مرغی چور اندر اور قاتل آزاد
ہمارے ہاں قاتل کو رہا کر دیا جاتا ہے، اس لیے کہ مقتول کے اہل خانہ اسے معاف کر دیتے ہیں
ہمارے ہاں قاتل کو رہا کر دیا جاتا ہے، اس لیے کہ مقتول کے اہل خانہ اسے معاف کر دیتے ہیں اور مرغی چور کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے۔ یہ فیصلے اپنی جگہ پر، لیکن میں کچھ سوال اٹھانا چاہتا ہوں۔ ایک شخص نے مسلسل کسی کے پانچ مرغے چوری کیے۔ عدالت نے اس کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ جب کہ ماں کے قتل پر قاتل بیٹے کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ اس لیے کہ قاتل بیٹے کے بھائی اور بہنوں نے اسے معاف کر دیا اور اسے رہائی مل گئی۔
اسی طرح ایک پولیس افسر نے اپنی اہلیہ کو گولی مار دی اور اسے بھی ضمانت پر رہائی مل گئی، اس لیے کہ گواہ منحرف ہو گیا اور وکیل سرکار نے ضمانت لینے کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کراچی یونیورسٹی میں کرپشن پر یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج ریٹائرڈ میجر نے کرپشن کے خاتمے کے لیے انتظامیہ کو للکارا۔ جس پر انتظامیہ نے انھیں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دی۔
ایک سال میں کرپشن خاصی حد تک بے نقاب ہونے لگی۔ بعد ازاں انھیں اعلیٰ سربراہ کی جانب سے کارروائی سے روکا گیا۔ اب انھوں نے عدالت سے رجوع کیا اور کراچی یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اسی اثنا میں ایف آئی اے کی جانب سے چھاپے اور تحقیقات شروع ہو گئی، نتیجتاً یہ انکشاف ہوا کہ سات سو ملازمین کی ناجائز بھرتیاں ہوئیں۔ جب کرپشن کے پول کھلنے لگے اور ٹی وی پر خبر آنے لگی تو حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو کراچی یونیورسٹی پر چھاپے اور تحقیقات کو روکنے کا فیصلہ صادر کیا۔
'ازخود نوٹس' کا سلسلہ کسی دور میں آئے روز چلتا تھا۔ مگر تقریباً معروف لوگوں اور واقعات پر ازخود نوٹس لیے جاتے تھے نہ کہ عام لوگوں کے لیے۔ ابھی حال ہی میں پنجاب میں ایک چائے والے نے جب پولیس سے چائے کے پیسے مانگے تو اس نے چائے والے پر تشدد کرکے اسے ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کا عدالت نے از خود نوٹس لینے کے بجائے پولیس اہلکاروں نے چائے والے کے خاندان کو ڈرایا دھمکایا اور پھر ان کے اہل خانہ نے پولیس والے کو معاف کر دیا۔ اب قاتل آزاد اور مقتول منوں مٹی تلے دفن ہو گیا۔
خیبرپختونخوا میں ایک خاتون کے دوسری بار لڑکی پیدا ہونے پر اس کا شوہر اس حد تک ناراض اور غصہ ہو گیا کہ بیوی پر حملہ آور ہو گیا، بیوی نے بھاگ کر جان بچائی۔ اب لڑکی پیدا ہو یا لڑکا، یہ اس خاتون کے ہاتھ میں نہیں۔ پہلی روسی خلانورد بھی خاتون تھی۔ اب ایسے واقعے پر کیا عدالت کو از خود نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟ سیالکوٹ میں ایک مسیحی لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد لڑکی کے والدین نے لڑکی اور داماد کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور پہنچنے پر دونوں کو لڑکی کے اہل خانہ نے قتل کر دیا۔
یہ بھی دل دہلا دینے والا واقعہ ہے، اس پر بھی عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہیے تھا۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں ایک شادی شدہ جوڑا جس نے اپنی مرضی سے تین سال قبل شادی کی اور لڑکی حاملہ تھی۔ ایک روز بازار میں لڑکی اپنی ساس کے ساتھ سودا لینے آئی۔ اسی دوران لڑکی کی ماں، بہن اور بھائی بھی بازار میں آئے تھے۔ جب ان کی لڑکی پر نظر پڑی تو وہ غصے میں آگ بگولہ ہو گئے اور بھرے بازار میں تینوں افراد اس حاملہ لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے، راستے میں اس پر شیشے کی بوتل سے وار کرتے رہے، وہ راستے میں ہی لہولہان ہو گئی تھی۔ پھر جب گھر لے گئے تو اسے سب نے مل کر قتل کر دیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ مرضی سے شادی کرنا جرم نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے، تو پھر عدالت کو اس سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور کسی کی جان لینے کے خلاف 'ازخود نوٹس' لینا چاہیے تھا۔ جب کہ ہماری عدالتیں ازخود نوٹس معروف واقعات اور افراد پر ہی اکثر لیتی ہیں۔
عدالتیں تو معصوم انسانوں کی محافظ ہوتی ہیں۔ عوام کو جینے کا حق اور یقین دلاتی ہیں۔ پاکستان میں ہی اگر سپریم کورٹ دو وزرائے اعظم کی چھٹی کرسکتا ہے تو پھر کیا گزشتہ دو تین ہفتوں میں تقریباً چودہ ایسے واقعات کا ازخود نوٹس عدالتوں کو نہیں لینا چاہیے تھا؟ اگر ان قتال کے خلاف ہماری عدالتیں 'ازخود نوٹس' لیتے ہوئے عمرقید کی سزائیں سناتیں تو دوسرے کم از کم ایسی سزاؤں سے آیندہ ایسے جرائم کرنے سے قبل سو بار سوچتے۔
1956ء کی بات ہے کہ فلپائن کے ایک قدیم جزیرے میں 150 افراد پر مشتمل ایک جنگلی انسانی جھنڈ نظر آیا۔ وہ ہو ہا کے علاوہ کچھ نہیں بول سکتے۔ ننگ دھڑنگ تھے، آگ جلانا نہیں آتا تھا، صرف شکار کر کے کھاتے تھے۔ لیکن ان میں سب سے بڑا کام یہ تھا کہ اگر کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکار کر دے تو اسے سماج سے نکال باہر دیتے۔ انھیں دشمن، میرا، تیرا اور قتل کا لفظ معلوم تھا اور نہ مطلب۔ خواہ وہ جنگلی کیوں نہ ہوں۔ آج کے مہذب معاشرے سے ان کی عادات کہیں بہتر تھیں۔ اسی لیے روسو نے ایسے لوگوں کو 'معصوم وحشی انسان' کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ مگر آج چاند پر پہنچنے والی سائنسی اور تیکنیکی ترقی کرنے والی دنیا میں روزانہ ایسے ہزاروں معصوم انسانوں کا قتل ہوتا ہے اور عدالتیں بے بس ہیں۔
پاکستان میں پہلے اپنی مرضی سے شادی کرنے پر اکا دکا واقعہ ہوتا تھا مگر اب تو تقریباً روز ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ اس مسئلے پر فوری طور پر 'ازخود نوٹس' لے، جس میں ان سفاک اور انسانیت سوز قتال کو روکا جا سکے۔ اب دس ہزار تنخواہ پانے والا مزدور کہاں سے سپریم کورٹ جائے گا۔ وہاں تو وکیل کی فیس ہی لاکھوں روپے کی ہوتی ہیں۔ اس لیے غریبوں، مزدوروں، کسانوں، بے بسوں اور بے کسوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف عدالتوں کو ازخود نوٹس لے کر انصاف دینا چاہیے ورنہ ہمارا معاشرہ جہنم نما ایک قید خانہ بن جائے گا۔ آزادی کا ہم دن مناتے ہیں، جشن مناتے ہیں، جھنڈے لہراتے ہیں، سیمینار اور سیمپوزیم کرتے ہیں۔ یہ سب کس کام کا؟ ادھر انسانیت تڑپتی ہے اور ادھر ہم فائیو اسٹار ہوٹلوں میں خطاب کر رہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایک پولیس افسر نے اپنی اہلیہ کو گولی مار دی اور اسے بھی ضمانت پر رہائی مل گئی، اس لیے کہ گواہ منحرف ہو گیا اور وکیل سرکار نے ضمانت لینے کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کراچی یونیورسٹی میں کرپشن پر یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج ریٹائرڈ میجر نے کرپشن کے خاتمے کے لیے انتظامیہ کو للکارا۔ جس پر انتظامیہ نے انھیں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دی۔
ایک سال میں کرپشن خاصی حد تک بے نقاب ہونے لگی۔ بعد ازاں انھیں اعلیٰ سربراہ کی جانب سے کارروائی سے روکا گیا۔ اب انھوں نے عدالت سے رجوع کیا اور کراچی یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اسی اثنا میں ایف آئی اے کی جانب سے چھاپے اور تحقیقات شروع ہو گئی، نتیجتاً یہ انکشاف ہوا کہ سات سو ملازمین کی ناجائز بھرتیاں ہوئیں۔ جب کرپشن کے پول کھلنے لگے اور ٹی وی پر خبر آنے لگی تو حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو کراچی یونیورسٹی پر چھاپے اور تحقیقات کو روکنے کا فیصلہ صادر کیا۔
'ازخود نوٹس' کا سلسلہ کسی دور میں آئے روز چلتا تھا۔ مگر تقریباً معروف لوگوں اور واقعات پر ازخود نوٹس لیے جاتے تھے نہ کہ عام لوگوں کے لیے۔ ابھی حال ہی میں پنجاب میں ایک چائے والے نے جب پولیس سے چائے کے پیسے مانگے تو اس نے چائے والے پر تشدد کرکے اسے ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کا عدالت نے از خود نوٹس لینے کے بجائے پولیس اہلکاروں نے چائے والے کے خاندان کو ڈرایا دھمکایا اور پھر ان کے اہل خانہ نے پولیس والے کو معاف کر دیا۔ اب قاتل آزاد اور مقتول منوں مٹی تلے دفن ہو گیا۔
خیبرپختونخوا میں ایک خاتون کے دوسری بار لڑکی پیدا ہونے پر اس کا شوہر اس حد تک ناراض اور غصہ ہو گیا کہ بیوی پر حملہ آور ہو گیا، بیوی نے بھاگ کر جان بچائی۔ اب لڑکی پیدا ہو یا لڑکا، یہ اس خاتون کے ہاتھ میں نہیں۔ پہلی روسی خلانورد بھی خاتون تھی۔ اب ایسے واقعے پر کیا عدالت کو از خود نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟ سیالکوٹ میں ایک مسیحی لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد لڑکی کے والدین نے لڑکی اور داماد کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور پہنچنے پر دونوں کو لڑکی کے اہل خانہ نے قتل کر دیا۔
یہ بھی دل دہلا دینے والا واقعہ ہے، اس پر بھی عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہیے تھا۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں ایک شادی شدہ جوڑا جس نے اپنی مرضی سے تین سال قبل شادی کی اور لڑکی حاملہ تھی۔ ایک روز بازار میں لڑکی اپنی ساس کے ساتھ سودا لینے آئی۔ اسی دوران لڑکی کی ماں، بہن اور بھائی بھی بازار میں آئے تھے۔ جب ان کی لڑکی پر نظر پڑی تو وہ غصے میں آگ بگولہ ہو گئے اور بھرے بازار میں تینوں افراد اس حاملہ لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے، راستے میں اس پر شیشے کی بوتل سے وار کرتے رہے، وہ راستے میں ہی لہولہان ہو گئی تھی۔ پھر جب گھر لے گئے تو اسے سب نے مل کر قتل کر دیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ مرضی سے شادی کرنا جرم نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے، تو پھر عدالت کو اس سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور کسی کی جان لینے کے خلاف 'ازخود نوٹس' لینا چاہیے تھا۔ جب کہ ہماری عدالتیں ازخود نوٹس معروف واقعات اور افراد پر ہی اکثر لیتی ہیں۔
عدالتیں تو معصوم انسانوں کی محافظ ہوتی ہیں۔ عوام کو جینے کا حق اور یقین دلاتی ہیں۔ پاکستان میں ہی اگر سپریم کورٹ دو وزرائے اعظم کی چھٹی کرسکتا ہے تو پھر کیا گزشتہ دو تین ہفتوں میں تقریباً چودہ ایسے واقعات کا ازخود نوٹس عدالتوں کو نہیں لینا چاہیے تھا؟ اگر ان قتال کے خلاف ہماری عدالتیں 'ازخود نوٹس' لیتے ہوئے عمرقید کی سزائیں سناتیں تو دوسرے کم از کم ایسی سزاؤں سے آیندہ ایسے جرائم کرنے سے قبل سو بار سوچتے۔
1956ء کی بات ہے کہ فلپائن کے ایک قدیم جزیرے میں 150 افراد پر مشتمل ایک جنگلی انسانی جھنڈ نظر آیا۔ وہ ہو ہا کے علاوہ کچھ نہیں بول سکتے۔ ننگ دھڑنگ تھے، آگ جلانا نہیں آتا تھا، صرف شکار کر کے کھاتے تھے۔ لیکن ان میں سب سے بڑا کام یہ تھا کہ اگر کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکار کر دے تو اسے سماج سے نکال باہر دیتے۔ انھیں دشمن، میرا، تیرا اور قتل کا لفظ معلوم تھا اور نہ مطلب۔ خواہ وہ جنگلی کیوں نہ ہوں۔ آج کے مہذب معاشرے سے ان کی عادات کہیں بہتر تھیں۔ اسی لیے روسو نے ایسے لوگوں کو 'معصوم وحشی انسان' کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ مگر آج چاند پر پہنچنے والی سائنسی اور تیکنیکی ترقی کرنے والی دنیا میں روزانہ ایسے ہزاروں معصوم انسانوں کا قتل ہوتا ہے اور عدالتیں بے بس ہیں۔
پاکستان میں پہلے اپنی مرضی سے شادی کرنے پر اکا دکا واقعہ ہوتا تھا مگر اب تو تقریباً روز ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ اس مسئلے پر فوری طور پر 'ازخود نوٹس' لے، جس میں ان سفاک اور انسانیت سوز قتال کو روکا جا سکے۔ اب دس ہزار تنخواہ پانے والا مزدور کہاں سے سپریم کورٹ جائے گا۔ وہاں تو وکیل کی فیس ہی لاکھوں روپے کی ہوتی ہیں۔ اس لیے غریبوں، مزدوروں، کسانوں، بے بسوں اور بے کسوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف عدالتوں کو ازخود نوٹس لے کر انصاف دینا چاہیے ورنہ ہمارا معاشرہ جہنم نما ایک قید خانہ بن جائے گا۔ آزادی کا ہم دن مناتے ہیں، جشن مناتے ہیں، جھنڈے لہراتے ہیں، سیمینار اور سیمپوزیم کرتے ہیں۔ یہ سب کس کام کا؟ ادھر انسانیت تڑپتی ہے اور ادھر ہم فائیو اسٹار ہوٹلوں میں خطاب کر رہے ہوتے ہیں۔