سب سے کم عمر سیارہ دریافت
ماہرین فلکیات سیاروں کی پیدائش اور ارتقائی مراحل کے بارے میں جاننے کے لیے پُرامید
لاہور:
ماہرین فلکیات سولر سسٹم کی حدود سے باہر، مختلف خصوصیات کے حامل سیکڑوں سیارے دریافت کرچکے ہیں۔ بیش تر سیارے گیسی ہیں۔ کئی کی جسامت اتنی زیادہ ہے کہ نظام شمسی کا جسیم ترین رکن مشتری بھی ان کے مقابلے میں چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ چند سیارے ہمارے سورج سے بھی کئی گنا بڑے ہیں۔ انہی میں چٹانی سیارے بھی شامل ہیں۔ سائنس دانوں کے علم میں زمین سے مشابہ سیارے بھی آئے جن پر زندگی کی موجودگی کا امکان ہو سکتا ہے۔
چند ایسے سیارے دریافت ہوئے جن کے طبعی خواص نے ماہرین فلکیات کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ ایسے سیارے تھے جن کے خواص مسلمہ سائنسی قوانین سے متصادم تھے اور ان کا وجود ان مفروضوں یا قوانین کی روشنی میں ممکن ہی نہ تھا۔ خلا کی وسعتوں میں ماہرین کی کھوج اور جدید سائنسی آلات کی بدولت معلومات کا حصول جاری ہے اور حال ہی میں ماہرین فلکیات نے سب سے کم عمر سیارہ دریافت کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے نودریافت شدہ سیارہ ارتقائی مراحل طے کررہا ہے اور یہ اس سیارے کی اہم اور خاص بات ہے۔ یوں اسے' ٹین ایج پلینیٹ' بھی کہا جاسکتا ہے۔
نو دریافت شدہ سیارے کو K2-33bکا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کی عمر پچاس لاکھ سے ایک کروڑ سال تک ہوسکتی ہے۔ تاہم انسانوں کے وضع کردہ نظام اور قوانین کہتے ہیں کہ کائناتی معیار کے تحت دیکھا جائے تو یہ ابھی 'نوجوان' ہے۔ ماہرینِ فلکیات کی حاصل کردہ ابتدائی اور بنیادی معلومات کے مطابق یہ زمین سے پانچ سو نوری سال کی دوری پر اپنے سورج کے گرد محو گردش ہے۔ کم عمر سیارے میں ماہرین فلکیات کی دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی میں سیاروں کی پیدائش اور ارتقا کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
K2-33bکے بارے میں جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق نودریافت شدہ سیارہ جسامت میں نظام شمسی کے بعید ترین سیارے نیپچون سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نودریافت شدہ سیارے کا قطر 30700 میل ہے۔ یعنی یہ ہماری زمین سے چار گنا بڑا ہے۔ تاہم عمر کے اعتبار سے زمین، اس 'نوجوان' سیارے سے 450 گنا بڑی ہے۔
K2-33b کا سراغ لگانے والی ٹیم میں ڈاکٹر ساشا ہنکلے بھی شامل تھے۔ ان کا تعلق ایکسیٹر یونیورسٹی سے ہے۔ ڈاکٹر ساشا کہتے ہیں کہ ایک ایسے سیارے کی دریافت ان کی ارتقا کو سمجھنے کا انتہائی نادر موقع ہے جو ہنوز طفولیت کے دور سے گزر رہا ہو۔ اس سے ہمیں بالغ اور عمر رسیدہ سیاروں بشمول زمین، کی پیدائش اور ارتقا کے بارے میں جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر ساشا کے مطابق سب سے پہلے وہ یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ اس سیارے کی پیدائش موجودہ مقام ہی پر ہوئی ہے یا اس نے کہیں اور آنکھ کھولی، اور پھر بہ تدریج اس مقام تک پہنچا ہے۔
فلکیاتی تحقیقی ٹیم موجودہ دریافت کے حوالے سے بہت پُرجوش ہے، کیوں کہ اب انھیں سیاروں کی پیدائش و ارتقائی عمل کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور اس ٹیم میں شامل اراکین کا یہ پہلا تجربہ ہو گا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق ٹین ایج سیارے کے گرد غبار اور گیس کا ہالہ اب بھی موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نظام شمسی بھی ہنوز ارتقائی مراحل میں ہے جس کا یہ سیارہ رکن ہے۔ یہ گردوغبار اور گیسیں مل کر ہی سیارے تشکیل دیتی ہیں۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس گیس اور گردوغبار سے مزید سیارے تشکیل پائیں گے، مگر اس عمل میں لاکھوں سال درکار ہوں گے۔
ماہرین فلکیات سولر سسٹم کی حدود سے باہر، مختلف خصوصیات کے حامل سیکڑوں سیارے دریافت کرچکے ہیں۔ بیش تر سیارے گیسی ہیں۔ کئی کی جسامت اتنی زیادہ ہے کہ نظام شمسی کا جسیم ترین رکن مشتری بھی ان کے مقابلے میں چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ چند سیارے ہمارے سورج سے بھی کئی گنا بڑے ہیں۔ انہی میں چٹانی سیارے بھی شامل ہیں۔ سائنس دانوں کے علم میں زمین سے مشابہ سیارے بھی آئے جن پر زندگی کی موجودگی کا امکان ہو سکتا ہے۔
چند ایسے سیارے دریافت ہوئے جن کے طبعی خواص نے ماہرین فلکیات کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ ایسے سیارے تھے جن کے خواص مسلمہ سائنسی قوانین سے متصادم تھے اور ان کا وجود ان مفروضوں یا قوانین کی روشنی میں ممکن ہی نہ تھا۔ خلا کی وسعتوں میں ماہرین کی کھوج اور جدید سائنسی آلات کی بدولت معلومات کا حصول جاری ہے اور حال ہی میں ماہرین فلکیات نے سب سے کم عمر سیارہ دریافت کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے نودریافت شدہ سیارہ ارتقائی مراحل طے کررہا ہے اور یہ اس سیارے کی اہم اور خاص بات ہے۔ یوں اسے' ٹین ایج پلینیٹ' بھی کہا جاسکتا ہے۔
نو دریافت شدہ سیارے کو K2-33bکا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کی عمر پچاس لاکھ سے ایک کروڑ سال تک ہوسکتی ہے۔ تاہم انسانوں کے وضع کردہ نظام اور قوانین کہتے ہیں کہ کائناتی معیار کے تحت دیکھا جائے تو یہ ابھی 'نوجوان' ہے۔ ماہرینِ فلکیات کی حاصل کردہ ابتدائی اور بنیادی معلومات کے مطابق یہ زمین سے پانچ سو نوری سال کی دوری پر اپنے سورج کے گرد محو گردش ہے۔ کم عمر سیارے میں ماہرین فلکیات کی دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی میں سیاروں کی پیدائش اور ارتقا کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
K2-33bکے بارے میں جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق نودریافت شدہ سیارہ جسامت میں نظام شمسی کے بعید ترین سیارے نیپچون سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نودریافت شدہ سیارے کا قطر 30700 میل ہے۔ یعنی یہ ہماری زمین سے چار گنا بڑا ہے۔ تاہم عمر کے اعتبار سے زمین، اس 'نوجوان' سیارے سے 450 گنا بڑی ہے۔
K2-33b کا سراغ لگانے والی ٹیم میں ڈاکٹر ساشا ہنکلے بھی شامل تھے۔ ان کا تعلق ایکسیٹر یونیورسٹی سے ہے۔ ڈاکٹر ساشا کہتے ہیں کہ ایک ایسے سیارے کی دریافت ان کی ارتقا کو سمجھنے کا انتہائی نادر موقع ہے جو ہنوز طفولیت کے دور سے گزر رہا ہو۔ اس سے ہمیں بالغ اور عمر رسیدہ سیاروں بشمول زمین، کی پیدائش اور ارتقا کے بارے میں جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر ساشا کے مطابق سب سے پہلے وہ یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ اس سیارے کی پیدائش موجودہ مقام ہی پر ہوئی ہے یا اس نے کہیں اور آنکھ کھولی، اور پھر بہ تدریج اس مقام تک پہنچا ہے۔
فلکیاتی تحقیقی ٹیم موجودہ دریافت کے حوالے سے بہت پُرجوش ہے، کیوں کہ اب انھیں سیاروں کی پیدائش و ارتقائی عمل کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور اس ٹیم میں شامل اراکین کا یہ پہلا تجربہ ہو گا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق ٹین ایج سیارے کے گرد غبار اور گیس کا ہالہ اب بھی موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نظام شمسی بھی ہنوز ارتقائی مراحل میں ہے جس کا یہ سیارہ رکن ہے۔ یہ گردوغبار اور گیسیں مل کر ہی سیارے تشکیل دیتی ہیں۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس گیس اور گردوغبار سے مزید سیارے تشکیل پائیں گے، مگر اس عمل میں لاکھوں سال درکار ہوں گے۔