خود کشی ٹیسٹ

عجیب لوگ ہیں، جئے جاتے ہیں، جئے جاتے ہیں۔ بیماریاں، وسائل کی کمی، دکھوں تکلیفوں میں جکڑے ہوئے، کیوں آخر کیوں؟

خود کشی کا مطلب ہے ایسا سپہ سالار بننا جو اپنے جانثاروں کو خود قتل کرے، اور کسی جرم کے بغیر جگری یاروں کا گلا گھونٹ دے۔ فوٹو:رائٹرز

خود کش طیارے کیسے ہو؟ ڈاکٹر پیکیوڈ نے موٹے چشمے کے اوپر سے اسکا معائنہ کیا۔


چارپائی پر پڑے وجود نے اٹھنےکی کوشش کی۔


ارے بھی لیٹے رہو، جیسے بھی ہو مہمان ہو میرے، یہ لو پی جاؤ غٹاغٹ، ڈاکٹر نے دوا اور پانی کا گلاس آگے کیا۔


اس نے بے تاثر نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا اور گلاس تھام لیا۔


تو قصہ یہ ہے پتر، ڈاکٹر نے موڑھا گھسیٹ کے اس کے قریب کیا اور غور سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ قدرت کو تیری یہ جواں مردی پسند نہیں آئی۔


پر تم کون؟؟ میں تو، یہاں کیسے؟


چپ، کوئی سوال نہیں۔ تو نے یہاں آنا تھا بس، کیسے آیا، کون لایا، کس نے تجھے بچایا بلکہ نہیں پھنسایا، دوبارہ زندگی کے جھنجٹ میں، سب اضافی سوال ہیں۔ بس اتنا جان لے کہ زندگی کی جنگ میں ہتھیار نہیں پھینکتے۔ جان لڑانی پڑتی ہے بس۔


جان ہی تو لڑانے کی کوشش کی تھی، اس نے بلبلا کر کہا۔


ناں! اسے جان لڑانا نہیں جان لینا کہتے ہیں، اور جان لینے کا حق صرف اسے ہے جس نے دی ہے۔ یہ رب کی امانت ہے، نوجوان نے بے بسی سے سر جھکالیا۔ اب دیکھ جیسے میں تجھے اپنی سائیکل دوں استعمال کے لئے بالکل مفت اور تو اسے کبھی خراب ہونے پر مرمت کرانے کے بجائے نہر میں پھینک آئے تو کیا یہ ۔۔۔۔


زندگی سائیکل نہیں ہے، وہ بات کاٹتے ہوئے چیخ اٹھا۔ اسے استعمال نہیں کیا جاتا، سہا جاتا ہے اسکا ہر وار روح پر سہا جاتا ہے، اور جب سہنے کی سکت نہیں رہتی تب ہی کوئی موت کو منہ لگاتا ہے۔ بھاشن کوئی بھی جھاڑ لے، آسان کام ہے۔ ہونہہ! اسکی سرخ انگارہ آنکھوں سے درد امنڈ رہا تھا۔


ڈاکٹر کچھ لمحے درزیدہ نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ تم تو بہت دُکھی ہو یار، ا سکے لہجے میں ہمدردی تھی۔


تمہارے لئے خودکشی اشد ضروری ہے۔ ڈاکٹر نے محتاط نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بات جاری رکھی، پر ایسا ہے کہ طریقہ ایسا ہو کہ بچ نہ سکو۔ تم یہ کھاؤ اور سوچو بھی۔ ہر کام سوچ سمجھ کر کریں تو اچھا رہتا ہے۔


ڈاکٹر نے خود بھی ایک کیلا اٹھا کر چھیلا اور کھانے لگا۔ ویسے تو آجکل بہت سے طریقے ہیں خود کشی کے، پر تکلیف تو لازمی ہے سب میں اور پھر جان نکلنے کی تکلیف تو، خیر ۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ میں بچنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے، جیسا کہ تمہارا کیس۔


اس نے ذرا رک کر نوجوان کے تاثرات نوٹ کئے۔ تو ایسا ہے کہ میرے پاس ایک دوا ہے۔ خودکشی کے لئے لاثانی، نہ تکلیف نہ درد ایک ہفتے کے اندر بندہ قضائے الہی سے مرجاتا ہے۔ ڈاکٹر نے فخریہ نظروں سے اسے دیکھا۔


قضائے الہی سے؟ اس نے بدقت سوال کیا۔


وہ ایسے کہ اندرونی نظام پر خاموش اٹیک ہوتا ہے۔


نوجوان چپ رہا۔


قیمت کی فکر مت کرو، خود ہی بناتا ہوں۔ لاگت کچھ خاص نہی آتی۔ ویسے بھی تم سے کیا لینا۔ پر ایسا ہے کہ تمہیں رہنا یہیں پڑے گا۔ دوا کی مقدار میں تجویز کروں گا ناں، تمہاری حالت کے مطابق۔


دوسری طرف ہنوز خاموشی تھی،


اب جیسے تمہاری مرضی۔ ڈاکٹر نے سر کھجاتے ہوئے کلینک کا رخ کیا۔


اور وہ کہیں بھی نہ گیا، مطلب دوا شروع۔۔۔۔۔۔


سن بیٹا! اگر بُرا نہ مانو تو میرے ساتھ کلینک پر بیٹھ جایا کرو۔ بوڑھی جان ہوں۔ مریض زرا بات نہیں مانتے، بعد والا پہلے کو دھکیل کے میرے آگے بیٹھ جاتا ہے۔ گھنٹہ سر کھانے کے بعد دوائی پکڑتے ہیں۔ تنگ آگیا ہوں ان سب سے، جواب ندارد۔ اس تکلیف کو خالی مت خیال کرنا۔

'اچھا'، بیزاری سے بھرپور لہجہ میں اس نے پڑیا پکڑی اور حلق میں انڈیل لی۔ چلو جاتے جاتے بھلا ہوتا ہے تو کیا حرج ہے۔


پر یہ اقرار کافی صبر آزما لگا اسے، جب اگلے دن ہر ایک کی رام کہانی سننے کے باوجود وہ ڈاکٹر کی مدد نہ کر پایا۔ ہاں لیکن یہ تبدیلی ضرور پیش آئی تھی کہ اس رات وہ اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کتنی دُکھی ہے دنیا، میرا دکھ تو جیسے کچھ بھی نہیں۔ عجیب لوگ ہیں، جئے جاتے ہیں، جئے جاتے ہیں۔ بیماریاں، وسائل کی کمی، دکھوں تکلیفوں میں جکڑے ہوئے، کیوں آخر؟ وہ مر کیوں نہیں جاتے؟ اس نے خود کلامی کی۔


تو پوچھنا تھا ناں، ساتھ کی چارپائی سے آواز آئی۔


پوچھوں گا۔ اس نے پر سوچ انداز میں کہا


اگلے دن بھی وہ ان مریضوں کے درد سنتا رہا، پر اپنی تجویز دیتے ہوئے جانے کیوں چپ سی لگ جاتی۔ کل سہی، اور اگلے دن کلینک کے باہر دائیں طرف بیٹھا بابا کرم دین بخار سے تپ رہا تھا۔


اوئے پتر گلاس میں دودھ ڈال اور اسے دوا کھلا کر آ، ڈاکٹر نے گولیاں تھمائیں۔


ساری عمرعزت سے کمانے کھانے والے کو بیٹے بہو نے گلی میں ڈال دیا۔ کٹی ہوئی ٹانگ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ اس کو تو ضرور مرجانا چاہیئے۔ وہ سوچ میں ڈوبا اسکا جائزہ لے رہا تھا۔



بابا یہ لو، لرزتے ہاتھوں نے گلاس تھام لیا۔


ایک بات کہوں، اس نے تمہید باندھی۔ بابا تم اتنی تکلیف میں ہو، جی کر کیا کرنا ہے؟ مر کیوں نہیں جاتے؟


بلاوا آئے گا تو جائیں گے۔


وہ تو پتا نہیں کب آئے خود کیوں نہیں چلے جاتے؟


بابا کرم نے غور سے اسے دیکھا، بیٹا میں اس عمل کے قابل نہیں۔


کیا مطلب؟


مطلب یہ کہ خود کشی حرام ہے۔ پر پھر بھی کرنی ہو تو ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔ تب آپ کرسکتے ہیں۔


ٹیسٹ کیسا؟ وہ حیرت سے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔


دیکھ بیٹا! ہم سب سپہ سالار ہیں اور ہمارے یہ ہاتھ پیر اور ہمارا جسم ہمارے سپاہی ہیں، جدھر چاہیں، حرکت دیں، جو مرضی کام لیں، کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہمیں حکم بھی نہیں دینا پڑتا۔ خیال سے ہی کام ہو جاتا ہے۔ ہے ناں۔ اس نے گویا تصدیق چاہی


اور جواب میں وہ صرف سر ہلا پایا۔


تو یہ تو ہمارے سپاہی ہوئے، ہمارے غلام، ہر لمحہ خدمت کو تیار، اب اللہ نے اس کے علاوہ دو سہیلیاں بھی دی ہیں، بھلا کونسی؟


میں بتاوں؟ ڈاکٹر پیکیوڈ نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔


تو رہن دے، تیری ہی تو ۔۔۔۔۔ اچھا چھوڑو، چل کاکا تو بتا؟


مجھے کیا پتا؟ اس کے ذہن میں کئی پیکر منڈلائے تھے۔


نہیں، تو غلط جارہا ہے۔ بوڑھا قہقہہ لگا کر بولا۔ وہ دو سہیلیاں ہیں عقل اور امید۔


ہر چھوٹے بڑے معاملے میں راہ دکھاتی ہیں، بہترین مشورہ دیتی ہیں، بے ریا اور آپ کیلئے پر خلوص اور امید کسی مہربان کی طرح ہاتھ تھامے رکھتی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں کہیں گر جاؤ تو فوراً آپ کے کپڑے جھاڑے گی، منہ سے مٹی پونچھے گی، اور پھر بھاگ کر کوئی ایسی چیز لائے گی جو آپ کو خوشی دے۔ ہر نئے دن کے ساتھ نئے جذبے، نئے جگنو لاتی ہے۔ آپ کے کان میں سرگوشی کرتی ہے


you are the best ۔۔۔ بابا نے مدھم آواز میں سرگوشی کی۔


وہ گم سم سا بیٹھا تھا، جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو


تو خود کشی کا مطلب ہے پہلے ان سب کو مارنا،ایک ایسا سپہ سالار بننا جو اپنے جانثاروں کو خود قتل کرے، کسی جرم کے بغیر۔ اپنے جگری یاروں کا گلا گھونٹ دے۔


کیا یہ اچھی بات ہے؟


نہیں! اسکے منہ سے سرسراتی سی آواز آئی۔


تو مجھے کیوں بیہودہ مشورے دے رہا تھا؟ بابا نے قدرے غصیلی آواز میں پوچھا


وہ ٹیسٹ، ٹیسٹ تو بتائیں کونسا وہ کھسیا کر فوراً بولا۔


اچھا تو ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط یہ ہے کہ آپ ثابت کردو کہ آپ کے سپاہی اور دوست نہیں رہے اور آپ تنہا جنگ نہیں لڑسکتے، لیکن اگر ایک بھی ساتھی زندہ ہو تو خودکشی حرام ہے۔ پھر جان نہیں چھٹنی۔ اوپر جا کے بھی جواب دینا پڑے گا اور جواب کوئی ہوگا نہیں۔ تو اب سوچ لو کہ ایسی صورتحال میں کیا بنے گا۔ اُدھر سے فرار کے لیے تو خودکشی بھی نہیں ہوتی۔ بات سمجھ میں آئی۔۔


ہاں، ہاں میں تو نہیں ہوں، وہ گبھرا کر کھڑا ہوا


کیا نہیں ہو؟ دونوں بابوں نے ہم آواز پوچھا


وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ دوائی، قضائے الہی والی؟ اس نے بے چینی سے ڈاکٹر کا کندھا ہلایا۔


اوئے جھلیا، ہاضمہ کی پھکی کھا رہا ہے تو آج کل، وہ بھی مفت، ڈاکٹر کی شرارتی نظروں نے اسکے اندر اطمینان کی لہر دوڑادی۔ وہ عرصے بعد مسکرایا اور اسے مسکراتا دیکھ کر امید بھی خوشی سے کچھ اور لینے بھاگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story