امجد صابری…خرد آشوب یا درد آشوب
امجد صابری مرحوم سے میری ذاتی ملاقات کوئی بہت زیادہ تو نہیں تھی
امجد صابری مرحوم سے میری ذاتی ملاقات کوئی بہت زیادہ تو نہیں تھی لیکن جتنی بھی تھی اس کا تاثر انتہائی خوشگوار تھا کہ مرحوم نے نہ صرف اپنے بزرگوں سے قوالی کے ساتھ ساتھ کچھ اعلیٰ اخلاقی معیار بھی حاصل کیے تھے بلکہ وہ نئے دور کے تقاضوں اور جدید طرز معاشرت سے بھی بخوبی آگاہ تھے، سو انھوں نے نہ صرف اپنے والد اور چچا کے نام اور کام کو آگے بڑھایا بلکہ بہت جلد اپنی ایک منفرد پہچان بھی قائم کر لی۔ وہ ایک خوش باش بھلے مانس اور درد دل رکھنے والے انسان تھے، زندہ دلی کا یہ عالم تھا کہ مزاحیہ پروگراموں میں بھی بے تکلفی سے شرکت کر لیتے تھے۔
بھاری ڈیل ڈول اور پونی ٹیل کے باوجود کسی بھی محفل میں اجنبی یا مس فٹ نہیں لگتے تھے، صرف چالیس برس کی عمر میں وہ شہرت اور مقبولیت کے جس مقام پر پہنچ گئے وہ اپنی جگہ پر ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے اور اگرچہ وہ طبعی موت نہیںمرے لیکن ان کی رخصت پر ایک بار پھر یہ احساس ضرور تازہ ہوا کہ یہ جو بہت سے نامور اور جلد شہرت پانے والے لوگوں کی زندگی ماہ و سال کے اعتبار سے مختصر اور محدود ہوتی ہے، اس کے پیچھے کیا راز ہے کیونکہ دل اور دماغ دونوں اسے محض ایک اتفاق ماننے پر راضی نہیں ہوتے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی نادیدہ قوت کسی پراسرار طریقے سے یہ بات ان کے لاشعور اور کیمسٹری میں داخل کر دیتی ہے اور وہ ہر کام جلدی جلدی نمٹا کر فارغ ہو جاتے ہیں جب کہ بعضوں کے ہاں یہ خواہش مرگ Death instinct مختلف طرح سے اپنا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔
امجد صابری جیسے شریف النفس' مقبول اور صلح جو قسم کے غیر سیاسی انسان سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی ہے اور یہ کہ ان پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کون تھے اور کیا چاہتے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اس وقت سارا ملک اور میڈیا اپنے اپنے انداز میں قیاس آرائیاں کر رہا ہے، سیاسی اور غیر سیاسی حوالوں سے کئی بیانات اور افواہیں بھی گردش میں ہیں لیکن ان سب میں ایک نقطہ مشترک ہے اور وہ یہ کہ ضرب عضب کی کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے تقریباً تمام نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے ان کی تخریبی صلاحیت اور مورال دونوں ڈاؤن ہوئے ہیں سو انھیں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے کسی ایسے ہائی پروفائل ٹارگٹ کی ضرورت تھی جو لوگوں میں بیک وقت بے چینی اور بے اعتمادی کے احساس کو ہوا دے سکے اور یہ قرعہ فال امجد صابری مرحوم کے نام نکل آیا اور یہ کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کا اغوا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
آج کل فیس بک پر امریکا کی سابق وزیر خارجہ' خاتون اول اور حالیہ صدارتی امیدوار کے ایک بیان کی ویڈیو بہت گردش کر رہی ہے جس میں اس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ کس طرح گزشتہ چار دہائیوں میں امریکی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی حکومت اور عوام دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جن کو بوتل میں واپس بند کیسے کیا جائے کہ اب یہ دہشت گرد بہت حد تک خود اپنے تخلیق کاروں کے کنٹرول سے بھی باہر ہو چکے ہیں۔ کہنے کو حکیم محمد سعید اور امجد صابری کی شہادت دو انتہائی قیمتی جانوں کا نقصان ہے لیکن ان دو واقعات کے درمیان برسوں میں یہ خرد آشوب ایک ایسے درد آشوب کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا زخم تو کراچی کے سینے پر ہے لیکن جس کی ٹیسیں پاکستان کا ہر شہر اور ہر شہری اپنی روح میںمحسوس کر رہا ہے۔
امجد صابری نے شہادت سے چند گھنٹے قبل ایک ٹی وی پروگرام میں جو نعت پڑھی اس نے سیٹ پر موجود تمام لوگوں سمیت لاکھوں ناظرین کو بھی اشکبار کر دیا لیکن اس وقت کسی کو یہ احساس نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا کہ قبر کی جس تنگی اور تنہائی کا ذکر کر کے وہ رسول پاکؐ کی اعانت اور دستگیری کی تمنا کر رہے تھے وہ کچھ ہی دیر میں ایک حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے۔ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ان کی قبر کو کشادہ فرمائے اور اس دعا اور التجا کو شرف قبولیت عطا فرمائے جس کی تمنا انھوں نے اس نعت کو پڑھتے وقت اپنی اشکبار آنکھوں اور ہچکیوں کے درمیان کی تھی۔