوقات مریض کوما میں بھی چلا جاتا ہے۔ تاہم لزی کا کہنا ہے خوش قسمتی سے اب تک وہ اس عادت کی وجہ سے بیمار نہیں ہوئی۔
پائکا کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے اصل سبب کا اب تک تعیننہیں کیا جاسکا۔ البتہ ممکنہ طور پر کسی غذائی عنصر مثلاً فولاد یا وٹامن ڈی کی کمی ہوجاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے وہ اس فرد کو غیرغذائی اشیاء کھانے پر اکساتا ہے۔
پہلے پہل اس عادت کے بارے میں لزی نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ سننے والے کیا کہیں گے۔ حتی کہ لزی کی فیملی بھی اس کی اس عادت سے لاعلم تھی۔ 2014 ء میں وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ سنیما میں فلم دیکھنے کے لیے گئی۔ اسی دوران اسے پاؤڈر کی طلب ہونے لگی۔ طلب کی شدت اتنی بڑھی کہ اس نے شوہر اور بیٹی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہینڈ بیگ میں سے ایک شفاف تھیلی نکالی اور اس میں سے پاؤڈر نکال کر پھانکنا شروع کردیا۔ لزی کا شوہر اور اردگرد بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ سمجھے کہ شائد وہ نشہ کررہی ہے۔ ان کے استفسار پر مجبوراً اسے حقیقت بیان کرنی پڑی۔ جلد ہی اس کے پاؤڈر کھانے کی لت سے عزیزواقارب اور ملنے جلنے والے بھی واقف ہوگئے۔
پچیس سالہ لزی کا کہنا ہے کہ وہ گھر کے کام کاج کرنے دوران، وقتاً فوقتاً پاؤڈر پھانکتی رہتی ہے۔ دفتر جاتے ہوئے بھی پاؤڈر کا ڈبا ، بہ طور اسنیکس اس کے ہینڈ بیگ میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ پاؤڈر کو پانی میں گھول کر شربت کی طرح بھی پی لیتی ہے۔
ٹالکم پاؤڈر کا استعمال پسینے کی ناخوش گوار بو زائل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے مگر یہ خاتون خوشبو دار سفوف جسم پر چھڑکتی نہیں بلکہ کھاتی ہیں۔ برطانوی شہری کم و بیش دس برسوں سے اس لت میں مبتلا ہے۔
ایک عشرے کے دوران وہ دوسوکلو ( پانچ من) پاؤڈر پھانک چکی ہے! لزی فوسٹر کو پاؤڈر پھانکنے کی لت عشرے پہلے اس وقت پڑی جب اس کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ ایک روز پاؤڈر چھڑکتے ہوئے اس کے جی میں جانے کیا آئی کہ اس نے یہ سفوف ہتھیلی پر لے کر پھانک لیا۔ ٹالکم پاؤڈرکا ذائقہ اس کے من کو ایسا بھایا کہ کچھ ہی دیر میں وہ چوتھائی ڈبا خالی کرچکی تھی۔ پھر تو یہ معمول بن گیا۔ دن میں کئی بار وہ پاؤڈر پھانکنے لگی۔
لزی کا خیال تھا کہ حمل کے باعث اسے یہ چسکا لگ گیا ہے، بچے کی پیدائش کے بعد یہ عادت چھوٹ جائے گی۔ مگر ماں بن جانے کے بعد بھی وہ خود کو اس عادت سے باز نہ رکھ سکی۔ اسے یہ لت ایسی لگی ہے کہ بارہا کوششوں کے باوجود وہ اپنے ہاتھوں کو پاؤڈر کے ڈبے کی طرف بڑھنے سے نہیں روک پاتی۔ وہ پانچ سو گرام والا پاؤڈر کا ڈبّا لاتی ہے جو ایک ہفتے میں ختم ہوجاتا ہے۔ لزا کا کہنا ہے دس برسوں کے دوران اب تک وہ دو سو کلوگرام پاؤڈر ہڑپ کرچکی ہے۔ پاؤڈر کی صورت میں اب تک کئی ہزار پاؤنڈز بھی اس کے معدے میں منتقل ہوچکے ہیں۔
لزی نے اس لت سے چھٹکارا پانے کے لیے ڈاکٹروں سے بھی رجوع کیا۔ انھوں نے اس لت کا سبب ضرور تشخیص کرلیا مگر علاج نہ کرسکے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ پائیکا نامی نادر مرض یا بگاڑ کا شکار ہے۔ اس میں مبتلا فرد کو غیرغذائی اشیاء کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ شخص اس کی تکمیل پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لزی کو علم ہے کہ ٹالکم پاؤڈر پھانکنا یا سانس کے ساتھ اندر لے جانا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ خود کو باز نہیں رکھ سکتی۔
طبی ماہرین کہتے ہیں ٹالکم پاؤڈر مسلسل سونگھنے یا کھاتے رہنے سے زہرخورانی ہوسکتی ہے، اس کے نتیجے میں سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد، لو بلڈ پریشر، متلی اور اسہال کی شکایت ہوجاتی ہے۔ شدید صورت میں اس سے اعصابی نظام متأثر ہوتا ہے اور بعض اوقات مریض کوما میں بھی چلا جاتا ہے۔ تاہم لزی کا کہنا ہے خوش قسمتی سے اب تک وہ اس عادت کی وجہ سے بیمار نہیں ہوئی۔
پائکا کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے اصل سبب کا اب تک تعیننہیں کیا جاسکا۔ البتہ ممکنہ طور پر کسی غذائی عنصر مثلاً فولاد یا وٹامن ڈی کی کمی ہوجاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے وہ اس فرد کو غیرغذائی اشیاء کھانے پر اکساتا ہے۔
پہلے پہل اس عادت کے بارے میں لزی نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ سننے والے کیا کہیں گے۔ حتی کہ لزی کی فیملی بھی اس کی اس عادت سے لاعلم تھی۔ 2014 ء میں وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ سنیما میں فلم دیکھنے کے لیے گئی۔ اسی دوران اسے پاؤڈر کی طلب ہونے لگی۔ طلب کی شدت اتنی بڑھی کہ اس نے شوہر اور بیٹی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہینڈ بیگ میں سے ایک شفاف تھیلی نکالی اور اس میں سے پاؤڈر نکال کر پھانکنا شروع کردیا۔ لزی کا شوہر اور اردگرد بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ سمجھے کہ شائد وہ نشہ کررہی ہے۔ ان کے استفسار پر مجبوراً اسے حقیقت بیان کرنی پڑی۔ جلد ہی اس کے پاؤڈر کھانے کی لت سے عزیزواقارب اور ملنے جلنے والے بھی واقف ہوگئے۔
پچیس سالہ لزی کا کہنا ہے کہ وہ گھر کے کام کاج کرنے دوران، وقتاً فوقتاً پاؤڈر پھانکتی رہتی ہے۔ دفتر جاتے ہوئے بھی پاؤڈر کا ڈبا ، بہ طور اسنیکس اس کے ہینڈ بیگ میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ پاؤڈر کو پانی میں گھول کر شربت کی طرح بھی پی لیتی ہے۔