اتنی جلدی کیا تھی
حکمران جب اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہیں توبعض اوقات جائز اور ناجائز کا خیال بھی نہیں کرتے
حکمران جب اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہیں توبعض اوقات جائز اور ناجائز کا خیال بھی نہیں کرتے، 24 جون کو بھی یہی ہوا جب ڈیڑھ سو سے زائد ریلوے پولیس کے اہلکاروں نے لاہور کے رائل پام کلب پر دھاوا بولا اور اپنی ''قیمتی اراضی'' وا گزار کرالی، بعض بزلہ سنجوں نے اس اقدام پر یہ ٹکڑا لگایا کہ ایسے لگا جیسے ہمارے جوانوں نے انڈیا کا ایک قلعہ فتح کر لیا ہو اور وہاں اب سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہو۔ میری ناقص معلومات کے مطابق مذکورہ کلب کے ممبران کی تعداد 4 سے 5ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ جن کا ناصرف داخلہ بند کر دیا گیا بلکہ جو ممبران کلب کے اندر موجود تھے۔
ان کے ساتھ بھی ہتک آمیز رویہ اختیار کرکے انھیں کلب بدر کر دیا گیا حالانکہ ان ممبران نے 10 10لاکھ روپے سے زائد رقم دے کر صحت مند سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے کلب کی ممبر شپ حاصل کی تھی۔ ریلوے انتظامیہ کے ''ٹیک اوور'' کے وقت معززکلب ممبران جو موقع پر موجود تھے کا کہنا ہے کہ اس قدر طاقت کا مظاہرہ کیا گیا کہ نہ تو کسی فیملی کے تقدس کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی لاکھوں روپے خرچ کرنے والے ممبرز کا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ نہ ہی ان سیکڑوں ملازمین کا خیال رکھا گیا جنھیں عید آنے سے پہلے ہی بے روز گار ہونا پڑا...
رائل پام کلب انتظامیہ اور ریلوے حکام کے آپسی معاملات جو بھی ہوں لیکن فہمیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی طریقہ کارہوتا ہے۔ اگر ریلوے انتظامیہ کو کسی قسم کی شکایت تھی تو وہ نوٹس بھجواتی، حتمی وارننگ نوٹس بھجوایا جاتا یا کورٹ، پولیس وغیرہ کے ذریعے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا جاتا لیکن کیا کریں۔
بادی النظر میں اس اقدام کے پیچھے کئی سوال جنم لیتے ہیں؟ مثلاََ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ان تمام منصوبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے جو اس کے سخت حریف پرویز مشرف کے دور میں شروع کیے گئے تھے؟ کیوں کہ رائل پام انتظامیہ اور ریلوے کے درمیان 2001ء میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جس میں مدت، سالانہ کرایہ اور تمام شرائط و ضوابط طے کی گئی تھیںاور اگر کوئی فریق ان شرائط پر پورا نہیں اُتر رہا تو بجائے عدالتوں سے انصاف لینے کے ایک فریق دوسرے پر چڑھائی کردے،کیا ہمیں اپنے عدالتی نظام پر اعتبار نہیں؟ اگر نہیں تو اس سسٹم کو بدل کرکوئی نیا سسٹم لے آئیں۔
دوسرا سوال یہ کہ کیا پاکستان ریلوے کے تمام معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں؟ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کی ذیلی کمپنی جو اس کلب کو چلائے گی،وہ پہلے کونسا مثالی اور منافع بخش پراجیکٹ چلا رہی ہے جسے دیکھ کر معزز ممبران اور عوام یہ سمجھیں کہ واقعتاََ یہ کلب اسی معیارات کو سامنے رکھ کر چلایا جائے گا جن معیارات پر پرانی انتظامیہ چلا رہی تھی؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ بقول حکومتی وزیر کے کلب میں شراب خانہ چلایا جا رہا تھا، اگر ایسا تھا تو پنجاب میں 8سال سے ن لیگ کی حکومت ہے اور وفاق میں تین سال سے۔ آخر آج تک یہ حکومتیں خاموش کیوں رہیں؟ کیا ایک سنگل نوٹس کلب انتظامیہ کو بھجوایا گیا؟ وہاں پولیس کے اعلیٰ افسران، بیوروکریٹس اور چوٹی کے سیاستدان آیا کرتے تھے۔ کیا کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ یہاں کوئی غیر شرعی کام بھی ہو رہا ہے؟
پانچواں سوال یہ ہے کہ حکومت یا ریلوے انتظامیہ نے رائل پام انتظامیہ کے سوالوں کا ابھی تک جواب کیوں نہیں دیا؟ جس میں 12نکات اُٹھائے گئے ہیں۔ چھٹا سوال یہ ہے کہ جب اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں اور نیب کی مارچ 2013ء کی رپورٹ موجود ہے جو نیب نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق رائل پام انتظامیہ کا قبضہ غیر قانونی نہیں ہے تو ایسی صورت میں عدالتوں پر یقین کیوں نہیں؟ ساتواں سوال یہ ہے کہ حکومتی وزیر کے اس اقدام سے دنیا کو کیا پیغام ملا ہوگا کہ یہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا یہ حال کیا جاتا ہے؟ آٹھواں سوال یہ ہے کہ ریلوے پولیس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ اس طرح کے معاملات ہینڈل کرنے کی مجاز ہے؟
میرا بطور صحافی آخری سوال یہ ہے کہ ان دو ہاتھیوں کی لڑائی میں ممبران اور غریب ملازمین کا کیا قصور ہے جن کے لیے عید ہی ختم ہو چکی ہے اور ان کا کیا قصور ہے جنہوں نے افطار پارٹیوں کی بکنگ کروا رکھی تھی اور عید کے بعد شادیوں کی بکنگ بھی تھی۔کیا یہ کام عید کے بعد نہیں ہو سکتا تھا؟ اور پھر موصوف وزیر ریلوے فرماتے ہیں کہ ملک میں وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا بہت مشکل ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پانچ ہزار چوری کرنے والا جیل جائے اور اربوں روپے کھا جانے والے مزے سے گھومتے رہیں، ان کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ مختصر یہ ہے کہ اگر حکومت ہی اس ڈگر پر چل پڑے کہ جہاں جی چاہے طاقت کا استعمال کرلے تو پھر ہمارا سسٹم کہاں ہے؟ بہرحال اس معاملے کو اناؤں کے بجائے ذہانت اور زیرکی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب کرے (آمین)