افغان مہاجرین کی واپسی حکمت عملی کی محتاج
افغان مہاجرین کی واپسی کو عمل کو اتنا جامع بنایا جائے کہ وہ کسی بھی طور پر بھاگ کر ملک کے دیگر شہروں میں چھپ نہ جائیں
پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کے حوالے سے ملک بھر اور بالخصوص خیبرپختون خوا میں صورتحال خاصی کشیدہ ہوگئی ہے، صوبائی حکومت نے اپنے ایک مراسلے میں جوکہ وفاقی حکومت کو لکھا گیا ہے اس میں 30جون کے بعد افغان مہاجرین کی مزید میزبانی سے صاف انکار کرتے ہوئے انھیں فوری طور پر واپس بھجوانے کا مطالبہ کردیا۔دوسری جانب پشاور پولیس نے غیر قانونی طور پرمقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 2 ہزارافرادکوحراست میں لے لیا جب کہ400کو افغانستان ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔
افغان سفیر نے اس ناروا سلوک پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال ایک دم پیدا ہوئی ہے ہرگزنہیں،اس کے پیچھے ایک طویل المناک کہانی ہے ، بسا اوقات مہمان نوازی کا عمل بلائے جان بن جاتا ہے ، یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا، تین دہائیاں قبل افغانستان کے باسیوں کو ہم نے اپنی سرزمین پرپناہ دی، انھیں ہرطرح کی سہولتیں باہم پہنچائیں، اس امید پر کہ جیسے ہی افغانستان میں جنگ کی صورتحال بہترہوئی یہ پناہ گزین اپنے وطن لوٹ جائیں گے، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے پاکستان کے کندھے جھک گئے، افغان پناہ گزین کیمپوں سے باہر نکل آئے اور انھوں نے پاکستانی شناخی کارڈ بنوالیے،کاروبار اور جائیدادیں بنالیں اور اپنے وطن کو لوٹ جانا بھول گئے اور پھر ہمارے احسانات کا بدلہ ، ہمارے ہی شہروں کو مقتل بنا کردیا ۔
تخریبی کارروائیاں، خودکش بم دھماکے اور پشاورمیں آرمی پبلک اسکول کے پھول جیسے بچوں کا قتل عام ۔ اور یوں لاکھوں مہاجرین کے باعث خیبرپختونخوا کا پورا انفرااسٹرکچرتباہ اور جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا، لوگوں میں احساس عدم تحفظ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ، وفا کا سلسلہ جفا کی صورت میں ملا ۔ افغان مہاجرین کی واپسی کو عمل کو اتنا جامع بنایا جائے کہ وہ کسی بھی طور پر بھاگ کر ملک کے دیگر شہروں میں چھپ نہ جائیں۔ یہ ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے اسے ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے۔
افغان سفیر نے اس ناروا سلوک پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال ایک دم پیدا ہوئی ہے ہرگزنہیں،اس کے پیچھے ایک طویل المناک کہانی ہے ، بسا اوقات مہمان نوازی کا عمل بلائے جان بن جاتا ہے ، یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا، تین دہائیاں قبل افغانستان کے باسیوں کو ہم نے اپنی سرزمین پرپناہ دی، انھیں ہرطرح کی سہولتیں باہم پہنچائیں، اس امید پر کہ جیسے ہی افغانستان میں جنگ کی صورتحال بہترہوئی یہ پناہ گزین اپنے وطن لوٹ جائیں گے، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے پاکستان کے کندھے جھک گئے، افغان پناہ گزین کیمپوں سے باہر نکل آئے اور انھوں نے پاکستانی شناخی کارڈ بنوالیے،کاروبار اور جائیدادیں بنالیں اور اپنے وطن کو لوٹ جانا بھول گئے اور پھر ہمارے احسانات کا بدلہ ، ہمارے ہی شہروں کو مقتل بنا کردیا ۔
تخریبی کارروائیاں، خودکش بم دھماکے اور پشاورمیں آرمی پبلک اسکول کے پھول جیسے بچوں کا قتل عام ۔ اور یوں لاکھوں مہاجرین کے باعث خیبرپختونخوا کا پورا انفرااسٹرکچرتباہ اور جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا، لوگوں میں احساس عدم تحفظ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ، وفا کا سلسلہ جفا کی صورت میں ملا ۔ افغان مہاجرین کی واپسی کو عمل کو اتنا جامع بنایا جائے کہ وہ کسی بھی طور پر بھاگ کر ملک کے دیگر شہروں میں چھپ نہ جائیں۔ یہ ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے اسے ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے۔