کراچی میں بارش 5 افراد جاں بحق
اہم شاہراہوں پر بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں
کراچی میں بدھ کو بالآخر مون سون کی پہلی بارش برس ہی گئی لیکن مختصر دورانیہ کی موسلا دھار بارش نے انتظامی امور کی پول کھول کر رکھ دی۔ بارش سے نہ صرف پورا شہر جل تھل ہوگیا بلکہ برساتی نالوں کی عدم صفائی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے باعث چھوٹی بڑی شاہراہیں ندی نالوں میں تبدیل ہوگئیں۔ اہم شاہراہوں پر بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔
شہر میں بلدیاتی نظام کی غیر فعالیت کے باعث شہری امور تلپٹ پڑے ہیں، برساتی نالوں کی صفائی سمیت شہر میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بعد از برسات کچرے کے ڈھیر گلی محلوں میں پھیل گئے ہیں اور بدبو و تعفن کے باعث شہریوں کی زندگی مشکل ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بارشوں کی پیشگوئی پہلے ہی کی جاچکی تھی، راست ہوتا کہ وقت سے پہلے ضروری اقدامات کرلیے جاتے تو شہر اس طرح مفلوج نہ ہوتا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بارش کے دوران مختلف حادثات کی وجہ سے 5 افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں سے دو اموات کرنٹ لگنے کے باعث ہوئیں۔
حالانکہ بارش شروع ہوتے ہی کے الیکٹرک کے درجنوں فیڈر ٹرپ کرگئے تھے جس کی وجہ سے شہر کے متعدد علاقے کئی گھنٹے تک بجلی سے محروم رہے اور مغرب کے وقت برسنے والی بارش کی وجہ سے شہریوں نے افطاری کی تیاری بغیر بجلی کے اندھیرے میں کی۔ شہر میں ویسے ہی پانی کی شدید قلت ہے اس پر پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی بھی کئی گھنٹوں تک بند رہی، جس سے شہر کو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی۔ گزشتہ دنوں شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے جو شہری بارش کی دعائیں مانگ رہے تھے ان کے لیے یہ برسات رحمت کے بجائے زحمت بن گئی ہے۔
دوسری جانب حیدرآباد، ٹنڈوالہیار، بدین، میرپورخاص، ڈگری، مٹیاری، ٹھٹھہ، خیرپور اور لاڑکانہ سمیت اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش نے گرمی کا زور توڑ دیا اور موسم خوشگوار ہوگیا لیکن ان علاقوں میں بھی بارش کے باعث مواصلاتی اور بجلی کا نظام درہم ہوکر رہ گیا۔ جب کہ آسمانی بجلی گرنے سے ایک لڑکی اور خاتون ہلاک ہوگئی۔
لاہور میں بھی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے اور گزشتہ دنوں کوئٹہ میں بھی غضبناک ژالہ باری ہوئی۔ بارشوں کے باعث ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ٹل رہا ہے اور گرمی کا زور ٹوٹا ہے لیکن شہری انتظامیہ کی نااہلی کے باعث اﷲ کی رحمت کا زحمت میں بدل جانا قابل افسوس ہے۔ بیرون ممالک میں شہروں کے انفرااسٹرکچر میں بارش کے پانی کی نکاسی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ رویہ مفقود ہے۔ راست ہوگا کہ عوام کو سہولت پہنچانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ شہری بارش سے لطف اندوز ہوسکیں۔
شہر میں بلدیاتی نظام کی غیر فعالیت کے باعث شہری امور تلپٹ پڑے ہیں، برساتی نالوں کی صفائی سمیت شہر میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بعد از برسات کچرے کے ڈھیر گلی محلوں میں پھیل گئے ہیں اور بدبو و تعفن کے باعث شہریوں کی زندگی مشکل ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بارشوں کی پیشگوئی پہلے ہی کی جاچکی تھی، راست ہوتا کہ وقت سے پہلے ضروری اقدامات کرلیے جاتے تو شہر اس طرح مفلوج نہ ہوتا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بارش کے دوران مختلف حادثات کی وجہ سے 5 افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں سے دو اموات کرنٹ لگنے کے باعث ہوئیں۔
حالانکہ بارش شروع ہوتے ہی کے الیکٹرک کے درجنوں فیڈر ٹرپ کرگئے تھے جس کی وجہ سے شہر کے متعدد علاقے کئی گھنٹے تک بجلی سے محروم رہے اور مغرب کے وقت برسنے والی بارش کی وجہ سے شہریوں نے افطاری کی تیاری بغیر بجلی کے اندھیرے میں کی۔ شہر میں ویسے ہی پانی کی شدید قلت ہے اس پر پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی بھی کئی گھنٹوں تک بند رہی، جس سے شہر کو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی۔ گزشتہ دنوں شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے جو شہری بارش کی دعائیں مانگ رہے تھے ان کے لیے یہ برسات رحمت کے بجائے زحمت بن گئی ہے۔
دوسری جانب حیدرآباد، ٹنڈوالہیار، بدین، میرپورخاص، ڈگری، مٹیاری، ٹھٹھہ، خیرپور اور لاڑکانہ سمیت اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش نے گرمی کا زور توڑ دیا اور موسم خوشگوار ہوگیا لیکن ان علاقوں میں بھی بارش کے باعث مواصلاتی اور بجلی کا نظام درہم ہوکر رہ گیا۔ جب کہ آسمانی بجلی گرنے سے ایک لڑکی اور خاتون ہلاک ہوگئی۔
لاہور میں بھی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے اور گزشتہ دنوں کوئٹہ میں بھی غضبناک ژالہ باری ہوئی۔ بارشوں کے باعث ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ٹل رہا ہے اور گرمی کا زور ٹوٹا ہے لیکن شہری انتظامیہ کی نااہلی کے باعث اﷲ کی رحمت کا زحمت میں بدل جانا قابل افسوس ہے۔ بیرون ممالک میں شہروں کے انفرااسٹرکچر میں بارش کے پانی کی نکاسی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ رویہ مفقود ہے۔ راست ہوگا کہ عوام کو سہولت پہنچانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ شہری بارش سے لطف اندوز ہوسکیں۔