القاعدہ میرے بدلے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین رہا کروانا چاہتی تھی علی حیدر گیلانی

افغانستان میں اغوا کاروں کو امریکی کارروائی کا پہلے سے ہی علم ہوگیا تھا، علی حیدر گیلانی


ویب ڈیسک June 28, 2016
مجھے 6 افراد نے اغوا کیا اور وہ تمام لوگ پنجابی تھے، علی حیدر گیلانی فوٹو: فائل 

3 برس تک دہشت گردوں کی قید میں رہنے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ القاعدہ ان کے بدلے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند عورتوں کو رہا کروانا چاہتی تھی۔

برطانوی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں علی حیدر گیلانی نے کہا کہ اغوا سے قبل اگرچہ انھیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی تاہم انھیں یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے، اغوا سے ایک ہفتہ قبل ان کے ایک دوست نے انہیں بتایا ایک گاڑی ان کا پیچھا کررہی ہے لیکن وہ اپنی سیکیورٹی سے مطمئن تھے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلاق کے تحت انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے تھے، اغوا سے قبل بھی ان کے گارڈز نے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے لائسنس یافتہ اسلحہ گاڑیوں میں چھوڑ دیا تھا لیکن جب وہ جلسے میں شرکت کے بعد باہر نکلے تو کسی نے انہیں گردن سے پکڑ کر دھکا دیا جس سے وہ زمین پر گر گئے، اسی دوران فائرنگ شروع ہوگئی اور انہوں نے اپنے گارڈز کو بھی گرتے دیکھا۔ اسی اثنا میں اغوا کاروں نے ان کے سر پر بھی بندوق کے بٹ مارے جدس سے ان کا سر پھٹ گیا۔

علی حیدر گیلانی کا کہنا تھاکہ انہیں اغوا کرنے والے 6 تھے جنہوں نے فوری طور پر انہیں گاڑی میں ڈالااور کپڑے اور جوتے اتار کر باہر پھینک دیئے۔ وہ سب آپس میں پنجابی میں باتیں کر رہے تھے، انہوں نے بات کرنے کی کوشش کی تو اغوا کاروں نے دھمکی دی کہ اگر وہ چپ نہ ہوئے تو انہیں گولی ماردی جائے گی اور گاڑی کو خانیوال لے گئے جہاں دو اغوا کار اتر گئے۔ جس کے بعد اغوا کار انہیں فیصل آباد لے گئے، حیران کن بات یہ تھی کہ خانیوال سے فیصل آباد تک راستے میں نا تو کوئی پولیس چوکی آئی اور نہ ہی ان کی گاڑی کو چیکنگ کے لئے کسی نے روکا۔

اغوا کی وجوہات بتاتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے کہا کہ گاڑی میں ہی اغوا کاروں نے ان سے اپنا تعارف القاعدہ کے طور پر کروایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد یوسف رضا گیلانی کے دور اقتدار میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں آپریشن کے علاوہ سوات اور وزیرستان میں کارروائیاں ہوئیں۔ اس لئے وہ ان کے دشمن ہیں۔

علی حیدر نے کہا کہ انہیں فیصل آباد میں ایک مکان میں ڈھائی ماہ تک رکھا گیا جس کے بعد انھیں اغوا کاروں نے بتایا کہ ان کی حکومت سے ڈیل ہوگئی ہے، اس لئے وہ انہیں وزیرستان لے جارہے ہیں جہاں سے انہیں رہا کردیا جائے گا۔ 22 جولائی 2013 کو انہیں براستہ موٹروے بنوں سے وزیرستان منتقل کردیا گیا۔ دوران سفر اغوا کاروں نے ان سمیت 3 افراد کو برقعے پہنادیئے اور خاموش رہنے کا حکم دیا، راستے میں کئی فوجی چوکیاں آئیں اور کچھ مقامات پر انہیں روکا بھی گیا لیکن سیکیورٹی اہلکار تلاشی کے بجائے ڈرائیور کا شناختی کارڈ دیکھ کر ہی گاڑی کو آگے جانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ انہیں 7 ماہ تک شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں رکھا گیا۔ وہاں بھی القاعدہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پنجابی تھے جب کہ ملتان سے ہی اغوا کیا گیا ایک جرمن شہری بھی تھا۔

سابق وزیر اعظم کے بیٹے نے مزید کہا کہ دتہ خیل میں ایک ڈرون حملے کے بعد القاعدہ نے انہیں طالبان کے سجنا گروپ کے حوالے کردیا، جن کے پاس وہ 14 ماہ تک رہے۔ اغوا کاروں اور طالبان نے انہیں کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا، انھوں نے مطالعے کے لیے کتابیں بھی دی تھیں لیکن اس دوران انہوں نے دن کی روشنی نہیں دیکھی، ان کے کمرے میں 24 گھنٹے ایک بلب جلتا رہتا تھا۔

علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ جب سیکیورٹی فورسز نے رواں برس آپریشن ضرب عضب کے دوران دتہ خیل اور شوال میں کارروائی کا آغاز کیا تو انہیں افغانستان منتقل کردیا گیا۔ جہاں انہیں وقفے وقفے سے مختلف مقامات پر رکھا گیا۔ جب بھی ان پر بمباری ہوتی تو اغوا کار انہیں لے کر کھلے مقام پر چلے جاتے ۔ وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد پاک فضائیہ دتہ خیل پر ان کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ پاک فضائیہ کے طیاروں سے مکانات کو بالکل ٹھیک نشانہ بنایا جاتا لیکن ان مکانات میں کوئی بھی موجود نہ ہوتا۔

اغوا کاروں سے اپنی رہائی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 9 مئی کو ان کے ٹھکانے پر القاعدہ کا ایک کارندہ آیا ، جس نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ جلد ہی امریکی فوجی حملہ کرنے والے ہیں، جس پر اغوا کار ایک مرتبہ پھر انہیں پاکستان لے جانے لگے لیکن راستے میں انہیں امریکی ہیلی کاپٹرز نے آگھیرا، اسی دوران ان پر فائرنگ کی گئی جس میں ان کے اغواکار تو ہلاک ہوگئے لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔ امریکی فوجی نیچے اترے اور انہوں نے ان سے پشتو میں بات کرنے کی کوشش کی جس پر انہوں نے فوجیوں سے اپنا تعارف کرایا، تصدیق کے بعد انہیں بتایا گیا کہ وہ اب گھر جارہے ہیں۔

علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور طالبان کی قید کے دوران ان کی 2 مرتبہ والدہ اور والد سے ٹیلی فون پر بات کرائی گئی۔ ایسی صورت حال میں انھیں باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ اچھا لگتا تھا اور اس سلسلے میں انھیں جو بھی موقع ملا انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہ باقاعدگی سے ڈائری لکھتے تھے جنہیں طالبان جلا ڈالتے تھے۔ طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران انہوں نے اپنے اغوا کاروں سے پاکستان اور جنوبی افریقا کے خلاف میچ دیکھنے کی فرمائش کی تھی، جس پر انھوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کردیا۔ انہوں نے میچ کی کمنٹری برفباری کے دوران سنی اور پاکستان کی جیت پر انہیں بہت خوشی ہوئی تھے لیکن اس دورعان سب سے کٹھن وقت وہ تھا جب انہیں منیٰ میں بھگدڑ کے دوران اپنے کزن کے جاں بحق ہونے کی خبر ملی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور القاعدہ کی قید میں انہوں نے ہمیشہ اللہ کی مدد، رہائی کی امید اور صبر کو تھامے رکھا۔ ان ہی 3 چیزوں سے ان کا ذہنی توازن برقرار رہا۔

رہائی کے لیے القاعدہ کے مطالبات سے متعلق علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ القاعدہ ان کے بدلے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین کو رہا کروانی چاہتی تھی لیکن ان کے دیگر مطالبات غیر حقیقی تھے جن میں امریکی فوج کا افغانستان سے مکمل انخلا، قیدیوں کی رہائی اور رقم کا تقاضا شامل تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں