تنقید برائے تنقید ہمارا قومی مشغلہ

من حیث القوم ہم سب لوگ اب ایک ایسا طبقہ بنتے جا رہے ہیں

mnoorani08@gmail.com

من حیث القوم ہم سب لوگ اب ایک ایسا طبقہ بنتے جا رہے ہیں، جسے اپنے معاشرے میںکوئی اچھائی دکھائی ہی نہیں دیتی۔ ہم ہر وقت دوسروں کی برائیاں اور غلطیاں ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ طبیعت اور مزاج کی بیچینی نے اچھے برے کا فرق ہی مٹا دیا ہے۔ ہم اِسی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ اپنے ناپسندیدہ شخص کو غلط ثابت کر سکیں۔ ہمارے مفلسانِ فہم و ذکاء اپنی تحریروں، اور تبصروں سے ماحول میں سنسنی خیزی پھیلاتے رہتے ہیں بہتان طرازی کو مشغلہ بنا لیا ہے۔ سیاست میں ہم حریفانہ مہم جوئی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے اِس کردار کی تشکیل میں سب سے بڑا اور اہم رول الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ کہیں سے کوئی تہلکہ خیز خبر آ جائے وہ سارا کام چھوڑ کر بس اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔

پچھلے دنوں کراچی میں جناب امجد صابری کے قتل نے سب کو شدتِ غم سے نڈھال کر دیا مگر میڈیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو موضوعِ گفتگو بناتا رہا۔ ہر طرف سے اُس پر طنزو تنقید اور ہرزہ سرائی کے نشتر چلائے جانے لگے۔

اِسی طرح معاملہ جنرل پرویز مشرف کا ہو یا ماڈل گرل ایان علی کا۔ اُن کے ناموں کو اگر ''ایگزٹ کنٹرول لسٹ'' میں ڈال دیا جائے تو مخالفت اور ''ای سی ایل'' سے نکالا جائے تو تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پرویز مشرف کو حکومت نے ملک سے باہر جانے کیوں دیا۔ اُن پر جب آئین ودستور سے انحراف کرنے اور بلوچ لیڈر اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ شروع کیا جائے تو ہر طرف سے نہ تھمنے والا طوفان کھڑا ہو جائے۔ اب یہی عدالتیں اُن کے بیرونِ ملک چلے جانے پر حکومت سے برہم اور ناراض ہیں۔

بالکل اِسی طرح ایان علی کا معاملہ بھی ہے۔ اُسے اگر پاسپورٹ دیا جائے یا اُس کانام ''ای سی ایل'' سے نکالا جائے توہر جانب سے تنقید ہونے لگتی ہے اور اگر بیرونِ ملک جانے سے روک دیا جائے تو عدالت کہتی ہے کہ کیا وہ ایک دہشت گرد ہے۔ حکمران کریں تو کیا کریں۔ ایان علی جس طرح بن سنور کے عدالتوں میں حاضری کے لیے آتی جاتی رہی اُس پر بھی ہدفِ تنقید حکومت ہی بنتی رہی کہ یہ منفرد مجرمہ یاملزمہ ہے جسے پولیس کی قید میں بھی ہر سہولت حاصل ہے۔ پانچ لاکھ ڈالر لے جانے کے جرم میں اُسے پکڑنے والے پولیس انسپکٹرکو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ابھی اُس قتل کا عقدہ بھی کھلنا باقی ہے۔ ایان علی کو اگر جانے دے دیا جائے اور وہ واپس میں تشریف نہ لائے تو یہی عدالتیں ایک بار پھر حکومت ہی کو اِس کا ذمے دار گردانتی دکھائی دیں گی۔

رمضان المبارک اور عیدالفطر کے فوراً بعد ہماری اپوزیشن نے پانامہ لیکس کو لے کر ایک احتجاجی تحریک کا پروگرام بنایا ہے۔ اپنے اِس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے وہ جلسے جلوس، دھرنے اورلانگ مارچ سمیت جلاؤ گھیراؤ کر کے ملک اندر ایک بار پھر افراتفری پھیلانے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ ہمارے میڈیا پر بیٹھے حکومت مخالف صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی اِس سلسلے میں بے چینی اور شوقِ اضطراب دیدنی ہے۔ وہ اپنے اِن تباہ کن رویوں کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر ایک زبردست معرکہ آرائی کے انتظار میں آنے والے دنوں کی اب اُلٹی گنتی گن رہے ہیں۔


کیا وہ نہیں جانتے کہ وطنِ عزیز کو ابھی کن بیرونی اور اندرونی خطرات کاسامنا ہے۔ ایک طرف اسلام دشمن عالمی طاقتیں ہمیں نیست و نابود کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ وہ چین سے ہمارے بڑھتے ہوئے مراسم کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔ اُنہیں پاک چین رہداری کا منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ اُنہیں معلوم ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تو پاکستان اُن کی چنگل اور اثر و رسوخ سے باہر نکل آئے گا۔ اُن کی نظر میں یہ منصوبہ ہمارے بنائے گئے ''ایٹم بم'' سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ اِسے سبوتاژ کرنے کی جستجو اور فکر میں ہمہ وقت سرگرداں ہیں۔ ایسے میں ملک کے اندر اگر کوئی فساد یا ہنگامہ آرائی مچائی جائے تو اُن کے لیے یہ کام اور بھی آسان ہو جائے گا وہ یقینا اِسے مزید ہوا دینے لگیں گے۔

ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کا پاکستان چند سال پہلے کے پاکستان سے بہت مختلف اور بہتر ہے۔آج ملک کے اندر سے مایویسیوں اور نااُمیدوں کے بادل جھٹ چکے ہیں۔ قوم کو ایک خوشحال مستقبل دکھائی دے رہا ہے۔تمام مشکلات اور تکالیف کے باوجود موجودہ حکومت نے کئی بہترکام سرانجام بھی دیے ہیں۔ اُس سے بہرحال کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں بھی سرزد ہوئی ہونگی لیکن بحیثیت مجموعی تین سال کے مختصر عرصے میں اُس نے کامیابی اورکامرانی کے بہت سے سنگِ میل عبورکر لیے ہیں۔

اُس نے دس پندرہ سالوں پر محیط دہشت گردی کے عفریت کو نہ صرف قابو کیا ہے بلکہ نیست و نابود بھی کر دیا ہے۔ ہم اِس سلسلے میں حکمرانوں کے تعاون اور حمایت سے انکار نہیں کر سکتے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر وہی ہوتا جو اِس سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ پاک فوج پہلے بھی موجود تھی لیکن پہلے ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کیوں ترتیب نہ دیا جا سکا۔ کراچی بیس پچیس سالوں سے جل رہا تھا۔ وہاں آپریشن سے کوئی کیوں اجتناب برتتا رہا۔ سیاسی مجبوریاں اور مصلحتیں کس کے آڑے آتی رہیں۔ اِسی طرح آج کا بلوچستان کل کے بلوچستان سے بہت مختلف ہے۔ آج وہاں ملک دشمنی اور بغاوت کی بجائے قومی ہم آہنگی اور یگانت کی ترانے گائے جا رہے ہیں۔

بلوچ عوام میںاِستحصال اور احساسِ محرومی کا تاثر رفتہ رفتہ زائل ہو رہا ہے۔ سی پیک کا منصوبہ اُنہیں قومی دھارے میں لے آیا ہے۔ وہ اِس راہداری کی اہمیت و افادیت کے قائل ہوتے ہوئے ملک کی باقی اکائیوں سے جڑتے جا رہے ہیں۔ اُن کے لیے ترقی وخوشحالی کا ایک نیا باب اب کھلنے کو ہے۔ اب وہاں باغی اور علیحدگی پسند پہاڑوں سے نیچے اُتر آئے ہیں۔ وہ ہتھیار ڈال کر ملک کے محبِ وطن شہریوں میں خود کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کامیابیاں اِنہی تین سالوں کی مرہونِ منت ہیں۔

حکومتی کوششوں سے ملک کے اندر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا بھی وقت قریب آ رہا ہے۔ آج ہمارے انڈسٹریل سیکٹر کو بلاتعطل بجلی اور گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ گھریلو صارفین کی بھی مشکلات دور ہونے والی ہیں۔ قطر سے''ایل این جی'' کے معاہدے کی وجہ سے اب گیس کے بحران پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ ہمیں آج گاڑیوں میں ''سی این جی'' بھروانے والوں کی گیس اسٹیشنوں پر وہ لمبی لمبی قطاریں دکھائی نہیں دیتیں جو اَب سے تین سال پہلے دکھائی دے رہی تھیں۔ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اپنی تاریخ کی بلند سطح کو چھو رہے ہیں۔

اسٹاک ایکسچینج بھی اپنی کامیابی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے۔ جس کی وجہ سے اب اُسے ''ایم ایس سی آئی ایمرجنگ ایکس چینج انڈیکس'' میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اِس کے علاوہ ریلوے اور پی آئی اے کو فعال اور منافع بخش بنانے کی سمت میں بھی بہت کام ہو رہا ہے۔ سارے ملک میں سڑکوں اور موٹرویزکا جال بچھایا جا رہا ہے۔ ہم اور ہمارے لوگ حکومت کی اِس کارکردگی کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی بجائے ہر وقت اُن میںکیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایک آزاد جمہوری معاشرے میں حکومتی کاموں پر تنقید بہرحال ایک جائز اور درست طرزِ عمل ہے بشرطیکہ وہ مثبت اور تعمیری تنقید ہو۔ صرف تنقید برائے تنقید نہ ہو۔
Load Next Story