ایک ہمہ جہت تخلیقی شخصیت
کتابوں کے انبار میں سے آج رضیہ فصیح احمد کی 2 کتابیں اچانک سامنے آگئیں
کتابوں کے انبار میں سے آج رضیہ فصیح احمد کی 2 کتابیں اچانک سامنے آگئیں۔ انھیں دیکھ کر شرمندگی سے میرا سر جھک گیا۔ وہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک افسانہ نگار اور ناول نگار کے طور پر ابھریں۔ ان کے ناول 'آبلہ پا' کو آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔ وہ ایک معتبر اور موقر ادبی شخصیت ہیں لیکن انھیں اس بات کی شکایت رہی کہ ان کی اس طور شہرت نہیں ہوئی جیسی بعض لوگوں کو بہت کم کام کرنے پر مل جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس کا پہلا سبب تو یہ رہا کہ ان کی شادی ایک فوجی افسر سے ہوئی اور یوں ان کی زندگی کا زیادہ وقت چھاؤنیوں میں گزرا اور جب فصیح احمد صاحب ریٹائرڈ ہوکر شہری زندگی میں آئے تو کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے امریکا جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوئی کہ کراچی اس قدر بے امان شہر ہو چکا تھا کہ بہت سے لوگوں نے اس شہر کو ترک کرنے میں ہی عافیت جانی۔
اس کے بعد آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہوا۔ یہ نہیں ہے کہ انھوں نے وہاں جاکر لکھنا چھوڑ دیا ہو۔ وہ لکھتی رہیں اور آج بھی لکھ رہی ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتابوں میں ایک شخصی خاکوں کی ''گل دستے اورگل دائرے'' ہے اور دوسری 'نامے مرے نام ' کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ ادیبوں نے ان کے نام جو خط لکھے وہ انھوں نے یکجا کرکے شایع کرائے ہیں یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ان کی کتابوں میں میرا خاکہ بھی ہے اور میرے خطوط بھی۔
رضیہ آپا کا فنی سفر 6 دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے، اس سفر میں انھوں نے افسانے لکھے، ناول تحریر کیے، ڈرامے بھی ان کے قلم سے نکلے۔ مشرقی پاکستان کو ہم نے مجبورکیا کہ وہ ہم سے الگ ہوجائے۔ اس نازک موضوع پر انھوں نے ایک ناول 'صدیوں کی زنجیر' لکھا۔ برا نٹے سسٹرز انھیں بہت محبوب تھیں۔ انگلستان گئیں تو واپس آکر ان کے بارے میں 'زخم تنہائی' لکھا۔ اس کے بعد بھی وہ لکھتی رہیں۔
ان سے مجھے اس بات کی شکایت رہی کہ وہ کبھی مصور بن جاتی ہیں اور امریکا جاکر تو باقاعدہ شعر کہنے لگیں 'شعری ' مجموعہ چھپ گیا۔ میں نے جب اس کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں کہ بھئی امریکا میں افسانہ نگاروں کو ادبی محفلوں میں گھاس نہیں ڈالی جاتی، اس لیے میں نے شعر کہنے شروع کردیے۔ اب ہر جگہ بلائی جاتی ہوں۔ ان کی اس بات پر میں ان سے بہت الجھی لیکن رضیہ آپا نے ایک نہیں سنی۔ میرا کہنا تھا کہ آپ اتنی اچھی لکھاری ہیں تو پھر مصوری اور شاعری کے جھنجھٹ میں کیوں پڑتی ہیں، لیکن وہ رضیہ آپا ہی کیا جو کسی دوست کی بات مان لیں۔ میرے خیال میں دشمنوں کی بات پر فوراً کان دھرتی ہیں۔
اب سے کئی برس پہلے کی بات ہے ، پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور پروڈیوسر قاسم جلالی نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ 'آبلہ پا' کو پی ٹی وی پر سیریل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ رضیہ آپا جھٹ پٹ تیار ہو گئیں لیکن شرط یہ لگائی کہ اس کی ڈرامائی تشکیل زاہدہ سے کراؤ۔ قاسم جلالی کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ میرے پاس تشریف لائے، کانٹریکٹ پر دستخط ہوئے اور کام شروع ہوگیا۔
اس دوران رضیہ آپا سے فون پر باتیں ہوتی رہیں۔ اچانک قاسم جلالی نے کہا کہ اس میں امریکا کی کہانی بھی شامل کرلیں۔ میں امریکا گیا تھا تو کچھ بہت اچھے شاٹس لے کر آیا ہوں۔ میں یہ سن کر حیران پریشان رہ گئی کیونکہ 'آبلہ پا' ایسے ناول کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کیا ہوسکتی تھی۔ میں نے فوراً رضیہ آپا کو فون کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے خیال سے متفق ہوں گی لیکن انھوں نے تو کمال ہی کردیا۔ کہنے لگیں ارے بھئی کیا فرق پڑتا ہے۔
فرق تو بہت پڑتا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ جو لوگ سیریل دیکھ کر آپ کا ناول خریدیں گے اور پڑھیں گے، وہ اس میں امریکا ڈھونڈتے رہ جائیں گے اور مجھے برا بھلا کہیں گے۔ رضیہ آپا میری بات ماننے پر تیار نہیں ہوئیں۔ میں نے کہا کسی اور سے امریکا والی قسطیں لکھوا لیں ، اس پر وہ راضی نہیں ہوئیں۔ ان سے دوستی کو 25 برس سے زیادہ ہوچکے تھے، آخرکار تھک ہار کر، جھک مارکر میں نے اس ناول کو کچھ سے کچھ کردیا۔ وہ پی ٹی وی پر چلا، پسند بھی کیا گیا لیکن کچھ خواتین نے مجھ سے یہ سوال ضرور کیا کہ میں نے کہانی کیوں بدل دی۔
وہ دو چار برس بعد آتی ہیں، فون کر کے اطلاع دیتی ہیں۔ میں ان سے ملنے جاتی ہوں لیکن ہمارے درمیان 'آبلہ پا' کا ذکر نہیں ہوتا۔ان کی 2 کتابیں جن کا ذکر کررہی ہوں وہ خاکے اور خطوط کے مجموعے ہیں۔ رواں اور برجستہ خاکے اور ان کے نام جو خط آئے انھیں بھی مرتب کرکے شایع کرا دیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی ہماری ایک اہم ادیب انھیں لکھتی ہیں :
''تمہیں خط لکھ کر امرتا پریتم کو اور اینی کو خط لکھنے کا ارادہ ہے اور پھر نیند یا چولھا۔ آج شام خالدہ (مشہور افسانہ نگار خالدہ حسین) کے ہاں میلاد ہے، وہاں جائیں گے اور دن بہر حال ختم ہوجائے گا۔ یونہی زندگی کے دن گزرے چلے جاتے ہیں۔ سردی کچھ کم ہورہی ہے۔ آسمان حجاب امتیار علی کے کہنے کے مطابق گہرا نیلا ہے، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہوا بہت خوبصورت لگتا ہے۔
ہوا میں سردی کے باوجود بہار کی مہک سی ہے۔ بدن سے چھو کر گزرے تو خوشگوار لگتی ہے۔ بسنت کی آمد کے لیے لوگوں نے پتنگوں کی ڈوروں میں مانجھا لگانا شروع کردیا ہے، نہایت عمدہ موسم ہے، لکھنے لکھانے اور یادوں کو تازہ کرنے کا موسم۔ تم تو کراچی کے رہنے والوں کی طرح سمندر کی گھن گرج اور جھاگ اڑاتی موجوں کی سی بے قرار Pattern میں اب set ہوگئی ہو۔ نوک پلک سے درست لکھنے پڑھنے اور تصویریں بنانے میں لگی ہوئی۔ سنو ایک بات کہوں تم سے رضیہ فصیح احمد یہ جو ساری طاقتیں اور قوتیں بکھیر کر اِدھر اُدھر مختلف محاذوں پر بیٹھی ہوئی ہو۔ کیوں نہیں ایک ہی محاذ پر اپنا سارا زور لگاتیں۔ آدمی آخر ایک اکائی ہی تو ہوتا ہے (اور تم بخد ابو علی سینا نہیں ہو) یہ میری آرزو ہے کہ ''لینڈ سلائیڈ'' سے بھی بڑھیا کہانیاں لکھو اور خوبصورت ناولوں سے اردو ادب کا دامن بھرو۔''
ہندوستانی ادیبوں سے بھی ان کی دوستیاں تھیں۔ اردو کی ایک نامور افسانہ نگار شکیلہ اختر نے انھیں ہندوستان سے خط لکھا:
''تم ایک کھلی کتاب ہو۔ ذرا بناوٹ نہیں، تصنع نہیں اور رضیہ بہن تمہاری سب سے نمایاں صلاحیت تو یہ ہے کہ تمہاری لکھی ہوئی ساری چیزیں اپنے اندر اتنی زندگی اور اتنی حقیقتیں رکھتی ہیں جو صرف فطرت ہی کا عطیہ ہوا کرتی ہیں۔ تم بڑی خوش نصیب ادیبہ ہو جو خدا کی اتنی بڑی دنیا میں اپنی آنکھوں سے زندگی کو اس کے ہر ایک انداز کو دیکھتی رہتی ہو۔ یہ تجربہ ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتا ہے؟ میں تمہیں کیسے بتاؤں رضیہ بہن کہ جب تمہارے افسانوں کو پڑھتی ہوں تو مجھے تم پر فخر ہونے لگتا ہے اور میرا دل خوشیوں سے جھوم اٹھتا ہے''
ہندوستان کے مشہور اور مستند نقاد ڈاکٹر محمد حسن نے ان کی ادبی حیثیت کو چند لفظوں میں سمیٹتے ہوئے لکھا:
''آپ کے افسانوں کی کیا تعریف کروں، واقعی ان افسانوں کو پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ آپ جن موضوعات کا انتخاب کررہی ہیں اور ان کو جو معنویت بخش رہی ہیں وہ نادر ہیں، اس کے علاوہ سماجی احتجاج کی ایسی شائستہ آواز اردو افسانے میں اس وقت تک موجود نہیں تھی جو آپ کے ہاں خاص طور پر ان افسانوں میں ابھری ہے۔ کاش ایسے اور افسانے بھی پڑھنے کو ملتے۔''
کہنے کو یہ مختلف ادیبوں کے خط ہیں جو ان کے نام آئے لیکن وہ اس دور کی عکاسی کرتے ہیں جب ادب ایک سنجیدہ کام تھا اور ادیب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ ان کے خطوط سے رضیہ آپا کی ہمہ جہت تخلیقی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔
رضیہ فصیح احمد کی یہ دونوں کتابیں اس بات کا اظہار ہیں کہ وہ ان لکھنے والوں میں سے نہیں جو 60 برس کی عمر میں قلم رکھ دیتے ہیں اور گزرے ہوئے دنوں کی شہرت کی گلابی دھوپ سینکتے ہوئے خوش رہتے ہیں۔ جی چاہ رہا ہے کہ رضیہ آپا کراچی کا ایک چکر اور لگائیں۔ امید یہی ہے کہ اس مرتبہ وہ نائین الیون کے بعد کے امریکا میں مسلمانوں کے لیے زندگی جس طرح سر کے بل کھڑی ہوگئی ہے، اس کے بارے میں کچھ لکھ کر لائیں گی اور ہماری ادبی دنیا میں اپنی بات کہیں گی۔