خواتین اور عید
اس دفعہ عید پر خاتون خانہ کی مہینہ بھر کی محنت یاد رکھیں، اور انہیں سراہیں تاکہ انکی محنت وصول ہوجائے۔
یوں تو رمضان اور عید کی تیاریوں کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے، لیکن کیوں نہ آج ہم کچھ نئی بات کریں۔ کیوں نہ آج ہم افراد خانہ کے روزوں اور پھر عید کو پُررونق اور پُرسکون بنانے والی ہستی کا ذکر کریں جو ایک بھی دن بنا چھٹی کئے اپنا کام بخوبی انجام دیتی ہیں۔
جی ہاں! یہاں ذکر ہورہا ہے خواتین کا، جو چاہے گھریلو ہوں یا نوکری پیشہ آجکل کے انتہائی گرم موسم کی سختیوں کی پروا کئے بغیر نہ صرف روزمرہ کے کام انجام دیتی ہیں بلکہ رمضان کے مہینے کے اضافی کام بھی کرتی ہیں یعنی سحر اور افطار میں گھر والوں کی پسند نا پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے اہتمام کرنا، اور اگر گھر میں بزرگ یا چھوٹے بچے موجود ہیں جو روزہ نہیں رکھتے انکے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا۔ ساتھ ساتھ اپنے مذہبی فرائض اور ماہ صیام کی خصوصی عبادات کی ادائیگی بھی خوش اسلوبی سے کرتی ہیں اور رواج کے مطابق گھروں میں وسیع یا محدود پیمانے کی افطار پارٹی اور محلے کے گھروں میں افطار کے لوازمات بھیجنا بھی خاتون خانہ کی ذمہ داری ہوتا ہے۔
اس سب کے دوران عید کی تیاریاں بھی جاری و ساری رہتی ہیں۔ کہتے ہیں خاتون خانہ عقلمند اور سلیقہ مند ہوں تو اینٹ پتھر کا مکان خوشیوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ خواتین اسی پیرائے کو سامنے رکھتے ہوئے آجکل کے مسائل سے نبرد آزما رہتی ہیں۔
مہنگائی کے اس دور میں تہواروں کی تیاری اور اہتمام انتہائی مشکل کام ہے۔ بالخصوص سفید پوش طبقے کیلئے اور ہمارے یہاں اس طبقے کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو اپنا معاشرتی بھرم ہر صورت قائم رکھتے ہیں۔ ایسے گھروں میں مرد حضرات کی نسبت خواتین کیلئے تہوار امتحان کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ قوت خرید محدود ہونے کے باعث کم خرچ بالا نشین کا فارمولا آزمانا پڑتا ہے۔ جسکے تحت گھروالوں کی خوشی خصوصاً بچوں کی فرمائش کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور دنیاداری کے تقاضے اور امیدیں بھی پوری کی جاتی ہیں۔
اکثر گھرانوں میں گھر کے لئے نئی آرائشی اشیاء خریدنے کے بجائے زیر استعمال چیزوں کی از سر نو تراش خراش کرکے انہیں نیا رنگ روپ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات فرنیچر کی ترتیب بدل کر کمروں کو نیا انداز دیا جاتا ہے۔ پھر خریداری کے مشکل مراحل کم آمدنی کے باوجود طے کرنے پڑتے ہیں کہ سالانہ تہواروں پر ہر کوئی اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنا چاہتا ہے۔ نئے جوتوں کپڑوں کی خریداری کی جاتی ہے جن خواتین کو سلائی آتی ہے وہ اپنے اس ہنر کو بروئےکار لاتے ہوئے کافی بچت کرلیتی ہیں اور پھر بچت کے ان پیسوں کا استعمال دیگر ضروریات میں کر لیتی ہیں۔
تحفے تحائف کا انتظام الگ مسئلہ ہے، کسی کے گھر خالی ہاتھ جانا معیوب سمجھا جاتا ہے، یہاں بھی خواتین کے سلیقے کا امتحان ہوتا ہے کہ کس طرح کم پیسوں میں یہ کام بھی ہوجائے۔ کچھ خواتین تحائف کی خریداری وقتاً فوقتاً کرکے عین موقع کی اس مشکل کو کم کرلیتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ عید بقرعید پر ہی سب سے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے لہذٰا اپنے بجٹ میں خریداری کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ پھر بھی ارباب اختیار عوام کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے محض تہنیتی پیغام پر ٹرخا دیتے ہیں۔
اسکے بعد مرحلہ آتا ہے عید پر مہمانداری کا، مہمان چونکہ ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کا اہم اور لازمی جزو ہیں لہذا انکی خاطرداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ خاتون خانہ اس مرحلے کی تیاری بھی پوری لگن سے کرتی ہیں رمضان کے آخری ہفتے میں اشیائے خورد و نوش کی خریداری کی جاتی ہے، پھر عید پر پکنے والے پکوانوں کی فہرست تیار کرکے اسکے حساب سے چیزیں تیار کی جاتی ہیں اور انہیں فریز کردیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت کم وقت میں بہترین چیزوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاسکے اور مہمانوں کے ساتھ وقت بھی گزارا جاسکے۔ غرض ماہ صیام کے تیس دنوں کی تھکاوٹ اور بے آرامی کی پروا کئے بغیر خواتین عید کے تینوں دن اپنی فیملی کی مسکراہٹوں، خوشیوں اور مہمانداری کی رسومات کا بھرپور اہتمام کرتی ہیں۔
مالی طور پر مستحکم گھرانوں کی خواتین کے لئے یہ تیاریاں آسان ہیں کیونکہ 'ریڈی ٹو کک' چیزوں کی بدولت سخت گرمی میں باورچی خانے میں کم وقت صرف کرنا پڑتا ہے، پھر نوکر کا تعاون بھی حاصل رہتا ہے لیکن متوسط طبقے کی خواتین ان تمام کاموں کو بذات خود پورا کرتی ہیں۔ یہی فرق اپنی خریداری اور گھر کی سجاوٹ کے وقت نمایاں رہتا ہے لیکن طبقہ کوئی بھی ہو رمضان اور عید خواتین کے لئے مصروفیت اوردہری محنت ساتھ لاتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس تمام تیاری میں خواتین اپنے ہار سنگھار کا پورا خیال رکھتی ہیں، اپنی چوڑیاں، مہندی، میک اپ ہر ہر چیز پر عقابی نظر رکھتی ہیں تاکہ گھر اور گھر والوں کے ساتھ ساتھ خود بھی بہترین نظر آئیں۔ سو اس دفعہ عید پر کسی کے مہمان بنتے ہوئے خاتون خانہ کی مہینہ بھر کی محنت ضرور یاد رکھیں، اور انہیں سراہیں تاکہ انکی محنت وصول ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔