پیاسوں کو شبنم تک نہیں مل رہی
ہمیں پہلے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں رہا کہ ہم جوکچھ لکھتے ہیں وہ مزاح ہوتا ہے
باخبرذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک مشہور تھنک ٹینک نے کراچی شہرکو درپیش پانی کی قلت کے سنگین مسئلے کا ایک ایسا حل تیار کیا ہے، جس پر اگر عملدرآمد کر لیا جائے تو کراچی کے شہریوں کو وافر مقدارمیں پانی فراہم کیا جا سکتا ہے اور بے شک دودھ کی نہریں نہ سہی پانی کی نہریں ضرور بہہ سکتی ہیں، ویسے بھی پیاسے شہریوں کی اکثریت کے لیے پانی کی قدر و قیمت دودھ سے بھی بڑھ گئی ہے۔
ہمیں پہلے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں رہا کہ ہم جوکچھ لکھتے ہیں وہ مزاح ہوتا ہے اور ہمارا کالم مزاحیہ ہوتا ہے مگر ہم آج جو کچھ لکھنے جا رہے ہیں وہ خاصا سنجیدہ ہو سکتا ہے اور ہم اس سلسلے میں مجبور بھی ہیں کیونکہ ہم آج شہر کے ایک ایسے مسئلے پر قلم اٹھا رہے ہیں جو خاصا سنجیدہ بھی ہے اور سنگین بھی۔
ہاں تو ہم نے جس تھنک ٹینک سے بات شروع کی تھی اس نے پہلی شرط یہ رکھی ہے کہ اس کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا وہ تو کم از کم اس مرحلے پر اس منصوبے کو طشت ازبام کرنے پر بھی تیار نہیں ہے مگر ہم نے اپنے ذرایع سے اس منصوبے کے خاص خاص خدوخال حاصل کر لیے ہیں۔
اس میں بہرحال کوئی شک نہیں ہے کہ یہ شہر اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے گوناگوں مسائل سے دوچار ہے، ماحول کی آلودگی ہے جس سے لوگ نامحسوس طریقے سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، ایک طرف پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے، دوسری طرف شہرکی سڑکوں پر بے پناہ ٹریفک ہے اور تقریباً روزانہ صبح اور شام کے Peak Hours میں ٹریفک جام دیکھنے میں آتا ہے لیکن اب بھی شہرکے مسائل کی جو چھوٹی سے چھوٹی فہرست مرتب کی جاتی ہے، اس میں پانی اور بجلی سرفہرست ہوتے ہیں۔
مگرآج ہمیں پانی کی قلت کے بارے میں بات کرنی ہے جسے شہرکا سنگین ترین مسئلہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ بجلی کی اہمیت اپنی جگہ مگر پانی کو زندگی کے لیے اشد ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ اچھے خاصے معقول پڑھے لکھے لوگ پانی کی تلاش میں سرگرداں اور پریشان نظر آتے ہیں گھر والوں کے لیے پانی کا بندوبست کرنے کی خاطر رات رات بھر جاگتے ہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے گھر میں کنوئیں کھدوا لیے ہیں اور وہ مجبوراً بورنگ کا مضر صحت پانی استعمال کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ ادھر ماہرین کے خیال میں زیرزمین پانی کی سطح بھی کم ہو رہی ہے اور یہ ذریعہ بھی جو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے پانی کا مسئلہ فی الحال حل کر دیا ہے جواب دے سکتا ہے۔ خدا کرے جیسے کہ پیشین گوئیاں ہو رہی ہیں آیندہ چل کر کراچی میں بارشیں ہو جائیں اور مزید کچھ عرصے کے لیے زیر زمین پانی کا ذخیرہ ہو جائے اور لوگ اس جدید دور میں بھی کنوؤں سے کام چلاتے رہیں۔
یوں تو ایک خفیہ ہاتھ شہرکراچی کو ایک نہ ایک مسئلے سے دوچار ڈسٹرب رکھنے اور شہریوں کو پریشانیوں میں مبتلا کیے رہنے کے لیے کام کرتا رہتا ہے مگر پانی کی قلت کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ذمے دار ٹینکرز مافیا بھی ہے جو اپنے مفاد میں اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتی۔ پھر جو اس شہر کے حکمراں ہونے کے دعویدار ہیں ان میں سے بیشتر اس شہر میں نہیں رہتے اور اس شہر کے مسائل کا بنفس نفیس مزہ نہیں چکھتے۔
جہاں تک اس حل کا تعلق ہے جو تھنک ٹینک نے پیش کیا ہے وہ سچی بات ہے کوئی ایسا حل نہیں ہے جو اس سے پہلے پیش نہ کیا گیا ہو بلکہ ہو سکتا ہے بعض قارئین حل پڑھنے کے بعد ہمیں کھودا پہاڑ نکلا چوہا کا طعنہ نہ دینا شروع کر دیں۔ بہرحال یہ کوئی ایسا مضحکہ خیز ناقابل عمل حل بھی نہیں ہے مثلاً لوگ پانی کا استعمال چھوڑ دیں۔ روز روز کے بجائے جمعے کے جمعے نہائیں۔ اپنے نہانے دھونے کا استعمال شدہ پانی ہی فلیش کی طرف Divert کر دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
تھنک ٹینک نے سب سے پہلے تو اس بات پر غم و غصے کا اظہارکیا ہے کہ سمندرکے کنارے رہنے کے باوجود ہم پانی کی قلت کا شکار ہیں اور ہم نے آج تک اپنے سمندرکے پانی کو استعمال کرنے کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرنے کی ہمت، جرأت اور''استطاعت'' نہیں کی ہے۔ حالانکہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے سمندرکے پانی کو قابل استعمال بنا کر شہریوں کو فراہم کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے یہاں ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں کے سمندر کا پانی بھی اس قابل ہے کہ اسے ٹریٹمنٹ کے ذریعے کسی نہ کسی استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ہے یہ طریقہ مشکل اور مہنگا ضرور ہو گا مگر بالکل ہی ناممکن نہیں ہے اور کچھ نہیں تو سرکاری سطح پر اس کا تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
تھنک ٹینک کی تجویزکا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ ٹریٹمنٹ پلانٹ جو ممکن حد تک وسیع استعداد کے ہوں گے وہ سمندرکے اس حصے میں تعمیرکیے جائیں جو ہمارے ہالیجی جھیل اور حب ڈیم جیسے ذخائر آب کے قریب تر ہوں اور سمندرکا پانی ان ذخیروں تک پہنچایا جا سکے یا پھر ایسے ٹریٹمنٹ پلانٹس کے لیے نئے ذخائر آب تعمیر کیے جائیں جن کو شہر کی موجودہ واٹر پائپ لائنوں سے منسلک کیا جا سکے۔ جہاں تک ان واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی لاگت کا تعلق ہے ان کے لیے شہریوں پر ایک مخصوص ٹیکس عائدکیا جا سکتا ہے اگر لوگوں کو یہ اطمینان دلا دیا جائے کہ ان کا پانی کا مسئلہ حل ہونے جا رہا ہے تو وہ اس قسم کا ٹیکس ادا کرنے میں یقینا ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گے۔
مذکورہ تھنک ٹینک نے ایسا کوئی منصوبہ تیار ہونے کی صورت میں ''کمیشن'' کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنی خدمات کی پیشکش بھی کی ہے کیونکہ بقول تھنک ٹینک کے بعض ذمے داروں کے کمیشن کے بغیر پاکستان میں نہ کوئی منصوبہ بنتا ہے، نہ شروع ہوتا ہے اور نہ مکمل ہوتا ہے اگر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے منصوبے میں بھی یہ گنجائش پہلے ہی رکھ لی جائے تو بے حد مناسب ہو گا۔ تاہم تھنک ٹینک نے مشورہ دیا ہے کہ اس قسم کا کمیشن منصوبہ مکمل اور شہریوں کو پانی کی فراہمی شروع ہونے پر ادا کیا جائے گا وگرنہ بقول ان کے کمیشن حقدار تک پہنچ بھی جائے گا اور منصوبہ محض کاغذوں تک محدود رہے گا۔
عوام کو درپیش پانی کا مسئلہ ہمارے ملک کے حکمرانوں کے لیے بھی چیلنج کا درجہ رکھتا ہے اور یقینا ان کی غیرت اور ضمیرکو جوش دلاتا ہو گا اس ملک کے قیام کو تقریباً ستر سال ہونے کو آئے ہیں اور یہاں کے عوام ابھی تک پانی جیسی زندگی کے لیے درکار بنیادی شے سے محروم ہیں، ایسے حکمراں جوش میں آ کرکراچی کے کسی ساحل پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا ایک بڑا منصوبہ شروع کروا سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرگزرے تو یقینا تاریخ میں ان کا نام سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا اور وہ اگلے انتخابات میں ووٹوں کے حقدار ہو سکیں گے۔