ہیں کواکب کچھ
معروف قوال امجد صابری کی شہادت اس سیاسی و سماجی انتشار کا شاخسانہ ہے
معروف قوال امجد صابری کی شہادت اس سیاسی و سماجی انتشار کا شاخسانہ ہے، جس نے تین دہائیوں سے بالخصوص اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے حالانکہ فکری اور تہذیبی نرگسیت کا بھوت روز اول ہی سے مقتدر اشرافیہ کے سرپر سوار چلا آرہا ہے۔ اس قتل سے ثقافتی سطح پر قوم کو کتنا بڑا نقصان پہنچا ہے؟ اس کا اندازہ نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت کی زنجیروں میں جکڑے لوگوں کو نہیں ہوتا۔ ایک ایسا معاشرہ جو فکری پسماندگی اور جہل آمادگی میں مبتلا ہو، اسے کیا معلوم کہ ایک تخلیق کار اور فنکار کتنی مشکل سے تیار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ادیب، دانشور، قلمکار اور فنکار جو دنیا بھر میں کسی معاشرے کے ثقافتی سفیر ہوتے ہیں ، وطن عزیزمیں سب سے زیادہ بے توقیر ہیں۔ ان کا قتل کردیا جانا ایک معمولی واقعے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حکمران مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے چند سکے متاثرہ خاندان کو دے کر اس وقت تک خواب خرگوش میں محو رہتے ہیں، جبتک کہ کوئی دوسرا سانحہ رونما نہیں ہوجاتا۔
پاکستانی معاشرہ قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی زنجیروں ہی میں جکڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ دہرے تہرے معیارات اور منافقانہ روش کا بھی شکار ہے۔ جب حکمران اشرافیہ اور اہل دانش 68برس گذر جانے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے ہوں کہ ملک کے قیام کا منطقی جواز کیا تھا؟ اس کے مستقبل کے اہداف اور سمت کیا ہوگی؟ تو سماج کی نچلی ترین سطح تک کنفیوژن کا پایا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ یہ ماضی کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستانی معاشرہ بدترین فکری، سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار ہے۔ ریاستی منصوبہ سازوں میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ تین دہائی قبل کیے گئے غلط فیصلوں کا ازالہ کرسکیں۔ سرد جنگ کی نفسیات سے نکل کر آج کی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ریاست کے لیے نئی سمت کا تعین کرسکیں۔ نتیجتاً عوام مزید کنفیوژن اور الجھنوں کا شکار ہورہے ہیں۔
پاکستانی عوام کی اکثریت البتہ اس بات پر قائل ہوچکی ہے کہ1980میں اس وقت کے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے جو فیصلے اور اقدامات کیے، وہ غلط تھے۔ مگر ہمارے ریاستی منصوبہ سازوں میں موجود ایک بڑا حلقہ اور بعض سیاسی جماعتیں ان فیصلوں کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنے پر مصر ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بری طرح مجروح ہو رہاہے جب کہ دوسری طرف انھی غلط فیصلوں کے نتیجے میں عوام کے مختلف حلقوں اور طبقات کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اورتناؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آج عوام کی اکثریت متفق ہے کہ ملک سے شدت پسندی، انتہاپسندی اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے کلیدی ضرورت تعلیمی نظام میں اصلاحات ہیں۔ خاص طور پر پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم، دینی مدارس کو قومی دھارے (Mainstream) میں لایا جانا اور سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانا ضروری ہوگیا ہے۔
ان اہداف کے حصول کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر سیاسی عزم و بصیرت اور نیک نیتی کے ساتھ منصوبہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا ہماری سیاسی قیادتوں اور ریاستی منصوبہ سازوں میں یہ اتنی فکری بالیدگی، بصیرت وبصارت، پیشہ ورانہ استعداد اور عزم و حوصلہ ہے کہ وہ قومی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکیں؟ اس سوال کا جواب شاید آج کی قیادت کے بارے میں نفی ہی میں آئے گا کیونکہ ایک ایسی قیادت جو سیاست کو منفعت بخش کاروبار ، عوام کو اپنا غلام اور رعیت اور اس ملک کے وسائل کو شیر مادر سمجھتی ہو،اس سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاستی منصوبہ ساز اور اسٹبلشمنٹ سبھی اس حمام میں ننگے ہیں۔
آپ کسی ملک یا اس کی قیادت کے بارے میں جو بھی رائے رکھیں، مگر تقابلی جائزہ کے لیے کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کا جائزہ لینا بہر حال ضروری ہوتا ہے۔ انڈیا ایکٹ1935کے نتیجے میں 1937میں برٹش انڈیا میں انتخابات ہوئے اور پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ حیدر آباد(دکن) کے دورے کے دوران انھوں نے وہاں 8ایکڑ کا ایک قطعہ اراضی ٹیکنیکل کالج کے لیے لے کر اس پر فوری تعمیر کا حکم دیا۔ دو برس بعد1939میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوجانے پر ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ ساتھ ہی کالج کی تعمیر بھی کھٹائی میں پڑگئی۔
1948میں جب بھارتی حکومت نے ریاست حیدر آباد پر قبضہ کیا، تو پنڈت جی نے ایک بار پھر وہاں کا دورہ کیا اور کالج کی تعمیر کے بارے میں استفسار کیا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ تعمیری کام رکا ہوا ہے، تو اسے فوری شروع کرنے کا حکم دیا۔ آج یہ کالج ایک بڑا تعلیمی مرکز ہے، جہاں سے ہر سال400نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مختلف برانچوں میں ڈگری لے کر نکلتے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد اور سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر غلام السدین کی مساعی سے اعلیٰ معیار کا ٹیکنالوجی کی تعلیم کا ادارہ ''انڈیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی'' قائم کیا جس کی اس وقت پورے ملک میں 26 برانچیں ہیں اور اس کا معیار امریکا کے ادارےMITسے کسی بھی طور کم نہیں ہے۔
مگر ہم نے تعلیم کو پہلے دن سے اہمیت نہیں دی۔ ہر پنج سالہ منصوبے میں تعلیم کے لیے اہداف مقرر کیے جاتے تھے، مگر کبھی کوئی ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ بلکہ ہر آنے والی حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے تعلیم کو تختہ مشق بنایا۔ تعلیمی نظام کی کمر میں پہلی چھری ایوب خان نے گھونپی، رہی سہی کسر جنرل ضیا کے ایڈونچر نے پوری کردی۔ انھوں نے نہ صرف دینی مدارس میں عسکری تربیت کا بندوبست کر کے ان کا حلیہ تبدیل کیا بلکہ عصری تعلیم کے مراکز کے نصاب میں انتہائی غیر معقول تبدیلیاں کرکے ان کا نظام بھی تباہ کردیا۔ ڈاکٹر عبدالحمید نیر نے 2002میں عرق ریزی کے ساتھ ایک متوازن نصاب تعلیم تیار کیا، مگر ان حلقوں نے اسے نافذ نہیں ہونے دیا جو مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
تحریک انصاف نے اپنے منشور میں یکساں نظام تعلیم کی بات کی۔ توقع یہ تھی کہ وہ کم از کم خیبر پختونخواہ میں تمام تعلیمی اداروں کے لیے یکساں اور جدید خطوط پر استوار تعلیمی نصاب تیار کرنے پر توجہ دے گی۔ لیکن اس نے جو نصاب تیار کیا ہے، مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ توکجا، اس میں عسکریت پسند عناصر کو قومی ہیروز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اب اس کی صوبائی حکومت نے2016-17کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ایک مخصوص مسلک کے مدرسے کے لیے 30کروڑ کی گرانٹ مختص کی ہے۔ اس سلسلے میں لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آیا ملک میں صرف ایک ہی مسلک کے مدارس پائے جاتے ہیں؟ کیا دوسرے فقہوں اور مسالک کے مدرسے اس قابل نہیں کہ انھیں مالی امداد دی جائے؟ کیاغیر مسلموں کو اپنے مذہب اور عقیدے کی ترویج کا حق نہیں؟کیا کسی ایک مدرسے کے لیے خطیر رقم مختص کردینے سے دینی مدارس کو قومی دھارے (mainstream) میں لانے کا ہدف حاصل ہوجائے گا؟
اس حوالے سے تحریک انصاف کے سربراہ اور دیگر رہنما جو تاویلات پیش کررہے ہیں ، وہ منطقی استدلال سے عاری محض عذر لنگ ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو، جو دینی مدارس کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کا مخالف ہو لیکن یہاں پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ دینی مدارس کو عصری تعلیمی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے یا ملک کے چپہ چپہ میں موجود کئی ہزار مدارس میں سے صرف ایک مدرسے کی مالی اعانت کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جسے محض مختلف نوعیت کے عذر لنگ کے ذریعے ٹالا نہیں جا سکتا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے میں اتنی ہی سنجیدہ ہے، تو مذکورہ رقم کسی ایک مدرسے کو دینے کے بجائے اسے مجموعی طور پر نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا؟
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز، ریاستی منتظمہ اور بیشتر سیاسی قیادتیں چھوٹے چھوٹے وقتی مفادات کے پیچھے بھاگنے کے عادی ہیں۔ ان میں بصیرت و بصارت اور سیاسی عزم نہیں ہے، جو کسی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ 68برسوں کے دوران ہم اپنے لیے واضح اہداف اور سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے اور ہمیشہ سراب کے پیچھے بھاگتے رہے۔ آج بھی ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے اطراف رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے بجائے ایک بار پھر سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو قبول کرنے سے ہچکچا رہے ہیں اور اسی لیے درست فیصلے کرنے میں دشواریاں آرہی ہیں۔
دہشت گردی، قتل و غارت گری اور بدامنی جیسی عفریت کا خاتمہ کسی ایک مدرسے کی مالی اعانت سے ممکن نہیں۔ یہ محض عذر لنگ ہے۔ اگر وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا نیک نیتی کے ساتھ عزم ہے، تو پھر اسے بانی پاکستان کی11اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کا عکاس بنانا ہوگا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے، جس میں کسی ایک مسلک یا عقیدے کی بالادستی کی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کے تمام فقہوں اور مسالک کے علاوہ غیر مسلموں کا بھی مساوی حق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ادیب، دانشور، قلمکار اور فنکار جو دنیا بھر میں کسی معاشرے کے ثقافتی سفیر ہوتے ہیں ، وطن عزیزمیں سب سے زیادہ بے توقیر ہیں۔ ان کا قتل کردیا جانا ایک معمولی واقعے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حکمران مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے چند سکے متاثرہ خاندان کو دے کر اس وقت تک خواب خرگوش میں محو رہتے ہیں، جبتک کہ کوئی دوسرا سانحہ رونما نہیں ہوجاتا۔
پاکستانی معاشرہ قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی زنجیروں ہی میں جکڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ دہرے تہرے معیارات اور منافقانہ روش کا بھی شکار ہے۔ جب حکمران اشرافیہ اور اہل دانش 68برس گذر جانے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے ہوں کہ ملک کے قیام کا منطقی جواز کیا تھا؟ اس کے مستقبل کے اہداف اور سمت کیا ہوگی؟ تو سماج کی نچلی ترین سطح تک کنفیوژن کا پایا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ یہ ماضی کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستانی معاشرہ بدترین فکری، سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار ہے۔ ریاستی منصوبہ سازوں میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ تین دہائی قبل کیے گئے غلط فیصلوں کا ازالہ کرسکیں۔ سرد جنگ کی نفسیات سے نکل کر آج کی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ریاست کے لیے نئی سمت کا تعین کرسکیں۔ نتیجتاً عوام مزید کنفیوژن اور الجھنوں کا شکار ہورہے ہیں۔
پاکستانی عوام کی اکثریت البتہ اس بات پر قائل ہوچکی ہے کہ1980میں اس وقت کے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے جو فیصلے اور اقدامات کیے، وہ غلط تھے۔ مگر ہمارے ریاستی منصوبہ سازوں میں موجود ایک بڑا حلقہ اور بعض سیاسی جماعتیں ان فیصلوں کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنے پر مصر ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بری طرح مجروح ہو رہاہے جب کہ دوسری طرف انھی غلط فیصلوں کے نتیجے میں عوام کے مختلف حلقوں اور طبقات کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اورتناؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آج عوام کی اکثریت متفق ہے کہ ملک سے شدت پسندی، انتہاپسندی اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے کلیدی ضرورت تعلیمی نظام میں اصلاحات ہیں۔ خاص طور پر پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم، دینی مدارس کو قومی دھارے (Mainstream) میں لایا جانا اور سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانا ضروری ہوگیا ہے۔
ان اہداف کے حصول کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر سیاسی عزم و بصیرت اور نیک نیتی کے ساتھ منصوبہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا ہماری سیاسی قیادتوں اور ریاستی منصوبہ سازوں میں یہ اتنی فکری بالیدگی، بصیرت وبصارت، پیشہ ورانہ استعداد اور عزم و حوصلہ ہے کہ وہ قومی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکیں؟ اس سوال کا جواب شاید آج کی قیادت کے بارے میں نفی ہی میں آئے گا کیونکہ ایک ایسی قیادت جو سیاست کو منفعت بخش کاروبار ، عوام کو اپنا غلام اور رعیت اور اس ملک کے وسائل کو شیر مادر سمجھتی ہو،اس سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاستی منصوبہ ساز اور اسٹبلشمنٹ سبھی اس حمام میں ننگے ہیں۔
آپ کسی ملک یا اس کی قیادت کے بارے میں جو بھی رائے رکھیں، مگر تقابلی جائزہ کے لیے کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کا جائزہ لینا بہر حال ضروری ہوتا ہے۔ انڈیا ایکٹ1935کے نتیجے میں 1937میں برٹش انڈیا میں انتخابات ہوئے اور پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ حیدر آباد(دکن) کے دورے کے دوران انھوں نے وہاں 8ایکڑ کا ایک قطعہ اراضی ٹیکنیکل کالج کے لیے لے کر اس پر فوری تعمیر کا حکم دیا۔ دو برس بعد1939میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوجانے پر ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ ساتھ ہی کالج کی تعمیر بھی کھٹائی میں پڑگئی۔
1948میں جب بھارتی حکومت نے ریاست حیدر آباد پر قبضہ کیا، تو پنڈت جی نے ایک بار پھر وہاں کا دورہ کیا اور کالج کی تعمیر کے بارے میں استفسار کیا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ تعمیری کام رکا ہوا ہے، تو اسے فوری شروع کرنے کا حکم دیا۔ آج یہ کالج ایک بڑا تعلیمی مرکز ہے، جہاں سے ہر سال400نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مختلف برانچوں میں ڈگری لے کر نکلتے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد اور سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر غلام السدین کی مساعی سے اعلیٰ معیار کا ٹیکنالوجی کی تعلیم کا ادارہ ''انڈیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی'' قائم کیا جس کی اس وقت پورے ملک میں 26 برانچیں ہیں اور اس کا معیار امریکا کے ادارےMITسے کسی بھی طور کم نہیں ہے۔
مگر ہم نے تعلیم کو پہلے دن سے اہمیت نہیں دی۔ ہر پنج سالہ منصوبے میں تعلیم کے لیے اہداف مقرر کیے جاتے تھے، مگر کبھی کوئی ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ بلکہ ہر آنے والی حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے تعلیم کو تختہ مشق بنایا۔ تعلیمی نظام کی کمر میں پہلی چھری ایوب خان نے گھونپی، رہی سہی کسر جنرل ضیا کے ایڈونچر نے پوری کردی۔ انھوں نے نہ صرف دینی مدارس میں عسکری تربیت کا بندوبست کر کے ان کا حلیہ تبدیل کیا بلکہ عصری تعلیم کے مراکز کے نصاب میں انتہائی غیر معقول تبدیلیاں کرکے ان کا نظام بھی تباہ کردیا۔ ڈاکٹر عبدالحمید نیر نے 2002میں عرق ریزی کے ساتھ ایک متوازن نصاب تعلیم تیار کیا، مگر ان حلقوں نے اسے نافذ نہیں ہونے دیا جو مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
تحریک انصاف نے اپنے منشور میں یکساں نظام تعلیم کی بات کی۔ توقع یہ تھی کہ وہ کم از کم خیبر پختونخواہ میں تمام تعلیمی اداروں کے لیے یکساں اور جدید خطوط پر استوار تعلیمی نصاب تیار کرنے پر توجہ دے گی۔ لیکن اس نے جو نصاب تیار کیا ہے، مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ توکجا، اس میں عسکریت پسند عناصر کو قومی ہیروز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اب اس کی صوبائی حکومت نے2016-17کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ایک مخصوص مسلک کے مدرسے کے لیے 30کروڑ کی گرانٹ مختص کی ہے۔ اس سلسلے میں لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آیا ملک میں صرف ایک ہی مسلک کے مدارس پائے جاتے ہیں؟ کیا دوسرے فقہوں اور مسالک کے مدرسے اس قابل نہیں کہ انھیں مالی امداد دی جائے؟ کیاغیر مسلموں کو اپنے مذہب اور عقیدے کی ترویج کا حق نہیں؟کیا کسی ایک مدرسے کے لیے خطیر رقم مختص کردینے سے دینی مدارس کو قومی دھارے (mainstream) میں لانے کا ہدف حاصل ہوجائے گا؟
اس حوالے سے تحریک انصاف کے سربراہ اور دیگر رہنما جو تاویلات پیش کررہے ہیں ، وہ منطقی استدلال سے عاری محض عذر لنگ ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو، جو دینی مدارس کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کا مخالف ہو لیکن یہاں پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ دینی مدارس کو عصری تعلیمی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے یا ملک کے چپہ چپہ میں موجود کئی ہزار مدارس میں سے صرف ایک مدرسے کی مالی اعانت کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جسے محض مختلف نوعیت کے عذر لنگ کے ذریعے ٹالا نہیں جا سکتا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے میں اتنی ہی سنجیدہ ہے، تو مذکورہ رقم کسی ایک مدرسے کو دینے کے بجائے اسے مجموعی طور پر نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا؟
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز، ریاستی منتظمہ اور بیشتر سیاسی قیادتیں چھوٹے چھوٹے وقتی مفادات کے پیچھے بھاگنے کے عادی ہیں۔ ان میں بصیرت و بصارت اور سیاسی عزم نہیں ہے، جو کسی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ 68برسوں کے دوران ہم اپنے لیے واضح اہداف اور سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے اور ہمیشہ سراب کے پیچھے بھاگتے رہے۔ آج بھی ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے اطراف رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے بجائے ایک بار پھر سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو قبول کرنے سے ہچکچا رہے ہیں اور اسی لیے درست فیصلے کرنے میں دشواریاں آرہی ہیں۔
دہشت گردی، قتل و غارت گری اور بدامنی جیسی عفریت کا خاتمہ کسی ایک مدرسے کی مالی اعانت سے ممکن نہیں۔ یہ محض عذر لنگ ہے۔ اگر وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا نیک نیتی کے ساتھ عزم ہے، تو پھر اسے بانی پاکستان کی11اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کا عکاس بنانا ہوگا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے، جس میں کسی ایک مسلک یا عقیدے کی بالادستی کی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کے تمام فقہوں اور مسالک کے علاوہ غیر مسلموں کا بھی مساوی حق ہے۔