اسلامی نظریاتی کونسل خواتین پر تشدد کی ذمہ دار ہے سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کردیا۔
ISLAMABAD:
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دیا ہے۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہوا جس میں خواتین کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کے خلاف تشدد کی حالیہ لہر کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا رد عمل قرار دیا۔ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات میں راضی نامے منظور نہ کرنے اور ان مقدمات پر قصاص و دیت کے قانون کا اطلاق نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ریاست خود غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں مدعی بنا کرے۔ کمیٹی نے قومی اسمبلی اجلاس میں خواتین ارکان کے خلاف نازیبا گفتگو کی مذمت کی اورنازیبا باتیں کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔
سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین مخالف اقدامات اور ان پر تشدد کو جائز قرار دینے سے عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ غیرت کے واقعات میں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 1997 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی آخری رپورٹ کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا جواز آئینی اور قانونی طور پر ختم ہو چکا لہٰذا اس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ نہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودہ پوزیشن کے حوالے سے وزارت قانون کو خط لکھ کر رائے لی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل میں پھانسی کی سزا بھی راضی نامہ کے ذریعے قابل معافی نہیں ہونی چاہیے۔ فرحت اللہ بابر نے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دیا ہے۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہوا جس میں خواتین کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کے خلاف تشدد کی حالیہ لہر کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا رد عمل قرار دیا۔ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات میں راضی نامے منظور نہ کرنے اور ان مقدمات پر قصاص و دیت کے قانون کا اطلاق نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ریاست خود غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں مدعی بنا کرے۔ کمیٹی نے قومی اسمبلی اجلاس میں خواتین ارکان کے خلاف نازیبا گفتگو کی مذمت کی اورنازیبا باتیں کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔
سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین مخالف اقدامات اور ان پر تشدد کو جائز قرار دینے سے عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ غیرت کے واقعات میں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 1997 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی آخری رپورٹ کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا جواز آئینی اور قانونی طور پر ختم ہو چکا لہٰذا اس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ نہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودہ پوزیشن کے حوالے سے وزارت قانون کو خط لکھ کر رائے لی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل میں پھانسی کی سزا بھی راضی نامہ کے ذریعے قابل معافی نہیں ہونی چاہیے۔ فرحت اللہ بابر نے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔